سرکار،سردار،دستار

تحریر: انورساجدی
اسلام آباد اورراولپنڈی میں جو کالونیئل مائنڈسیٹ ہے وہ بلوچستان کے اصل مسئلہ سے آگاہ نہیں ہے اس مائنڈسیٹ کی نمائندگی کرنے والے جو اینکر اور صحافی ہیں انہیں بلوچستان کی تاریخ کا پتہ ہے نہ جغرافیہ کادھڑادھڑ تبصرے کئے جارہے ہیں دور کی کوڑی لارہے ہیں انکے بیشترتبصروں کا تعلق بلوچستان سے نہیں بلکہ کسی اور سیارے کی مخلوق کے بارے میں دکھائی دیتا ہے یہ مائنڈسیٹ گھماپھرا کر سرداروں کو بیچ میں لاتا ہے حالانکہ تمام سردار عرصہ دراز سے یا جب سے پاکستان بنا ہے ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے واضح طورپر کہا تھا کہ72سردار ان کے ساتھ ہیں یہی سردارگزشتہ حکومتوں کا حصہ بھی تھے۔
1974ء کی مثال لیجئے ریاست قلات کے سابق والی خان میر احمد یار خان گورنر اور ریاست لسبیلہ کے سابق والی جام میرغلام قادر وزیراعلیٰ تھے 2006ء میں جب نواب بگٹی کوشہید کیا گیا تو قلات کے مقام پر وہ تاریخی جرگہ کون بھول سکتا ہے جس میں شامل چوٹی کے سرداروں نے سوگند اٹھائی تھی کہ وہ ریاست کاساتھ نہیں دیں گے لیکن جب2008ء کوانتخابات ہوئے تو چیف آف ساراوان نواب محمداسلم رئیسانی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں چیف آف جھالاوان سردارثناء اللہ زہری نے وزارت اعلیٰ کامنصب سنبھالا نہ صرف یہ بلکہ جب ڈاکٹر مالک وزیراعلیٰ بنے تو نواب شاہوانی سردار بنگلزئی اورسرداربزنجو بھی ان کی کابینہ کا حصہ تھے البتہ ماضی میں کہاجاتا تھا کہ صرف تین سردارحکومت کے ساتھ نہیں ہیں یعنی نواب خیربخش مری،نواب اکبر بگٹی اور سردارعطاء اللہ خان مینگل لیکن یہ سردار بھی مختلف ادوار میں حکومتوں کا حصہ رہے تھے سوائے نواب مری کے بات سرداروں کے کردار کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ راولپنڈی میں بیٹھے حکمران عرصہ دراز سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سرداروں سے مذاکرات کئے جائیں اور انہیں خوش رکھا جائے تو بلوچستان کے حالات قابو میں آجائیں گے وہاں پر یہ مفروضہ کارفرما ہے بلوچستان کے عام لوگ بھیڑ بکریاں ہیں ان پڑھ اور جاہل ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے سردارجہاں ہانکیں گے یہ چلے جائیں گے حالانکہ جب مزاحمت کارقیادت نے2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات کابائیکاٹ کیاتھا تو کئی علاقوں میں پولنگ نہیں ہوئی تھی باقی بلوچستان میں ووٹوں کی شرح بہت کم تھی۔
2013ء کے انتخابات کے بعد اس وقت کے چیف سیکریٹری نے مجھے ایک اورصحافی کی موجودگی میں بتایا کہ بھئی مجھے مبارکباد دو جیسے تیسے کرکے میں نے الیکشن کروائے ہیں بے شک کئی علاقوں میں ووٹ نہیں پڑے لیکن میں نے دنیا کو دکھادیا کہ بلوچستان کے لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا ہے انہوں نے مزید فرمایا کہ ہم ایک حکومت انسٹال کریں گے جس کے بعد بلوچستان کے بارے میں عالمی تاثر بہتر ہوگا اگر کسی کو شک ہو تو وہ سابق چیف سیکریٹری سے ان کی باتوں کی تصدیق کرسکتے ہیں ڈاکٹرمالک اگرچہ سردار نہیں تھے اور پہلی بار مکران کے کسی شخص کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا لیکن ان کے اردگرد سرداردندناتے پھرتے تھے اور غریب ڈاکٹرسارا دن ان کی درخواستوں پردستخط کرکرکے تھک جاتے تھے کیونکہ سرداروں کی فوج کو وہ انکار نہیں کرسکتے تھے۔خود سیاسی رہنماؤں یا حکومت میں شامل وزراء کا یہ حال تھا کہ صبح واک کرنے کے بعد چیف منسٹر ہاؤس میں براجمان ہوتے تھے اور عملہ سے ناشتہ طلب کرتے تھے یعنی یہ لوگ اپنے گھروں میں ناشتے اور کھانے کے روادار بھی نہیں تھے۔
1986ء کی بات ہے کہ جب جام غلام قادر وزیراعلیٰ تھے تو ایک صبح انہوں نے مجھے بلایا جب میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پانچ وزیرلائن سے کھڑے ہیں اور جام صاحب کے خادم خاص حاجی بارودروازہ نہیں کھول رہے ہیں وہ مجھے پیچھے سے اندرلے گئے جام صاحب چائے اور ڈبل روٹی کھارہے تھے انہوں نے کہا ساجدی یعنی کہ یہ وزیرناشتہ کرنے بھی نہیں دیتے گویا یہ کافی پرانی رسم ہے جو چلی آرہی ہے لیکن جام غلام قادر کے پوتے جام کمال خان نے چیف منسٹرہاؤس کی کایاپلٹ دی ہے ان کا ڈسپلن سخت ہے وہ وزراء کی خاطر مدارات ضرورکرتے ہیں لیکن کوئی اطلاع دیئے بغیر وزیراعلیٰ ہاؤس میں داخل نہیں ہوسکتا جام کمال اپنے والد اور دادا کی نسبت بہت مختلف انسان ہیں۔ان میں سخت گیری بھی ہے ڈسپلن بھی ہے اور منتقم مزاجی ان کی شخصیت کالازمی حصہ ہے جام صاحب نے چند روز قبل لکھاریوں کے ایک جھتے سے گفتگو میں عندیہ دیا تھا کہ خان قلات سے رابطے ہوئے ہیں خان صاحب سے رابطہ کوئی نئی بات نہیں ہے راولپنڈی نے سب سے پہلے مرحوم پرنس محی الدین کو یہ کام سونپا تھا کہ وہ لندن جاکر اپنے بھتیجے سے بات چیت کریں اور انہیں واپس آنے پر قائل کریں مرحوم نے یہ بات جانے سے پہلے مجھے بتادی تھی پھر2019ء میں میری ان سے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ دوبارہ اس سلسلے میں آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ کے باہر میر سلیمان خان ان کے منتظر ہیں لیکن خان صاحب نے ہر مرتبہ واپس آنے سے منع کردیا پرنس محی الدین نے بتایا تھا کہ جب تک قبائلی سرداروں کا جرگہ لندن نہیں جائے گا خان صاحب واپس نہیں آئیں گے جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو پتہ نہیں کہ خان صاحب کیا سوچ رہے ہیں آیا وہ واپس آناچاہتے ہیں یا ہمیشہ کیلئے لندن میں رہنا چاہتے ہیں وہ آئیں یا نہ آئیں انکے صاحبزادہ تو حکومت کے ساتھ ہیں۔
جو لوگ راولپنڈی میں بیٹھے ہیں وہ ضرور جانتے ہونگے کہ خان کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہے ریاست کے خاتمہ کے بعد ان کی حیثیت ایک بزرگ اورسفید دیش کی ہے بلوچ آج بھی ان کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ مزاحمت کی علامت نہیں ہیں وہ ایک پرامن شخصیت ہیں اور ان کا کوئی مسلح گروپ بھی نہیں ہے اسی طرح حیربیارمری اپنے بھائی بالاچ کی موت کے بعد اپنے والد کے ورثہ کولیکر چل رہے تھے اگرسردار ہی مقدم ہوتا تو مری قبیلہ کے سردارجنگیزمری ہیں انہیں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہے۔
اسی طرح براہمداغ بگٹی کو اس لئے اہم مقام دیاجاتا ہے کہ وہ اپنے دادا کے ورثہ کو لیکرچل رہے تھے اگرکل کلاں وہ واپس آئیں تو ان کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں بنے گی سوائے اس کے کہ ڈیرہ بگٹی کے قبضہ کیلئے خاندان میں رسہ کشی شروع ہوجائے بگٹی قبیلہ کے سردار تو میرعالی ہیں لیکن مقتدرہ نے انکے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے جبکہ شاہ زین اورگوہرام کو اس نے اسپیس دیا ہے اس کی کیا وجہ ہے یہ اندر کی خفیہ بات ہے جسے ہم نہیں جانتے۔
ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ جب سے موجودہ مزاحمتی تحریک شروع ہوئی ہے سردار صاحبان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ مزاحمت کی قیادت عام لوگ کررہے ہیں اگرسردارصاحبان بات چیت پر آمادہ ہوجائیں تو بھی وہ لوگ نہیں ہونگے غالباً وہ سردار کے اس کردار کی کمزوری سے واقف ہیں جو تاریخ سے ثابت ہے کیونکہ سردار عام طور پر کسی نہ کسی مقام پر آکر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔یہ زمانہ قدیم سے ان کا وطیرہ رہا ہے تاہم انگریزوں کے دور سے آج تک ان کی ساری کارکردگی ریکارڈ پر ہے لاٹ صاحب کی بگھی کھینچنے سے لیکر جنجوعہ صاحب کو سلامی پیش کرنے تک ہر چیز ریکارڈ پر ہے اس لئے عام بلوچ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ہوسکتا ہے کہ موجودہ تحریک بھی آگے جاکر ختم ہوجائے اور اس کا فائدہ بھی سردارصاحبان کو پہنچے جیسے کہ1958ء اور1973ء کے ادوار میں ہوا تھا لیکن اعتماد سازی مشکل ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے فروری1978ء میں سبی دربارسے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھٹو نے آپ لوگوں کے سروں پر سے پگڑیاں اتاردی تھیں میں آج دوبارہ رکھ رہا ہوں اس کے بعد سے اب تک ہر پاکستانی حکمران لارڈ سنڈیمن بن کر سرداروں پر انحصار کرتا رہا ہے
لیکن وقت بدل چکا ہے سردار بلوچ سماج کا حصہ ضرور ہیں لیکن وہ کل نہیں اس کا جزادر لاحقہ ہیں جس دن لارڈ سنڈیمن نے ہاتھ کھینچ لیا اس دن انکے عروج کا سورج غروب ہوجائیگا۔
جہاں تک مصالحت اور مذاکرات کاتعلق ہے تو سب سے موثر گروپ کے سربراہ نے اس میں حصہ لینے سے انکارکردیا ہے جس کے بعد یہ عمل غیر موثر ہوگیا ہے البتہ حکومت اپنی پبلسٹی اور واہ واہ سمیٹنے کی مشق جاری رکھے گی جو کہ اس کا حق ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں