پروفیسر عزیز بگٹی کی یاد میں منعقد سیمینار کی روداد

تحریر:جمیل بزدار

شال میں پولی ٹیکنیکل کالج میں پروفیسر عزیز بگٹی کی یاد میں ان کے ادبی و سیاسی کاموں کو اجاگر کرنے کےلیے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے ایک خوبصورت سیمینار منعقد کی گئی۔
ہمارا خیال تھا کہ ہم دیر سے پہنچے کوئی 1 بجنے کو تھے کہ جب ہم کالج کے مین گیٹ میں داخل ہوئے, جبکہ پروگرام کا ٹائم 12 بجے رکھا گیا تھا۔ یہ کالج چونکہ سریاب روڈ پر واقع ہے تو ٹریفک کے بے ہنگم رش کی وجہ سے ٹائم پر پہنچنے والا انسان بھی دیر سے پہنچ جاتا ہے خیر ہم وہاں موجود دوستوں کی رہنمائی میں حال تک پہنچے۔ حال کے باہر سٹال پر کتابیں سجی ہوئی تھیں (پچھلے ایک برس سے بلوچستان کے ہر ادبی و سیاسی پروگرام میں اکثر بک میلہ لازم لگتا ہے جو کہ انتہائی خوبصورت عمل ہے) ۔ حال نوجوانوں سے بھری پڑی تھی جن میں اکثریت طالب علموں کی تھی ۔ چونکہ پروگرام کے مہمان لیٹ تھے اس لیے پروگرام ہمارے آنے تک شروع نہیں ہوا تھا ۔ معلوم پڑا کہ پروفیسر عزیز بگٹی کے صاحبزادے زبرین بگٹی راستے میں ہیں۔ ان کے پہنچتے ہی پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ۔
اسٹیج سیکریٹری کی خدمات بساک سے تعلق رکھنے والی ایک فی میل اسٹوڈنٹ ادا کر رہی تھی ، بلوچستان میں پچھلے ایک دہائی سے فی میل اسٹوڈنٹس سیاست میں فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہی ہیں وہ بانک کریمہ بلوچ ہوں ، بانک ماہ رنگ ہوں یا موجودہ بساک کے چئیر پرسن بانک صبیحہ بلوچ ہوں ۔ راج دوستی و سیاست میں یقینا خواتین کا کردار انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
اس سیمینار کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا:
پہلا حصے میں ڈکومینٹری ، دوسرے میں اسپیچز اور تیسرے میں پینل ڈسکشن رکھا گیا تھا ۔ تقریبا پانچ منٹ کے ڈکومنٹری میں پروفیسر عزیز بگٹی کے زندگی کے حالات و واقعات اور سیاسی و ادبی خدمات دکھائے گئے۔
دوسرے سیشن میں پروفیسر عزیز بگٹی کے کردار پر بات کرتے ہوئے پروفیسر ممتاز بلوچ کہنے لگے کہ ان کی پروفیسر عزیز بگٹی سے ایک یا دو بار ملاقات ہوئی لیکن ان کے دانش اور حاضر دماغی سے وہ بے انتہا مثاثر رہے ان کے مطابق پرفیسر کالج سے باہر رہ کر بھی کالج کے بارے میں باخوبی علم رکھتے تھے ۔ وہ طلباء کو اپنا اثاثہ مانتے تھے اور ان کے خیال میں طلباء ہی قوم کی صحیح رہنمائی کرنے کے قابل ہیں جبکہ موجودہ پارلیمانی پارٹیاں صرف اپنے مفادات چاہتی ہیں ۔ دوسرے اسپیکر پروفیسر کے صاحبزادے زابرین بگٹی کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک نیک دل اور شفیق انسان تھے وہ ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتے رہتے کہ ہر انسان کو انفرادی طور پر جانچ کر اس سے اس طرح کا برتاو رکھا جائے یعنی کسی ایک طبقے کے برا ہونے کی وجہ سے پوری قوم سے نفرت نہ کیا جائے ۔ وہ کس قد کے انسان تھے یہ بات ہمیں ان کی رحلت کے بعد پتہ چلا ۔ ایک واقع کے بارے میں بتاتے ہوئے صاحبزادہ بگٹی بتاتے ہیں کہ جب نواب اکبر بگٹی وزیر اعلی تھے تو ان کے (پروفیسر عزیز بگٹی) پاس صوابدیدی فنڈ (ایک خاص رقم جو کیش کی شکل میں وزیر اعلی اپنے کسی خاص بندے کے پاس رکھتا ہے جس کا کوئی ریکارڈ اور آڈٹ نہیں ہوتا) رکھا ہوا تھا۔ دو سال بعد جب نواب بگٹی وزیر اعلی نہ رہے تو انہوں نے وہ فنڈ پوری واپس گورنمنٹ کو جمع کر دی اس سے ان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے اعلی پائے کے انسان تھے ۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کی نمازہ جنازہ میں صرف ان کے قریبی دوست و ادیب آئے لیکن کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے آنے کی زحمت نہ کی انہی الفاظ کے ساتھ پروفیسر کے صاحبزادے نے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔۔۔

پچھلے پانچ سال سے یونیورسٹی کی کلاسزز لیتے ہوئے میں نے کبھی کلاس روم میں ایسی خاموشی نہیں دیکھی جو آج حال میں بیٹھے ہوئے محسوس ہوا تمام نوجوان توجہ سے سیمینار کو سن رہے تھے اس سے ہمارے نوجوانوں کے سیاسی میچورٹی کا اندازہ ہوتا ہے۔۔۔۔

میں نے اپنے ساتھ بیٹھے دوست کو کاندھا مارا اور کہا اب دیکھنا اسٹیج سیکریٹری پروفیسر منظور بلوچ کو اسٹیج پر دعوت دیں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم خوشی سے بغلیں بجانے لگے کہ اکسیوں صدی کے سائنٹفک دور میں بھی ہماری پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی :
پرفیسر منظور بلوچ نے اسٹیج سنبھالتے ہی اردو میں تقریر کرنی چاہی لیکن نوجوانوں کے اصرار پر انہیں بندات (شروعات) براہوئی زبان میں کرنی پڑی ، پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان کا المیہ یہ رہا کہ ہم نے اپنے ادیبوں اور دانشوروں کی قدر نہ کی ۔ ہم نے بڑے تند والے سیاسی لیڈرز کے جوتے پالش کیے ان کو ہر طرح کا پروٹوکول دیا لیکن افسوس کہ جنہوں نے اس قوم کےلیےاپنی زندگیاں وقف کیں ان کو ہم نے مکمل نظر انداز کیا ۔ ہم نے لٹیروں ، ضمیر فروشوں کےلیے تو اجتماع اکٹھے کیے لیکن اپنے دانشوروں اور حقیقی لیڈروں کےلیے دو دوست بھی میسر نہ رہے یوں ہمارے دانشور خود کو تنہا سمجھتے رہے جو ان کی تخلیقی موت کا سبب بنتا رہا ۔ پروفیسر عزیز بگٹی کسی شہرت یا حکومتی فنڈ کےلیے کام نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ خاموشی کے ساتھ صرف اور صرف اپنے بلوچ قوم کےلیے محنت کرتے رہے

اور پھر پروفیسر صاحب اردو میں اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں : کہ اس وقت بلوچ راج کو بہت بڑے چلینچز در پیش ہیں آنے والے چند سالوں میں خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہونے جا رہی ہے امریکہ کی افغانستان سے انخلا کے بعد اس کے بلوچستان میں سنگیں قسم کے اثرات مرتب ہوں گے لیکن افسوس کہ ہم صوبائی و وفاقی کابینہ میں جوتوں کی سیاست کر رہے ہیں ہم انتہائی کم درجے کے مسائل پر اپنی انرجی ضائع کر رہے بے شک ہم کمزور ہیں ان سپر پاورز کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن کم ا ز اکم سر جوڑ کر اس مسئلے پر سنگیں بحث تو کر سکتے ہیں کہ یہ نہ ہو کل ہماری شناخت تک مٹ جائے ۔۔۔۔
اس وقت ہمارا پورا بلوچ ڈایا سپورا تین حصوں میں بٹ چکا ہے
ایک وہ جو صرف اپنی مفاد کی سیاست کر رہا ہے وہ وقتی مفادات کا سوچ کر قوم کے ساتھ بھیانک کھلواڑ کر رہا ہے
دوسرا انٹلیکچو طبقہ جو عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے منہ پھیرے ہوئے ہے بس اپنے لچھے دار باتوں سے لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے اور اپنے دائرے کے اندر خود کو بند رکھے ہوئے ہے اور عوام کو صحیح راہ دکھانے کی بجائے ان میں کنفوژن پیدا کرنے کا باعث بنا ہوا ہے
جبکہ تیسرا طبقہ صرف سوشل میڈیا تک محدود ہے جو ایک معمولی بات کرکے خود کو بڑا دانشور سمجھ بیٹھتا ہے اور عوام میں مایوسی پیدا کرتا ہے کیونکہ دانشور ہر کوئی نہیں ہو سکتا دانشور چند ایک ہیں جن کو پہچاننا اور ان کی قدر کرنا انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
یاد رکھیں اگر ہم نے اپنے ادیبوں اور دانشوروں کو وہ مقام نہ دیا جن کا وہ حق دار ہیں تو اس قوم میں کوئی دانشور پیدا نہیں ہوگا۔ تاریخ ایسے قوموں کو کبھی معاف نہیں کرے گا جو اپنے محسنوں کو بھلا دیتے ہیں ۔ ایسے اقوام جو اپنے حقیقی ہیرور کو نہیں پہچانتے ان کی قدر نہیں کرتے وہ دنیا کے سامنے رسوا ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
اس وقت اشد ضروری ہے کہ ہم اپنے دانشوروں کے کاموں کو آگے لائیں ان کو وہ مقام دیں جن کا وہ حق دار ہیں ان پر ریسرچ کریں اور حقیقی معنوں میں ان کے کاموں کو اجاگر کریں۔ اس مقصد کےلیے ایک تجزیہ اینڈ ریسرچ کمپلیس بنائی جائے جہاں ایک ٹیم ورک کے تحت اس سوچ کو عملی جامع پہنایا جا سکے ۔ پروفیسر منظور بلوچ کے تقریر ختم ہوتے ہی حال میں تالیوں کی گونج اٹھی جو دیر تک رہی ۔
سیمینار کا تیسرا حصہ پینل ڈسکشن کا تھا جس میں پروفیسرحامد علی بلوچ اور ایڈوکیٹ عمران بلوچ تھے ۔ ڈسکشن میں پروفیسر عزیز بگٹی کے افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے پروفیسر حامد بلوچ کہتے ہیں کہ پروفیسر عزیز بگٹی کے افسانوں میں زیادہ تر غریب اور پسے ہوئے طبقے کی محرومی کی جھلک محسوس ہوتی ہے وہ بلوچ قوم کو ہی اپنا محور بنا کر لکھتے رہے ۔ پروفیسر حامد بلوچ نے ان کے چند افسانوں کی مختصر کہانی بھی بتائی ۔ ایڈوکیٹ عمران بلوچ ان کے سیاسی کیرئیر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عزیز بگٹی پر لوگ آج بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نواب اکبر بکٹی کے حکومت کا ساتھ دیتے رہے لوگ آج بھی ان کی شخصیت میں کیڑے نکالتے ہیں لیکن یہ کہیں بھی اچھی روایت نہیں۔ ان سے لاکھ اختلاف اپنی جگہ لیکن بلوچ قوم کےلیے ان کے سیاسی و ادبی کردار کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔
یہ خوبصورت ڈسکشن ابھی جاری تھی کہ ہمیں یہ سیشن ادھورا چھوڑ کر جانا پڑا ۔ حال سے نکلتے ہوئے جب کتابوں کی میز پر نظر پڑی تو بہت ہی کم تعداد میں کتابیں اب میز پر باقی رہ گئی تھیں اکثر کتابیں بک چکی تھیں جو اب نوجوانوں کے ہاتھ میں تھیں اور حقیقت ہے کہ بلوچ راج و بلوچستان کا مستقبل بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے ۔ ہم اسی امید سے واپس لوٹے کہ اس سیشن میں ہونے والی ہر بات کو اپنے پلو سے باندھے رکھیں گے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں