افغانستان میں کیا ہونے جارہاہے؟

تحریر: انورساجدی
اگرچہ ہم کابل سے دور ہیں آنا جانا بھی نہیں ہے لیکن نہ جانے اس شہر کی ممکنہ تباہی کو لیکر دل کیوں پریشان ہے خدا کرے کہ ویسا نہ ہو لیکن خدشہ ہے کہ ڈاکٹراشرف غنی کاانجام بھی ڈاکٹرنجیب اللہ کی طرح ہوگا یہ بھی دعا کی جانی چاہئے طالبان نے ڈاکٹر نجیب کے جسدخاکی کی جس طرح توہین اور تضحیک کی ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
ڈاکٹرنجیب کا قتل افغانستان کا دردناک ترین واقعہ ہے تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ 22اپریل1992ء کو اقوام متحدہ نے ڈاکٹرنجیب کو بہ حفاظت نکالنے کی کوشش کی اس مقصد کیلئے انڈیا نے ایک طیارہ کابل بھیج دیا تھا لیکن رات دو بجے جب یہ قافلہ ایئرپورٹ کے قریب پہنچا تو وہاں پر جنرل رشید دوستم کی جوزجانی یلیشا کاقبضہ تھا جس کے لوگ افغان فوج کی وردیوں میں ملبوس تھے مجبوراً قافلہ کوواپس ہونا پڑا ڈاکٹرنجیب نے ڈرائیور سے کہا کہ اقوام متحدہ کے احاطہ میں جائیں جب ڈاکٹرصاحب وہاں پہنچے تو بہت مشکل صورتحال پیدا ہوگئی اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ آپ انڈین سفارت خانہ میں پناہ لیں جبکہ انڈیا نے انہیں پناہ دینے سے انکارکردیا اسے خدشہ تھا کہ مجاہدین تمام سفارتی عملہ کو قتل کردیں گے۔اسی دوران پاکستانی سفارت خانہ سے ر ابطہ قائم کیاگیا تو شروع میں انکار کردیا گیا تاہم چند گھنٹے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے پناہ دینے کی حامی بھری لیکن ان کی بات بوجوہ تسلیم نہیں کی گئی اس طرح اقوام متحدہ کو انہیں پناہ دینی پڑی اس دوران مجاہدین کابل کی اینٹ سے اینٹ بجاچکے تھے اور شہرگل خانہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرچکے تھے ڈاکٹرنجیب طالبان کے قبضہ تک اقوام متحدہ کے احاطہ میں پناہ گزین رہے جبکہ ان کی بیوی اور بچوں کو انڈیا پناہ دے چکا تھا کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے ڈاکٹرنجیب کوبچانے کیلئے کوئی متبادل انتظام نہیں سوچاتھا۔شمال جانے والے تمام راستے احمد شاہ مسعود نے بند کردیئے تھے جبکہ کابل پر دوستم کا محاصرہ تھا ڈاکٹرنجیب اپنے بھائی اور چند رشتہ داروں کے ساتھ چارسال سے زائد عرصہ اقوام متحدہ کے احاطہ میں رہے لیکن دسمبر1996ء میں جبکہ طالبان افغانستان پر غالب آچکے تھے انہوں نے اقوام متحدہ کے مشن کی عمارت پر ہلہ بول دیا ڈاکٹرنجیب پر بہیمانہ تشدد کیا ان کے اعضاکاٹ دیئے گئے آنکھیں نکال دی گئیں اور پھر سر پر گولی مار پر ان کا خاتمہ کردگیا گیا قتل کے بعد ان کی لاش باہر گھیسٹی گئی پہلے ان کی لاش کو ایک کرین پر لٹکا دیا گیا اس کے بعد ان کی لاش کو ایک درخت پر لٹکا دیا گیا ان کے منہ میں ایک سگریٹ بھی ڈال دیا گیا کیونکہ کثرت سے سگریٹ پیتے تھے اسی دوران طالبان نے کہا کہ چونکہ ڈاکٹرنجیب کمیونسٹ کافر تھے اس لئے ان کی نمازجنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اس ہولناک واقعہ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارہ1992ء اور1996ء والے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اگرچہ طالبان کے حامی پاکستانی وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ موجودہ طالبان1996ء والے طالبان سے مختلف ہیں اور وہ کشت وخون کا بازار گرم نہیں کریں گے عالمی رائے عامہ کااحترام کریں گے اور سلیقہ سے اقتدار حاصل کریں گے یہ باتیں سن کر لگتا ہے کہ شیخ رشید یاتو معصوم ہیں یا افغانستان کی اصلیت اور باریک بینوں سے واقف نہیں ہیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی طالبان کے بارے میں مثبت رائے کااظہار کیا ہے جبکہ مجموعی طور پر پاکستان نے کسی فریق کا ساتھ نہ دینے اور غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے پاکستان کی کوشش ہے کہ وہاں پر خونریزی نہ ہو بادی انظر میں اس پالیسی کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغان حکومت پر امن طور پر طالبان کے آگے سرنڈر کرے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو ایک بات تو طے ہے کہ 1996ء کی طرح طالبان کا بل پر اچانک یلغار نہیں کریں گے اس دفعہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ کرکے جارہے ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس مرتبہ ان کی قیادت ملاعمر جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں نہیں ہیں طالبان کے اندر دو مضبوط گروپ ہیں جن میں سے ایک کی قیادت ملاعمر کے صاحبزادہ ملایعقوب کررہے ہیں جوں جوں وقت گزرتا جائیگا طالبان جنگجوؤں کی بے چینی بڑھتی جائیگی عالمی اداروں کی کوشش ہے کہ اشرف غنی ایک عبوری حکومت کو معاملات سونپ دیں جس کے بعد اقتدار طالبان کو منتقل ہو کیونکہ طالبان کسی الیکشن کو نہیں مانتے وہ اپنے تیار کردہ شورائی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور پہلے کی طرح اپنے برانڈ کا شرعی نظام قائم کریں گے۔
یہ ایک معجزہ ہوگا کہ اگرطالبان برسراقتدار آگئے تو وہ سیاسی مخالفین کو معافی دیدیں یہ افغان روایات میں شامل ہی نہیں کہ مخالفین کو معاف کردیا جائے وہ سزاؤں کے نام پر ایک مرتبہ ضرور قتل وغارت گری کابازار گرم کردیں گے۔
ایک بڑمسئلہ کابل پر لگے10ارب ڈالر ڈوب جانے کا خطرہ ہے 1992ء کی خانہ جنگی کے بعد کابل کی شاندار تعمیر نو ہوئی ہے اور یہ سینٹرل ایشیاء کا سب سے خوبصورت شہر ہے کابل کے مکین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ طالبان آکر شہر کا حلیہ بگاڑدیں گے تمام بزنس کا ستیاناش کردیں گے خواتین کو گھروں میں بند کردیں گے خواتین سے متعلق تمام کاروبار پر پابندی عائد کردیں گے کابل کے تاجر اور سرمایہ داروں کی تو جان نکل رہی ہے انہوں نے دنیا بھر میں پناہ کی تلاش شروع کردی ہے۔امکانی طور پر ان تمام لوگوں کی پہلی ترجیح پاکستان ہوگا۔
ایک نازک معاملہ یہ ہوگا کہ جو پاکستانی طالبان افغانستان کے جنوبی علاقوں میں مقیم ہیں انہیں نکال باہرکیاجائیگا یا انہیں پاکستان کیخلاف استعمال کیاجائے گا سردست تو طالبان اور پاکستانی حکومت دونوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن کئی لوگوں کو دونوں کے بیانات پر اعتبار نہیں ہے سن2000ء تک جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ طالبان پشتون ہیں اور پشتونوں کی حمایت کرنا پاکستان کی مجبوری ہے لیکن ایک سال بعد جب امریکہ نے افغانستان پرحملہ کردیا تو پاکستان نے ہر سہولت فراہم کردی اسی طرح طالبان اپنے پاکستانی طالبان کو اپناحصہ سمجھتے ہیں کیونکہ دونوں اکوڑہ خٹک اور کوئٹہ کے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے اگرطالبان نے اشرف غنی کی بات مان لی کہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کیاجائے تو پاکستان کیلئے نئے مسائل کھڑے ہوجائیں گے آگے جاکر اگرطالبان حکومت نے فاٹا کی حیثیت کا مسئلہ اٹھایا تو یہ ایک اور قیضہ ہوگا اس وقت کہاجاتا ہے کہ القاعدہ اور داعش بدستور موجود ہیں طالبان آنے کے بعد ان کی کیا صورتحال ہوگی یہ کوئی نہیں جانتا اگر ایمن الظواہری حیات ہیں اور انہوں نے دوبارہ نائن الیون جیسا واقعہ برپا کردیا تو امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان پر بمباری سے کون روکے گا؟
اس طرح افغانستان کے تناظر میں پاکستان کیلئے بڑے مسائل اٹھ کھڑے ہونگے اگرخانہ جنگی ہوئی تو لاکھوں مہاجرین1980ء کی طرح دوبارہ پشتونخواء بلوچستان اور کراچی کا رخ کریں گے اس مرتبہ صورتحال اس لئے مختلف ہے کہ افغانستان میں ایک بڑا سرمایہ دار طبقہ پیدا ہوگیا ہے یہ لوگ اپنا سرمایہ لیکرپریشان ہیں اور جائے پناہ تلاش کررہے ہیں یہ لوگ پاکستان آکر تھرڈ پارٹیوں کے ذریعے جائیدادیں اور کاروبار خریدیں گے وزیراعظم عمران خان تو ویسے بھی ان کے حق میں ہیں لیکن پناہ گزینوں کے آنے سے جو بحران پیدا ہونگے وہ تو لوگوں کے حصے میں آئیں گے ویسے تو روایتی طورپر طالبان اور مقتدرہ ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ نئی صورتحال میں یہ اتحاد قائم رہے گا یا بکھر جائے گا اگر مخالف افغان دھڑوں میں لڑائی چھڑ گئی تو یہ لازمی ہے کہ پاکستان طالبان کا ساتھ دے اسی طرح اسے توقع ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد بلوچ پناہ گزینوں کیلئے بھی جگہ تنگ ہوگی البتہ الظواہری کہاں ہے یہ ایک مسئلہ ہے جو افغانستان اور پاکستان دونوں کیلئے یکسان اہمیت کا حامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں