آتش فشان پھٹنے کو ہے؟

تحریر: انورساجدی
زرداری صاحب نے فرمایا کہ
حکومت تو ہے نہیں کس کو گرائیں
یہ ایک سیاسی چالاکی والا بیان ہے
اپوزیشن لیڈر شہبازشریف اپنے30اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ رفوچکر ہوگئے بجٹ ایک منٹ میں پاس ہوگیا ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ نہیں کروائی اور اعلان کیا کہ ہاں کہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے فنانس بل منظور کیا جاتا ہے سنا ہے کہ شہبازشریف کو ایک فون کال گئی تھی جس میں واضح ہدایت کی گئی تھی کہ افغانستان کی وجہ سے صورتحال گھمبیر ہے لہٰذا بجٹ کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے یہ تو معلوم نہیں کہ شہبازشریف کا جواب کیا تھا لیکن جو انہوں نے آنکھیں بند کرکے ایکٹ کیا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اس پر مزید کیا تبصرہ کیاجاسکتا ہے۔
البتہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے یہ سارا ڈرامہ ہے حکومت ہو یا اپوزیشن ایک ہی جگہ سے کنٹرول ہوتے ہیں یعنی کوئی اپوزیشن نہیں کوئی حکومت نہیں سارے ایک پیج پر ہیں۔آئندہ چند ہفتوں میں جو اہم فیصلے ہونگے وہ افغانستان کے تناظر میں ہونگے ایک نئی سیکیورٹی اور سیاسی ڈاکٹرائن ترتیب دیدی گئی ہے پارلیمانی لیڈروں کو آج یکم جولائی کو نئی ڈاکٹرائن کے خدوخال سے آگاہ کردیا جائیگا معلوم نہیں کہ جو پالیسی بنائی گئی ہے اس کی باریکیوں سے بھی آگاہ کیاجائے گا یا سرسری باتیں بتادی جائیں گی۔
جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے تو امریکہ ستمبر کی ڈیڈلائن سے کہیں پہلے انخلا کررہا ہے وہاں پر فریقین ایک خانہ جنگی کی تیاری کررہے ہیں جس کی ابتدا ہوچکی ہے اشرف غنی اور اس کی فورسز میں اتنی جان نہیں کہ وہ طالبان اور ان کے سرپرستوں کی یلغار کو روک سکیں اگست ستمبر میں جب امریکی انخلا مکمل ہوجائے گا طالبان کابل میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے جبکہ شمالی اتحاد کے جھتے اور وارلارڈ کے لشکر طالبان کاراستہ روکنے کی کوشش کریں گے اللہ کرے کہ گزشتہ خانہ جنگوں کی طرح کابل دوبارہ کھنڈرات میں تبدیل نہ ہوجائے ناحق انسانی خون کا سمندر نہ بہے لیکن افغانستان کی تاریخ یہی ہے اور یہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا کررہے گی۔
پاکستانی حکمران دوباتوں سے فکرمند ہیں ایک یہ کہ لاکھوں افغان مہاجرین ادھر کا رخ نہ کریں دوسرا یہ کہ خانہ جنگی افغان سرزمین کے دائرے کے اندر رہے اور وہ اس طرف نہ آئے لیکن ایک بات طے ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو وہ سرحدیں نہیں دیکھتی اور دونوں طرف متاثر کرتی ہے اگرمزید مہاجرین نے بلوچستان کا رخ کیا تو یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہوگی کیونکہ جو مہاجرین نام نہاد امریکی جہاد کے وقت بلوچستان آئے تھے وہ واپس نہیں گئے ان میں سے کم از کم 15لاکھ مہاجرین کو مردم شماری میں شمار کیا گیا جس کی وجہ سے آبادی کے توازن میں بہت زیادہ خلل پڑا اگرتازہ آنے والے مہاجرین اگلی مردم شماری تک موجود رہے تو تباہ کن ڈیموگرافک تبدیلی آجائے گی۔
افغان صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے سیکیورٹی اخراجات بے انتہا بڑھ جائیں گے۔ملکی وسائل کا بڑا حصہ اس مقصد کیلئے صرف کرنا پڑے گا جبکہ اس وقت حکومتی دعوؤں کے برعکس خزانہ کی پوزیشن پتلی ہے جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ قیاس آرائیوں اور خیالی پلاؤ پر مبنی ہے۔
جب حقیقت سامنے آجائے گی تو اس وقت ہی پتہ چلے گا کہ حکومت نے کس قدر غلط بیانی اور جعلی اعدادوشمار سے کام لیا ہے اس وقت جو ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے وہ اگرچہ درست نہیں ہے لیکن وہ سارے وسائل سیکیورٹی پر جھونکنے پڑیں گے عین ممکن ہے کہ اخراجات ضروریہ کے علاوہ دیگرتمام مراعات کو منجمد کردیاجائے تاکہ جنگی اخراجات پورے کئے جاسکیں۔
حکومت کیلئے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ امریکہ نے فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگ لی ہے جبکہ ڈرون حملوں کیلئے سہولیات بھی طلب کی گئی ہیں اگرچہ عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو اڈے نہیں دیئے جائیں گے لیکن اس انکار کی صحت پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ جو کچھ بھی کیا گیا تو عمران خان سے پوچھے گا کون؟ کیاپتہ کہ تمام معاملات پہلے سے طے کئے گئے ہوں؟ اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ وزیراعظم عمران خان سے رابطے میں نہیں ہے بلکہ اس کا رابطہ براہ راست راولپنڈی سے ہے اسی طرح فٹیف کے مسئلہ پر یورپی یونین کے صدر نے عمران خان سے کوئی بات نہیں کی بلکہ اس نے راولپنڈی ٹیلی فون کرکے بات چیت کی چنانچہ یہ تو طے ہے کہ امریکہ حملے کرے گا ڈرون استعمال کرے گا تو سوال یہ ہے کہ وہ کہاں سے کرے گا۔پسنی کے قریب کھلے سمندر میں جو امریکہ طیارہ بردار جہاز لنگر انداز ہے وہ کس لئے ہے اگر اس نے کروزمیزائل داغے یا اس سے طیاروں نے پرواز کرکے طالبان کے ٹھکانوں پرحملے کئے تو وہ کس فضائی حدود سے ہوکر جائیں گے آئندہ چند ہفتوں میں جو کچھ ہونیوالا ہے افغانستان میں بڑا خوف وہراس پایا جاتا ہے جبکہ سرحد کے دونوں طرف کے لوگ بھی حیران وپریشان ہیں سابق فاٹا اور پشتونخوا کے بعض حساس علاقوں میں صورتحال انتہائی سنجیدہ ہے تواتر کے ساتھ واقعات ہورہے ہیں لوگ سنجیدہ فکر مند اور غیرمطمئن ہیں جن کااظہار لالہ عثمان خان کاکڑ کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے ہوا اس جنازے میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے لوگوں نے شرکت کی۔ لالہ کی لحد کے اوپر افغانستان کا پرچم نصب کیا گیا جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے عجیب بات کی کہ پاکستان ہمارا ملک اور افغانستان وطن ہے اس سے زیادہ واضح بیان تو افغانستان صدر اشرف غنی کا تھا انہوں نے کہا کہ عثمان خان افغان سرزمین کے ایک بڑے لیڈر تھے ان کی ناگہانی رحلت سے پورے خطے میں غم وغصہ پایاجاتا ہے۔اسی طرح منظور پشین کا بیان بھی کافی واضح تھا بدقسمتی سے ریاست کے باقی حصوں کے لوگ بلوچ اور پشتون حساسیت اور تاریخ سے واقف نہیں ہیں وہ ایک اسلامی امت ملت پر فخر ضرور کرتے ہیں لیکن وہ افغانستان ملت اور بلوچ وحدت سے نابلدہیں اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ انگریز استعمار کی جغرافیائی تقسیم کی وجہ سے یہ دونوں اقوام ایک سے زائد ممالک میں تقسیم ہیں لیکن وہ وطن اس قطعہ زمین کو بولتے ہیں جو ان کی سرزمین ہے جسے پشتون مادروطن اور بلوچ گلزمین کہتے ہیں ان کے دلوں میں یہ آس اور امید موجود ہے کہ وہ ایک دن ضرور دوبارہ متحد ہونگے باقی لوگوں کے نزدیک بلوچ اور پشتون فیڈریشن کی دو وحدتوں کاحصہ ہیں لیکن وہ خود اپنی سرزمین کو صوبہ نہیں سمجھتے بلکہ اپنا مادر وطن سمجھتے ہیں اسی لئے جب پشتون خود کو افغان قوم کہتے ہیں تو ان پر غداری کالیبل چسپاں کیاجاتا ہے حالانکہ یہ اپروچ غلط ہے پشتون ہزاروں سال سے افغان ہیں اور نئے جغرافیائی انتظامات ان کی اصلیت ختم نہیں کرسکتے اس طرح ایران لاکھ کوشش کرے لیکن وہ مغربی بلوچستان کے لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ خود کوقدیم قاچار سلطنت کاحصہ تسلیم کرے یہ سارے انتظامات 19ویں اور بیسویں صدی کا دین ہے دنیا میں جغرافیائی تفیروتبدل آتے رہتے ہیں گزشتہ صدی کی بات ہے کہ فارس ایران بن گیا اور فوج کے ایک معمولی سپاہی نے پہلے خود کو شاہ اور بعدازاں شہنشاہ ایران قراردیا اسی طرح انگریز استعمار نے افغان امیر کو مجبور کیا کہ وہ بندوق کے سائے میں افغانستان کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کردے۔
افغان ملت کے تصور کو اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ گزشتہ صدی میں جس شخص نے آزاد پختونستان کی بنیاد رکھی وہ شخص خود پشتون نہیں تھے بلکہ افغان ملت کا حصہ تھے۔
محمود خان کی یہ بات درست ہے کہ اگرریاست کو آئین کے مطابق چلایاجائے پارلیمان کو سپریم ادارہ قراردیاجائے جمہوریت کی بالادستی قائم کی جائے تو یہ مضبوط ہوسکتی ہے لیکن محکوم اقوام کی غلامی کی بنیاد پر یہ انتظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا لیکن لگتا نہیں کہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی بلکہ اہم ترین معاملات غداری اور حب الوطنی کے غیرسنجیدہ نعروں کے درمیان ہوا میں اڑادیئے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں