نیا لشکر نئے تمندار۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
روزنامہ انتخاب کے نو نومبر 2020 کی اشاعت میں راقم نے,, کشمکش،، کے عنوان سے کالم میں پیشنگوئی کی تھی نواب ثنا اللہ زہری اور جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ن لیگ سے ناراض سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری اور واجہ عبد القادر بلوچ سے سردار نبیل گبول، سردار عمر گورگیج،سلیم مانڈوی والامسلسل رابطے میں ہیں،نواب ثنا اللہ زہری نے سردار آصف علی زرداری سے اپنی حکومت ختم کرانے کا گلہ کیا ہے،رسمی گلہ شکوہ کے بعد نواب صاحب نے باقاعدہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی حامی بھر لی ہے، آصف علی زرادری نے نواب صاحب کو پیغام پہنچا یا تھا کہ2018کو آپ کو وزارت اعلیٰ سے نکلوانے کا بدلہ 2023کے عام انتخابات میں وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ کر چکایا جائے گا۔نواب ثنا للہ زہری اور پیپلز پارٹی نمائندہ وفود کے درمیان 8.9ماہ کی گفت و شنید کے بعد چیف آف جھلاوان نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، ظاہر ہے ریٹائرڈ جنرل عبد القادر بلوچ بھی نواب صاحب کے ساتھ ہوں گے،یوں سمجھیں کہ چیف آف جھلا وان اپنے ہم نواساتھیوں کے ساتھ با مشرف پیپلز پارٹی ہوچکے ہیں اب محض رسمی اعلان باقی ہے،رسمی اعلان میں تاخیر کاسبب چیئرمن پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی پنجاب اور کشمیر میں پارٹی مصروفیات بتائی جارہی ہیں،چونکہ اقتدار عظمیٰ دلانے کا محور پنجاب ہی ہے اس لئے سردار آصف علی زرادری اور بلاول بھٹو نے پنجاب کو فوکس کر رکھا ہے،نئے سیاسی صف بندیوں کی پیش نظر آصف علی زرادری صاحب نے چوہدری بردران،منظور وٹو سمیت پنجاب کے اہم سیاسی خانوادوں سے ملاقاتیں کی ہیں،پنجاب سے فراغت کے بعد پیپلز پارٹی کے مرکزی قیادت کا رخ بلوچستان کی طرف ہوگا،بہت جلدایک بڑی سیاسی بیٹھک میں نواب ثنا اللہ زہری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیپلز شامل ہوں گے، پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ نواب ثنا اللہ زہری کے علاوہ بلوچستان سے الیکٹیبلز کی ایک بہت بڑی کھیپ انکی جماعت میں شامل ہو، یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرادری کی جانب سے چیف آف بیرک نواب محمد خان شاہوانی اور سردار کمال خان بنگلزئی سے رابطہ کیا گیا ہے، یہ دونوں قبائلی سربراہان سنجیدگی سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی سوچ و بچار میں مصروف ہیں، سیاسی ہوا کا رخ بھانپ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے لیکن غالب گمان یہی ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی کی چھتری تلے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا ہے،سردار کمال خان بنگلزئی اور نواب محمدخان شاہوانی نے 2013کے عام انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی میں شامل ہوکر قوم پرستی کا بیرک (جھنڈا) تھام رکھا تھا، اب یہ نہیں معلوم بیرک میں لگی لکڑی کی تپش تپتی دھوپ میں ہاتھوں کو جھلسانے لگی ہے یا لشکر کے سپہ سالار نے بیرک کسی اور تمندار کو اتھما دیاہے،معاملہ کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ چیف آف بیرک اور سردار بنگلزئی نیشنل پارٹی کے لشکر کو الوداع کہنے کے قریب ہیں،خبر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی نے سر دار یار محمد رند اور سردار محمد صالح بھوتانی کو بھی اپنے قافلے میں شامل ہونے کی دعوت تبلیغ کی ہے،ساتھ ہی ساتھ جمیعت علما اسلام بھی سردار رند کو اپنی جماعت کے آغوش میں لینے کی ترغیب دے رہی ہے، بلوچستان کی سیاست سے واقفیت رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سردار یار محمد رند کو پیپلز پارٹی کے بجائے جمعیت کا چایا چتر زیادہ عزیز ہوگا کیونکہ جمعیت کے زیر سایہ وزارت اعلیٰ کا خوش گوار خواب دیکھا جا سکتا ہے، اگر نواب ثنا اللہ زہری دوسری باروزیر اعلیٰ بننے کی خواہش رکھ سکتے ہیں تو سردار یار محمد رند جمعیت میں رہ کر یہ خواب کیوں نہیں دیکھ سکتے۔۔؟ نوابوں و سرداروں اور بلوچستان کی سیاست کا زکر چھڑ ہی گیا ہے تو ہم نوبزادہ گزیں مری کو کیوں بھول جائیں۔؟انہیں بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، یہ بات وثوق سے اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے کہ نوابزادہ گزیں مری کی باقی نوابوں،سرادروں کی بہ نسبت سردار آصف علی زرداری سے مراسم نہ صرف پرانے ہیں بلکہ حد درجہ دوستانہ بھی ہیں،آصف علی زرادری سے متعلق مشہور ہے کہ وہ دوستوں کو اکیلے نہیں چھوڑتے، اور ہاں لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک سٹنگ ایم پی اے بذات خود پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں، انہیں خدشہ ہے بی این پی آنے والے وقت میں انہیں ٹکٹ نہیں دے گی، انہیں لگتا ہے کہ قوم پرستی کی بجائے وفاق پرستی کی سیاست انکی سیاسی کیریئر کیلئے مثبت پیش رفت ہوگی، بی این پی قیادت کے اندر مارچ کی سینٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹنگ گھپلے میں ان پر شک کیا جارہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمن آصف علی زرداری برملا کہہ چکے نواب ثنا للہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بنیادی محرک وہ خود یعنی کہ پیپلز پارٹی تھی، 2018کو یار لوگوں نے آصف علی زرداری کوا چھا خاصہ چونا لگا دیا تھا،جس کی وجہ سے یار لوگوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان ناراضگیاں پیدا ہوگئی تھیں، ایک بار پھر سردار آصف علی زرداری پر امید ہیں کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگی،بلوچستان کے الیکٹیبلز پیپلز پارٹی کے لارا لپے کی وجہ سے اقتدار کے حصول کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں،لیکن بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ باقی تین صوبوں سے زرا ہٹ کر ہے، یہاں فیصلے عین وقت پر کئے جاتے ہیں،فیصلوں کیلئے لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں پڑتی،یہاں راتوں رات قوم پرست,, نظریہ،، کے حامل لوگ ق لیگ میں شامل ہوتے ہیں، اگلی مدت میں نہا دھوکر پھر قوم پرستی کا لباس پہن لیتے ہیں،بلوچستان میں 20گزکا دستار اور شیروانی کے ساتھ قرا قلی پہننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، ممکن ہے مفاہمت کے بادشاہ نے مفاہمت کی کوئی سبیل نکال لی ہو جس کی تیاریاں کی جارہی ہیں،اگر ایسا ہی تو دو چار سردار ہی کیوں؟ بلوچستان کے 20.25الیکٹیبلزکی پوری کھیپ,, دلء تیر جنء،، رٹنے کو تیار بیٹھی ہے۔سوچتا ہوں وہ کیا نظارہ ہوگا جب بلوچستان کے معزز سردار ونواب،پکی سیٹیں جیتنے والے سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ اپنے نئے نوجوان قائد چیئرمن پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرادری کے دائیں بائیں شان سے بیٹھے ہوں گے، پیپلز پارٹی سے پکی وفاداری کی وعدے وئید کررہے ہوں گے،جس دن چشم فلک نے یہ نظارہ محفوظ کر لیا تو یقین جانئے اسکے بعد دنیا بھر کی طاقتیں ایڑی چھوٹی کا زور لگا لیں بلوچستان میں احساس محرومی دفن ہونے اور خوشحالی آنے کا رستہ نہیں روک پائیں گی۔