کیاحکومت واقعی سنجیدہ ہے؟

تحریر: انور ساجدی
تحریک انصاف کی حکومت کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ مذاق اچھا کرلیتی ہے وہ جب بھی مذاق کرتی ہے تو اس کی سوشل میڈیا ٹیم واہ واہ اورمبارک سلامت کا طوفان کھڑا کردیتی ہے لوگ دیکھیں گے کہ وزیراعظم نے بلوچستان میں مصالحت اورڈائیلاگ شروع کرنے کا جو اعلان کیا ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے سارے ملک میں حکومت کی واہ واہ شروع ہوگئی ہے یعنی حکومت مصالحتی عمل کا اعلان بلوچستان کیلئے کم اور واہ واہ سمیٹنے کیلئے زیادہ ہے۔
حکومتی اکابرین کی صلاحیتوں کا یہ عالم ہے کہ اس کے بڑے بڑے اکابرین پوچھتے پھرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ہے کیا خودوزیراعظم کی رائے ہے کہ پسماندگی اورترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے ہوسکتا ہے کہ جو حاکمان بالا صورتحال کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہوں وہ آنے والے دنوں میں ایسے اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کریں جو مسئلہ کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں مثال کے طور پر اگراسلام آباد میں بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھنے پر جو شخص قادر ہے وہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ ہیں اس سے قطع نظر کہ ان کے نظریات کیا ہیں مقتدرہ سے ان کی وابستگی کس نوعیت کی ہے اور وہ کس حد تک من حیث القوم بلوچوں کوناپسندکرتے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ لندن میں قیام کے دوران جلاوطن قیادت کے ساتھ رہے ہیں وہ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی نفسیات اور حکمت عملی سے بخوبی واقف ہیں البتہ یہ معلوم نہیں کہ وہ مصالحت پریقین رکھتے ہیں کہ نہیں یا وہ طاقت کے استعمال کے حق میں ہیں یہ ضرور ہے کہ بلوچستان کی جو صورتحال یہاں تک پہنچی ہے اس میں کاکڑ صاحب کانمایاں کرداررہا ہے وہ علاقائی سطح کی جماعت ”باپ“ کے بھی بانی ہیں یہ الگ بات کہ بانی کے طور پر سعید ہاشمی کا نام مشہور ہے لیکن اس کا بنیادی خیال کاکڑ صاحب نے ہی اوپر کے حلقوں میں پیش کیا تھا۔
بلوچستان کی تبدیل شدہ صورتحال حکمرانوں کی سوچ میں تبدیلی کا غماز نہیں ہے یہ بین الاقوامی صورتحال میں تبدیلی کے باعث وقت کی ضرورت ہے۔مصدقہ اطلاع تو نہیں ہے لیکن اسے افواہ سمجھیں کہ چین نے سختی کے ساتھ مشورہ دیا ہے کہ سی پیک کے روٹ پر امن قائم کیاجائے کیونکہ منصوبہ کے آگے بڑھنے میں بدامنی رکاوٹ ہے ایک ٹی وی چینل پر ایک تبصرہ نگار تو یہ تک کہہ رہے تھے کہ چین نے عسکریت پسندوں سے خفیہ مذاکرات کئے ہیں واللہ العالم بالصورب۔ایک تو افغانستان سے آتش فشان کا دباؤ ہے دوسرا یہ کہ اگراندرونی طور پر معاملات درست نہ ہونگے تو بہت ہی مشکلات پیداہونگی۔کسے یاد نہیں کہ جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے ہاؤس کو ان آرڈر نہیں کریں گے دنیا ہماری بات نہیں سنے گی نوازشریف کی اس بات کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا تھا سرل المائدہ کی خبر کو ”ڈان لیکس“ کانام دیا گیا تھا اور اس کی انکوائری کیلئے باقاعدہ کمیشن بنایا گیا تھا سزا کے طور پر وزیراطلاعات پرویز رشید اور پرنسپل انفارمیشن آفیسرراؤ تحسین کو عہدوں سے ہٹادیا گیا تھا2018ء کی انتخابی مہم کے دوران نوازشریف نے اپنی کہی بات پر دوبارہ زور دیا تھا اس مرتبہ رفتادڈان کے رپورٹر پرپڑی تھی اور اسے ملک سے بھاگنا پڑا تھا۔
لیکن3سال بعد ہمارے اصل حکمراں نے نواز شریف ہی کی بات دہرائی کہ ہم نے اپنے ہاؤس کو ان آرڈر لاناہے تاکہ بیرون عوامل کااثرہمارے حالات پر نہ پڑے۔
اب جبکہ افغانستان میں تبدیلی آنے والی ہے تو یہ ایک طرح سے پیشگی تیاری ہے کہ افغانستان سے متصل علاقوں کو قابو میں لایاجائے۔
ان علاقوں میں گزشتہ دوعشروں کے دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا الزام بھارت پرلگتا رہا ہے چاہے فاٹا ہو یا بلوچستان حکومت کا دعویٰ ہے کہ بھارتی مداخلت کے شواہد موجود ہیں خاص طور پر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد پورے یقین سے کہا گیا کہ سرحدی چھاپہ مار کارروائیوں میں بھارت کی اعانت شامل تھی۔
بلوچستان میں بغاوت نے اس وقت جنم لیا تھا جب 2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی جنرل پرویز مشرف کے حکم پر ایک فوجی کارروائی کے دوران شہید ہوئے تھے حکومت کو یہ توقع نہیں تھی کہ نواب بگٹی کی شہادت کا اتنا وسیع ردعمل ہوگا لیکن ایک وقت ایسا تھا کہ کوہلوے گوادر تک اور نقصان سے جھٹ پٹ تک سارا بلوچستان متاثر تھا جنگ میں تیزی اس وقت آگئی تھی جب واجہ غلام محمد بلوچ اور ساتھی ایک کارروائی میں جان سے گئے تب تک حکومت کا فیصلہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے صورتحال کو قابو میں لایاجائے۔
جب نواب بگٹی شہید ہوئے تو وہ جنرل مشرف کا دورتھا جب واجہ غلام محمد اور ساتھی شہید ہوئے تو وہ پیپلزپارٹی کادورتھا اور جب منان بلوچ مستونگ میں ایک کارروائی کے ذریعے مارے گئے تو وہ نوازشریف کادور تھا یعنی ایک تسلسل چلاآرہا تھا۔
میں کئی مرتبہ بتاچکا ہوں کہ ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران میں نے صدر عارف علوی سے2019ء میں پوچھا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے بات چیت اور گفت وشنید کی کوئی گنجائش نکالی جائیگی یا طاقت کا استعمال جاری رہے گا اس پر پاکستانی صدر نے کہا تھا کہ سیکورٹی اداروں کا خیال ہے کہ جو ان کی حکمت عملی ہے وہ موثر ہے اور اس کے ذریعے حالات کو معمول پر لایاجائیگا یعنی دوسال پہلے تک بھی مصالحت اورمفاہمت کے دروازے بند تھے۔لیکن اچانک وزیراعظم عمران خان نے مصالحتی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے یہ الگ بات کہ اسی رات وزیراطلاعات فوادچوہدری نے مصالحتی عمل کو بریکٹ کرتے ہوئے کہاکہ جن لوگوں نے بھارتی امداد لی ہے ان سے مذاکرات نہیں کئے جائیں اللہ جانے کہ جو عسکریت پسند گروپ ہیں انہوں نے بھارت سے امداد لی ہے کہ نہیں اس ضمن میں مختلف حکومتوں نے آج تک پارلیمان اور عوام کواعتماد میں نہیں لیا اسی اثناء مختلف حکومتوں نے اپنے تئیس یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ نوابزادہ ہیربیارمری ہیں بلوچ ری پبلکن آرمی کے سربراہ براہمداغ بگٹی ہیں جبکہ مہران مری یونائیٹڈ بلوچ آرمی جاوید مینگل لشکر بلوچستان اور ڈاکٹر اللہ نذربلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھتا جارہا ہے تو مری اور بگٹی ایریا میں چھاپہ مار کارروائیاں کم ہوگئی ہیں یعنی ہیر بیار مری، مہران مری اور براہمداغ بگٹی کی گرفت کمزور پڑگئی ہے اسی طرح ساراوان میں کارروائیاں بولان تک محدود ہیں اصل میدان آواران اور مکران ہے جوعسکریت پسندوں کے متحدہ محاذ کے کنٹرول میں ہے اگر یہ علاقے سی پیک کے روٹ پر نہ ہوتے تو شائد حکومت کو تشویش نہ ہوتی لیکن یہ علاقے ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے سارا عمل رکاہوا ہے حالانکہ حکومت نے ساؤتھ بلوچستان کو الگ زون بناکر وہاں پر اپنی موجودگی میں ناقابل بیان حد تک اضافہ کردیا ہے کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں حکومت کی موجودگی نہ ہو اس کے باوجود امن ابھی تک ایک خواب ہے۔
چنانچہ ایک نئے پلان کا اعلان کیا گیا جس کے تحت نواب بگٹی کے پوتے ایم این اے شاہ زین بگٹی کو مصالحتی مشیر مقرر کردیا گیا ہے سردست یہ سمجھا جارہا ہے کہ شاہ زین بگٹی ایسی صلاحیتوں کے مالک نہیں کہ انہیں اتبا بڑا ٹاسک دیاجائے جو کام انکے دادا نہ کرسکے نواب خبر بخش نہ کرسکے سردارعطاء اللہ خان مینگل نہ کرسکے تو وہ شاہ زین بگٹی انجام دیں گے۔
معلوم نہیں کہ وہ کس طرح اپنے مشن کا آغاز کریں گے زیادہ سے زیادہ وہ جینوأ میں مقیم اپنے کزن سے روابطہ کرسکتے ہیں لیکن جو لوگ پہاڑوں پر ہیں تو ان سے رابطے کا کیا ذریعہ ہوگا یہ بھی معلوم نہیں کہ براہمداغ ان سے بات کرنے پر آمادہ ہونگے کہ نہیں یہی معاملہ ہیربیار کا بھی ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ پہاڑوں میں مزاحمت کررہے ہیں وہ جلاوطن قیادت کے زیر اثر نہیں ہیں وہ ماضی میں بھی مذاکرات کی پیش کش مسترد کرچکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اس بار ایسا کیا نیا ہوگا کہ وہ گفت وشنید سے حصہ لیں۔
کئی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت بہت جلد ان لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان کرے گی جو سرنڈر کریں گے حالانکہ ایسا قدم پہلے بھی اٹھایا جاچکا ہے پہلے حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بیشتر لوگ سرنڈر کرکے قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں اگرایسا تھا تو اب تک امن کیوں قائم نہیں ہوا۔
15سال سے جاری موجودہ جنگ سب سے ہولناک جنگ ہے جن میں طرفین کے ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہوا ہے اگرمذاکرات ہونے ہیں تو جانی نقصانات کی تفصیلات یک جاکرنی ہونگی حکومت کو بتانا ہوگا کہ جبری لاپتہ افراد کی اصل تعداد کتنی ہے اگر حکومت سنجیدہ ہے تو وزیراعظم عمران خان کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اہل بلوچستان سے معافی مانگنا ہوگی مذاکرات سے پہلے اعتماد کی فضا قائم کرنا ہوگی تمام مسنگ پرسنز کورہا کرنا ہوگا۔
اوریہ آئینی گارنٹی دینا ہوگی کہ بلوچوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل نہیں کیاجائیگا۔اسی طرح یہ ضمانت بھی دینی ہوگی کہ بلوچستان کے وسائل کا ملکیتی حق صوبہ کے پاس رہیں گے۔
اگرحکومت واقعی مصالحت میں سنجیدہ ہے تو ان کا انعقاد کسی تیسرے ملک میں کیاجائے جیسے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات قطرمیں ہوئے تھے اگر قطر میں ہی مذاکرات کا انعقاد کیاجائے تو سب سے بہتر ہوگا متحدہ عرب امارات بھی بات چیت کے لئے مناسب جگہ ہے اگراوسلو طرز کے مذاکرات میں غیرجانبدار اعانت کاروں کا انتخاب کیاجائے تو یہ طریقہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
اگرحکومت سنجیدہ نہیں ہے اور اس نے محض شوشہ چھوڑا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ناکامی کے بعد طاقت کا بے رحمانہ استعمال ہوگا تاکہ بلوچستان کا مسئلہ ایک فریق کی شکست کی صورت میں ہمیشہ کیلئے حل ہوجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں