بجٹ تنازعہ کے داؤ پیچ

تحریر:سمند محمدشہی
صوبائی بجٹ کو لے کر بلوچستان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش ہنوز جاری ہے تاہم بجٹ اجلاس کے دن بلوچستان اسمبلی میں ہونے والے تصادم کی قسط صوبائی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لینے کی نتیجے میں اختتام کو پہنچی البتہ اسمبلی اجلاس اور اپوزیشن کے عدالت جانے کی صورت میں یہ کشمکش کچھ عرصہ مزید چلے گی۔
اس دوران مالی سال 2021-22 کا بجٹ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور ہوچکا ہے اور دونوں اطراف سے بجٹ کے متعلق روایتی تعریفی و تنقیدی نقطہ ہائے نظر بھی آتے رہے البتہ سب سے دلچسپ بات اپوزیشن کی شکایات کے جواب میں وزیراعلی جام کمال نے کہی جنہوں نے معصومانہ احتجاج یا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اسمبلی اجلاس سے قبل بجٹ منظوری کے لیے منعقدہ کابینہ اجلاس سے پہلے خود انکو اور کابینہ تک کو بھی بجٹ کا پتہ نہیں تھا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ اگر وزیراعلی اور کابینہ خود بجٹ سے لاعلم تھے تو بجٹ بنایا کس نے اور یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب بھی سب کو معلوم ہے۔ بعدازاں وزیراعلی نے اپنے بیان کی وضاحت کی کوشش کی کہ انکی مراد حتمی محکمہ جاتی تفصیلات سے تھی یعنی کس مد میں کل کتنے پیسے رکھے گئے ہیں یہ آخر وقت تک معلوم نہیں تھا۔ مگر یہ وضاحت اپنے آپ میں وزیراعلی کے ان دعووں کی نفی تھی جن کے مطابق بجٹ انکی نگرانی میں اور کئی مہینوں کی منصوبہ بندی کے تحت بنا کیونکہ اگر بجٹ انکی اور کابینہ کی نگرانی میں بنا تو ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ جام صاحب اور کابینہ کو آخر وقت تک یہ تک معلوم نہ ہو کہ ان کے آمدن کے تخمینے اور اخراجات کی ترجیحات کیا ہیں اور اگر انکو یہ صیغہ وار تفصیلات معلوم ہی نہیں تھیں تو پھر بجٹ کا حجم اور ترجیحات کا تعین کیسے کیا گیا۔
خیر اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ کی تیاری کے حوالے سے ترجیحات اور گائیڈ لائنز جام صاحب کی طرف سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آئیں۔ جہاں تک جام صاحب کی وضاحت کا تعلق ہے تو بات کو اس پیرائے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ وزیراعلی اور کابینہ کو بجٹ کی مکمل منصوبہ بندی، ترجیحات اور حتمی صیغہ وار اخراجات کا علم یا ان میں دلچسپی نہیں تھی جو انکو بھی بجٹ اجلاس والے دن ہی پتہ چلیں تاہم جو انکی معلومات، دلچسپی اور مہینوں کی محنت تھی وہ ترقیاتی اخراجات کے بتائے گئے تخمینے کے اندر اور حکومت کو کہیں سے ملنے والی گائیڈ لائنز کے تحت ترقیاتی بجٹ کی حکومتی ارکان اسمبلی اور مقتدرہ کی کٹھ پتلی جماعت کے غیر منتخب انتخابی امیدواروں کے درمیان تقسیم اور بندر بانٹ کے عمل میں صرف ہوئی۔
بجٹ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی دلچسپی اور ترجیحات کا محور ترقیاتی بجٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنا ہے اور حکومت کا خود اپنی صفوں میں اور اپوزیشن کے ساتھ جھگڑا اسی حصہ داری کا ہے۔ حالانکہ ترقی کا عمل پائیدار اسی صورت ہوسکتا ہے جب حکومت کا ترقیاتی پروگرام ذاتی مفادات اور پسند ناپسند کے بجائے باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دیا جائے جس میں حسب ضرورت ترجیحات کا تعین کرکے طویل المدت اور قلیل المدت اہداف مقرر کیے جائیں اور انکے مرحلہ وار حصول کے لیے حکمت عملی ترتیب دے کر ضرورت کی تشخیص اور نتائج کے حصول کا معیار رکھا جائے اور اسی مطابق منصوبوں اور اخراجات کو رخ دیا جائے۔ بلخصوص بلوچستان جیسے علاقے جہاں غربت و پسماندگی زیادہ، آبادی منتشر اور مالی وسائل کم ہیں وہاں اس معاملے میں مزید ذمہ داری اور دور اندیشی کے ساتھ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تاہم بلوچستان میں ستر کی دہائی میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی سیاسی انجینیئرنگ کے نتیجے میں جو سیاسی کلچر پروان چڑھ کر یہاں کی پارلیمانی سیاست پر مکمل غالب آگیا اس کے تحت انتخابی حلقوں کا سیاسی عمل کرپشن، کمیشن، سرکاری نوکری، انتظامی سرپرستی، پوسٹنگ ٹرانسفر اور نلکے نالی یا تعمیراتی اسکیم کے گرد گھومتا ہے۔
ایسے کلچر میں جہاں سارا نظام مفاد عامہ کے بجائے ذاتی سیاسی مفاد اور پسند ناپسند کے ضابطوں کے تحت چلتا ہے نہ تو ترقی ممکن ہے اور نہ ہی نظام حکمرانی کی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ آپس میں تقسیم کر کے پھر اکثر اسے بلا ضرورت و ضابطہ مگر بہتر کمیشن کی ضامن کھنڈرات میں تبدیلی کی منتظر عمارتوں یا انتخابی فائدے کے عوض دیگر زبوں حال انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر لگا کر اسے فخریہ ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ ترقی خالی عمارتوں کی تعمیر سے نہیں بلکہ مفاد عامہ کے فعال اداروں کے قیام سے ممکن ہے۔ اگرچہ ماضی میں اسی نظام پر حکومتوں اور اپوزیشن کا اتفاق رہا مگر اب ایسا کیا ہوا ہے کہ معاملہ اس قدر تلخی اور مخالفت تک جا پہنچا۔
دراصل ماضی میں اس سیاسی کلچر کے تحت اس امر پر غیراعلانیہ اتفاق رائے تھا کہ حکومت جس کی بھی ہوتی مگر حلقے کے مذکورہ بالا اکثر معاملات میں بڑی حد تک وہاں سے منتخب رکن اسمبلی کی بات کو مقدم رکھا جاتا اور حلقے کی ترقیاتی اسکیموں کا بڑا حصہ بھی رکن اسمبلی کی تجاویز کے مطابق ترتیب دیا جاتا یوں سب کا سیاسی گزر بسر چلتا رہتا۔ مگر موجودہ حکومت کو ملنے والی پالیسی گائیڈ لائنز کے تحت نظام تو جوں کا توں رہا مگر اپوزیشن اراکین کو نہ صرف یہ کہ حلقے کے مذکورہ معاملات سے بے دخل کیا گیا بلکہ انکے حلقوں سے متعلق مذکورہ بالا انتظام انتخابات میں ہارنے والے مگر حکمران جماعت سے وابستہ یا مقتدرہ کے پروردہ مخالفین کی منشاء کے تحت چلائے جانے لگے۔ دوسرے الفاظ میں اسمبلی میں تو اپوزیشن ارکان بیٹھے ہیں مگر حلقوں کا انتظام اور سرکاری معاملات انکے ہارنے والے مخالفین کے ہاتھوں میں ہیں۔ مقتدر اداروں نے ایک طرف تو بڑی چالاکی سے یہ تاثر عام کردیا ہے کہ انکے تعاون و منظوری کے بغیر پارلیمانی سیاست اور اقتدار تک رسائی ممکن نہیں اب دوسری جانب واضح طور پر یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ جو ان کی پالیسی لائن پر نہیں چلے گا ان پر انتخابی میدان انتہائی تنگ کردیا جائیگا۔
اگرچہ اپوزیشن بشمول قوم پرست جماعتوں کو بھی جب جب موقع ملا تو وہ نظام کی بہتری کے بجائے خود اسی کے رنگ میں رنگ کر اس سے مستفید ہوئے۔ موجودہ انتظام کے تحت کوئی بھی اقتدار میں آئے بلوچستان کے اصل مسائل اور اجتماعی مفادات نظروں سے اوجھل اور حکومتی دسترس سے باہر ہی رہیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی گھوڑوں کی بھی ترجیح یہی ہوگی کے اسٹبلشمنٹ کی بیعت کر کے اسی نظام اقتدار میں کچھ حصہ حاصل کیا جائے تاہم اگر ان جماعتوں کو قوم و سرزمین کی بھی کچھ فکر لاحق ہے تو انہیں اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجد کی پیش امامی کے بجائے قوم کے مستقبل اور اجتماعی مفادات کی خاطر مشترکہ مقاصد پر یکسو ہو کر مقتدرہ کے اس سیاسی ماڈل کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے بلوچستان میں موثر حکمت عملی کیتحت سیاسی جمود کو توڑ کر سیاسی عمل میں عوام کی شعوری شرکت کے لیے کوشش اور ساتھ ہی ساتھ انتخابات میں بھی وسیع انظری اور رواداری کے ساتھ نظریاتی سیاسی ووٹ کو مختف خانوں میں تقسیم کے بجائے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہوگا وگرنہ مقتدرہ اپنے کٹھ پتلی ٹولے کے زریعے پورا صوبہ اپنے شکنجے میں لے کر اپنی استحصالی پالیسیاں عوامی مینڈیٹ کے نام پر چلائیگی جس سے صوبے میں جمہوری سیاست کی کامیابی کے امکانات مسدود ہو کر رہ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں