ان سے کیا سیکھیں

تحریر: جمشید حسنی
آج کل فروس عاشق اعوان کا غصہ اونٹ کی طرح ٹھنڈا نہیں ہوتا وہ مریم اورنگزیب،عظمی گیلانی ودیگر کو کنیزیں کہتی ہیں حالانہ کام سب کا ایک ہے دوسرے کی ترجمانی کرنے بارے ہیں ان کا کیا خیال ہے ہماری سیاست کی بدقسمتی کہ یہاں طعنے الزامات لگانا عام بات ہے اب لوگ بھی چنداں پرواہ نہیں کرتے معلوم نہیں،عظمی گیلانی،مریم اورنگزیب کا خاندان کس کا غلام تھا یا فروس عاشق اعوان کے والد کہاں کے نواب والیان ریاست تھے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حکومت کے لئے ہزاروں ووٹر ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں ان میں نواب،سردار،میر،جاگیر دار،صنعت کار سبھی ہیں ان کا اس لوز ٹاک کے بارے میں کیا خیال ہے کچھ نہیں معلوم،لیڈر بھی انہیں منع نہیں کرتے ہمارے ہاں غلامی نہ تھی البتہ ہندو دھرم معاشرہ میں ذات پات کا نظام تھا۔
امریکہ کی طرح غلام نہ تھے اب تو وہاں بھی دو بار ایک سیاہ فام امریکی صدر بنا،کونڈو لیزا رائس وزیرخارجہ رہی،کولن پاؤل جنرل رہا،مسلمان میں ذات پات نہیں۔آخری خطبہ میں رسول اکرم ؐ نے فرمایا کسی گورے کو کالے پر کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں قرآن میں فرمان ہے ہم نے تمہارے قبیلے اور شاخیں بنائیں تا کہ تم ایک دوسرے کو جان سکو،اللہ کے نزدیک زیادہ تکریم والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔اسلام میں آہستہ آہستہ غلامی ختم ہوئی مسلمانوں نے فتوحات کیں تو لوگوں کو غلام نہیں بنایا وہ خبر یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے برابر کے شہری تھے،
فردوس عاشق اعوان کیوں بھول رہی ہیں نوکری برحق نمک حلالی برحق آج نہیں تو دو سال بعد الیکشن ہونے ہیں،آقا ناراض بھی ہوسکتے ہیں۔پہلے بھی تو ان کا روز گار چھینا گیا مگر ان لوگوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کل پھر کسی اور برسراقتدار میں شامل ہوجائیں گی فواد چوہدری بھی تو کل کہیں اور تھے،مغربی پنجاب انگریزوں نے آباد کیا،نہریں نکالیں،جاگیرداروں کو زمینیں دی پاکستان بنا جاگیرداری نظام ختم نہیں ہوا یہی جاگیر دار برادری دولت اثرورسوخ عقیدہ،پیری مریدی کے نام پر الیکشن میں آکر عوام عہدوں پر قابض ہو،فخر امام،عابدہ حسین،فیصلصالح حیات،قریشی،مخدوم جاوید ہاشمی،گیلانی،مخدوم طالب المولیٰ پیری مریدی کی آڑ میں ان کو مذہبی دسترس بھی حاصل تھی،سندھ میں کہتے ہیں سید آئے ان کے پاس قرآن تھا سندھیوں کے پاس زمینیں تھیں آج زمینیں سیدوں کے پاس ہیں اور قرآن عام سندھی کے پاس،
ہمارا تو خیال تھا کہ ہم ان لوگوں جمہوری اقدار معاشرتی آداب روایات لکھیں گے،
برطانیہ میں آج تک تحریری آئین نہیں ہمارے تین آئین بنے مگر یہ پہلے توبڑھکیں مارتے ہیں پھر معافیاں روز دوپہلیسپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں نازیبا گفتگو کرنے والا جب کراچی بینچ میں پیش ہوا تو عدالت نے کہا آپ کہتے ہیں میں عدالت کو اس کے اوقات بتلاؤں گا،ہم اوقات بتلائیں تو جیالا رونے لگا،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں دو بیویاں ہیں،یہاں گلو بٹ کلچر پروان چڑھا یا جاتا ہے اسمبلی کے دروازے کو تالے لگتے ہیں پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں پھینکی جاتی ہیں اسمبلی میں چار پائی لاتے ہیں جمہوریت کا جنازہ ہے۔ٹی وی پروگرام میں خاتون وزیرمردوں کو تھپڑ مارتی ہے لاکھوں کا ہرجانہ کا دعویٰ کرتی ہے۔میرے باپ کو گالی دی،اور آپ جولوگوں کو کنیزیں کہتی ہیں،مشرقی پاکستان اسمبلی میں اسپیکر کو کرسی مار کر ہلاک کیا گیا،گورنر سندھ حکیم سعید گورنرمغربی پاکستان ڈاکٹر خان،گورنرپنجاب سلمان تاثیر، عبدالصمد خان،ڈاکٹر نذیر حق نواز گنڈا پور، نواب احمد رضاخان حیدری، مولوی شمس الدین،نواب اکبر بگٹی،نواب غوث بخش رئیسانی، سراج رئیسانی،نواب سیف اللہ خان مگسی، بے نظیر اس کا بھائی قتل ہوئے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھائی کا قاتل نہ پکڑ سکی اب پھر بلوچستان کے سابق سینیٹر کی موت کو مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔
فردوس عاشق اعوان اقتدار کے زعم اور طاقت میں بہت کچھ کہہ رہی ہیں مگر زمانہ ایک سانہیں رہتا،یہ کل پٹڑی بدل لیں گے ماضی ہر کوئی بھول جائے گا،فواد چوہدری بھی کل کہیں اور تھے البتہ یہ سیاستدان کم عقل نہیں وہ اپنا مستقبل محفوظ کرلیتے ہیں یہاں سیاست موروثی ہے۔
عمر خیام نے ایک حکایتلکھی ہے کہ اصفہان کا مدرسہ بن رہا تھا ایک خر کار گدھے پر اینٹیں لادے آیا تو دروازے پر گدھا اکڑ گیا،اندر جانے سے انکار کردیا بہت کوشش کی گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔تماش بین مجمع میں ایک شخص آگے آیا گدھے کے کان میں کچھ کہا گدھا فوراً اندر چلا گیا پوچھا گیا تم نے اس سے کیا کہا س نے بتلایا پچھلے جنم میں یہاں معلم تھا اسے موجودہ حالات میں اندر جانے سے شرم آرہی تھی میں نے اسے بتلایا تمہارے ناخن کھروں میں بدل گئے تمہاری داڑھی اب تمہاری دم بن گئی تمہیں کوئی نہیں پہچانتا وہ سمجھ گیا جناب یہاں کوئی نئے جنم سے نئی شرمتا کون سے سیاستدان کہہ سکتا ہے کہ وہ شروع سے آج تک ایک پارٹی میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں