بلوچ قومی تحریک اور حکومتی مذاکرات

تحریر: جیئند ساجدی
قومی تحریکیں عموماً دو اقسام کی ہوتی ہیں ایک کو ماہر تعلیم اکثریتی نیشنلزم (Majority Nationalism)کا نام دیتے ہیں جب کہ دوسرے کو اقلیتی نیشنلزم (Minority Nationalism) کا نام دیتے ہیں۔اکثریتی قوم پرست انہیں کہا جاتا ہے جن کے پاس ریاست اور طاقت ہوان کی قوم پرستی بین الاقوامی سیاست کے نتیجے میں ابھری ہو جیسا کہ ان کے ملک کا کسی دوسرے بین الاقوامی ملک سے سرحدی تنازعہ ہو یا معاشی مقابلہ،بعض اوقات ان کی قوم پرستی ان کے ریاست میں مقیم اقلیتی نیشنلزم کے نتیجے میں بھی جنم لیتی ہے اقلیتی قوم پرستوں کے پاس نا تو ریاست ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص طاقت،ان کی تحریک کا مقصد سیاسی اور ثقافتی آزادی حاصل کرنا ہوتا ہے۔اکثریہ اقلیتی نیشنلزم اس فضاء میں جنم لیتی ہے جب ان کے رہنماء یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قوم کی حیثیت ریاست میں مقیم اکثریتی قوموں کی نسبت کم ہے اور انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرناپڑتا ہے۔وہ ریاست کو اپنے ثقافتی اور معاشی فلاح وبہبود کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور نظام کو تبدیل یا مکمل آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ماہر تعلیم محض اقلیتی نیشنلزم کو ہی عوامی تحریک تصورکرتے ہیں ان کے مطابق اقلیتی نیشنلزم کی تحریکیوں کو عام عوام چلاتے ہیں جب کہ اکثریتی نیشنلزم کی تحریکوں کو اکثرریاستیں خود ہی چلاتی ہیں اس لئے ماہر تعلیم اکثریتی قوم پرستوں کو ریاستی قوم پرست (Statist Nationalist)بھی کہتے ہیں۔ریاستی قوم پرست ہمیشہ اندرونی اور بیرونی خطرات محسو س کرتے ہیں اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے اکثر اقلیتی قوم پرستوں کی شناخت اور ثقافت کو ختم کر کے اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مضبوط مرکز کے حمایتی ہوتے ہیں۔
ریاستی نیشنلزم کی چند مثالیں ترکی میں کمال عطاء ترک کے نظریات (کمالزم)کو ماننے والوں کی ہیں۔ان کے مطابق جو شخص ترکی میں رہتا ہے وہ ترک شہری ہے۔ترکش زبان اور ثقافت کے علاوہ ریاست میں بولی جانیوالی کوئی بھی زبان وثقافت ریاست کیلئے خطرہ ہے،اس مفروضہ کے پیروکاروں نے ترکی میں مقیم کردوں کی زبان وثقافت پر کافی عرصہ تک پابندی عائد کی۔اکثریتی نیشنلزم کی کچھ اور جدید مثالیں فرانس میں یونائیٹڈ فرنٹ اور بھارت میں بی جے پی کی ہیں۔ماہر تعلیم جے کالمر لکھتے ہیں کہ دنیا میں اگر چہ خالص قومی ریاستیں بہت کم ہیں اور اکثر ریاستیں کثیر القومی ہیں اور تقریباً ہر کثیر القومی ریاست میں اقلیتوں کو سیاسی،سماجی اور معاشی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن چند ہی اقلیتی قومیں اس ناانصافی کے خلاف تحریکیں چلاتی ہیں۔پروفیسر مانسریٹ گبرنو اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے بیشتر قوموں کی کوئی تحریک نہیں ہوتی یہ پھر ان کی تحریک اتنی کمزور ہوتی ہے کہ انہیں کوئی عوامی پذیرائی نہیں ملتی۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ ایک مضبوط قومی تحریک کے لئے پانچ چیزوں کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے سب سے اہم یہ ہے کہ اس قوم کے پاس موثر رہنماء ہوں،دوسرا موثر نظریہ ہو،تیسرا مضبوط میڈیا،چوتھا ایک منظم تنظیم یا فعال سیاسی جماعت اور پانچواں یہ کہ اس تحریک کو کراس لیول حمایت حاصل ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی تحریک کسی مخصوص طبقے (اشرافیہ) علاقے یا جنس تک محدود نہ ہوں بلکہ سماج کے ہر طبقے،علاقے،اور قوم کے مرد وعورت میں اس تحریک کیلئے حمایت حاصل ہو،ان کے مطابق اقلیتی قوم کے رہنماء یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی قوم کی حیثیت ریاست میں دوسرے درجے کے شہری جیسی ہیں پھر وہ اپنے نظریات عوام تک پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں مضبوط نظریے کے لئے تین چیزیں لازمی ہیں۔نظریہ سیاسی،اخلاقی ومعاشی اعتبار سے عوام کو متاثر کرے اور تحریک کو جائز قرار دے ان نظریات کو عوام تک پہنچانے کیلئے مضبوط میڈیا بھی درکار ہوتا ہے اس کے علاوہ تنظیم یا سیاسی جماعت قوم اور تحریک کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اچھا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں اور نوجوان نسل کی سیاسی تربیت کرتے ہیں جس سے متوسط طبقے سے رہنماء ابھر کے آتے ہیں۔پانچواں اہم نقطہ جو کے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تحریک کو قوم کے ہر طبقے کی حمایت حاصل ہو اور اس میں خواتین کا بھی اہم کردار ہو کیونکہ اقلیتی قوم کی آبادی کا آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔تمام مضبوط قومی تحریکوں میں یہ پانچ چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
آج کے دور میں دو مضبوط قومی تحریکیں برطانیہ میں سکواٹش اور مشرقی وسطی میں کردوں کی ہے۔کردوں کی تحریک کو ہمیشہ ثابت قدم رہنماء ملتے رہے ہیں،ان کے پاس موثر میڈیا بھی رہا ہے ازدر پولیٹیکا(Ozdur Politikia)نامی اخبار نے 1990ء میں ترکی کے کردستان میں ہونیوالی شورش میں ایک اہم کردار ادا کیا اس اخبار نے کرد رہنماؤں کو اپنے نظریات عوام تک پہنچانے کیلئے ایک اہم کردار ادا کیا۔کردستان24کردوں کا یورپ میں نشریاتی ادارہ ہے جسے لائسنس برطانیہ نے دیا ہے اس چینل نے بین الاقوامی ممالک میں مقیم کردوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے کردوں کے پاس پی کے کے جیسی مضبوط تنظیم بھی ہے اور ان کی تحریک کراس لیول ہے اور خواتین کا اس میں اہم کردار ہیں۔برطانیہ میں سکاٹش قوم کے علاوہ ویلش قوم کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ویلز میں قومی تحریک اتنی مضبوط نہیں جتنی سکاٹ لینڈ میں ہے اس کی وجہ برطانوی صحافی لیوس یوں بیان کرتے ہیں کہ ولیش قوم پرست رہنماء سکاٹش قوم پرست رہنماؤں کے ناخن کے برابر بھی نہیں ہیں اور نہ ہی سکاٹش نیشنل پارٹی (SNP)جیسی کوئی موثر سیاسی جماعت ویلز میں موجود ہے۔سکاٹش قوم پرستوں کے پاس دو بڑے اخبارات بھی ہیں ایک سکاٹ مین ہے (1817ء)اور دوسرا نیشنل(2014ء) ان دونوں اخبارات جیسے اخبارات ویلز میں موجود نہیں بلکہ وہاں ایک وفاقی جماعت لیبر پارٹی کی حمایت یافتہ اخبارات پڑھے جاتے ہیں۔
اگر بلوچ تحریک کا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام خصوصیات بلوچ تحریک میں موجود ہیں جن کا ذکر پروفیسر مانسریٹ گبرنونے کیا ہے۔ایک تو بلوچ تحریک کو ہمیشہ متاثرکن رہنماء ملتے رہے ہیں امریکی دانشورSerrig Harrison نے تین بڑے بلوچ رہنماؤں خیر بخش مری،عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے متعلق لکھا ہے کہ ان تینوں رہنماؤں میں لیڈر شپ کی بے لوث صلاحیتیں ہیں اور بلوچ عوام کو ان پر کامل اعتماد ہے ان تینوں کی مرضی کے بغیر بلوچ اسلام آباد مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلوچ رہنماؤں کے نظریات کو سیاسی،معاشی اور اخلاقی حوالے سے حکمرانوں نے خود مضبوط کیا ہے معاشی حوالے سے بلوچستان پاکستان کا بد ترین صوبہ ہے اور قدرتی ذخائر کے حوالے سے سب سے مالدار،سیاسی حوالے سے بلوچستان کو قومی اسمبلی میں محض 17 نشستیں دی گئی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے اہم فیصلوں میں بلوچستان کے رہنماؤں کا کوئی خاص سیاسی کردار نہیں ہوسکتا،اخلاقی حوالے سے بھی حکمرانوں نے بلوچ رہنماؤں کی راہیں ہموار کی ہیں سب سے پہلا دھوکہ حکمرانوں نے پرنس کریم بلوچ کو دیا جب ان کو افغانستان سے واپس بلایا گیا تو ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں عام معافی دی جائے گی لیکن واپس آتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔بابو نوروز کے ساتھ تو اس سے بھی بڑا دھوکہ کیا گیا اور اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد آپریشن کیا گیا یہ تمام واقعات اخلاقی طور پر بلوچ رہنماؤں کی نظریات کو مضبوط کرتے ہیں اور ریاستی قوم پرستوں کے نظریات کو کمزور،جہاں تک بلوچ میڈیا کا تعلق ہے تو یہ کہاں جاسکتا ہے کہ اس نے اس تحریک میں ایک کردار ادا کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان کے بڑے دو روزنامے جبراً طور پر بندکرادیئے گئے ہیں تنظیموں میں سب سے کلیدی کردار بی ایس او کا رہا ہے 1973ء کی تحریک کو بعض ماہرین قبائل اور سردار تک محدود کرتے ہیں لیکن بی ایس او کے سابق چیئرمین خیر جان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ وہ تین سو مسلح افراد کے ہمراہ پہاڑوں پر گئے تھے جہاں تک کراس لیول کا سوال ہے تو موجودہ تحریک کسی مخصوص طبقے یا قبائل تک محدود نہیں اس کی رہنمائی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کررہا ہے اور پہلی مرتبہ خواتین بھی اس تحریک میں حصہ لے رہی ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ شاہ زین بگٹی اور سرفراز بگٹی جیسے رہنماؤں کو حکومت نے مذاکرات کی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں اور براہمداغ بگٹی اور سلیمان داؤد سے بھی رابطے کی اطلاعات ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد کو اس مسئلے اور تحریک کی نوعیت کا علم تک نہیں وہ ابھی تک اسے سرداروں کی تحریک سمجھ رہے ہیں اور عام بلوچ کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان سے مذاکرات کریں اگر واقعی سرکار اس کا مسئلہ کا حل چاہتی ہے تو ان رہنماؤں سے مذاکرات کئے جائیں جن پر عام عوام کا اعتبار ہو وہی رہنماء عوام کو باور کروا سکتے ہیں کہ مذاکرات میں بلوچ عوام کی بہتری ہے۔براہمداغ بگٹی اور سلیمان کو واپس بلانے سے اور میڈیا فوٹو سیشن کرنے سے حکمران پنجاب اور دیگر پاکستان کے غیر سیاسی عوام کو تو گمراہ کر سکتے ہیں لیکن بلوچ عوام کو نہیں،کیونکہ کئی عرصہ جنگی حالات میں رہنے کے بعد وہ ملک کے دیگر شہری آبادیوں کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ بالغ ہیں لہذا مسئلے کا پہلا حل یہ ہوگا کہ سرکار اصل اسٹیک ہولڈرز اور ان رہنماؤں سے بات کرے جن کا عوام اور مزاحمت کاروں پر اثرورسوخ ہے لیکن مین اسٹریم پاکستانی میڈیااور نام نہاد حکومتی ارکان کے بیانات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں مسئلہ بلوچستان کے متعلق زرا سا بھی علم نہیں اور اسے حل کرنا ان کی بس کی بات نہیں جن کے پاس طاقت ہے انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ اور تحریک صرف بات چیت سے ہی حل ہوسکتا ہے لیکن اگر مذاکرات کی آڑ میں کوئی سیاست کی گئی تو یہ ان کی ایک اور اخلاقی شکست ہوگی جس سے قوم پرستوں کے نظریے کو مزید فروغ ملے گا۔البرٹ آنسٹائن کہتے ہیں کہ پاگل پن کی ایک نشانی یہ ہے کہ آپ ہی کام بار بار کریں اور مختلف نتائج کی امید رکھیں۔طاقتور عناصر کوسمجھنا چاہیے کہ اگر طاقت سے یہ مسئلہ حل ہوتا تو 1948میں ہی حل ہوچکا ہوتا۔

بلوچ قومی تحریک اور حکومتی مذاکرات” ایک تبصرہ

  1. ہمین امن سکون چاہی ہے اور ہمارے بلوچستان کے حقوق ۔اور ہم اس وقت ستر کی دائی میں ہے بلوچستان ۔ہم دعا کرتے ہیں کہ آئے ایسا حکمران جو اس درتی بلوچستان کے محرومیوں کو ختم کرے اس وقت بلوچستان جل رہا ہے ہم غریب عوام بلوچ صرف اپنے رب کو پکا رینگے اور ان ظالموں سے اللہ پاک ہمیں نجات دلائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں