مولانا فضل الرحمٰن کی ہر پیشگوئی غلط ثابت ہوئی

مولانافضل الرحمٰن کی بنیادی شناخت ان کا عالم دین ہونا ہے،ان کی سیاسی شناخت ثانوی ہے۔ان کے جلسوں میں صرف مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے جو اپنی تعلیمی اسناد کے مطابق کسی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مولانا خود بھی اس حقیقت سے واقف ہیں،اسی لئے جب وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی جانب سیانہیں کہا جاتا ہے کہ وہ طلباء کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں تو مولانا یہ کہہ کر طلباء کی شرکت کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ لوگ فارغ التحصیل ہیں،زیر تعلیم نہیں، اس لئے سیاسی جلسوں میں شرکت ان کا آئینی حق ہے۔اس لئے انہیں کوئی سیاسی پیش گوئی کرتے وقت عام سیاست دانوں جیسی بے احتیاطی سے گریز کریں۔عالم دین سے عام لوگ یہ توقع نہیں رکھتے کہ ان کی کی ہوئی ایک پیشگوئی بھی سچ ثابت نہ ہو۔ملکی سطح پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت کے گھر جانے کی جتنی تاریخیں دیں ایک ایک کرکے سب غلط نکلیں۔ لیکن عالمی سطح پر کچھ کہنے سے پہلے اپنی معلومات اپ ڈیٹ کرلیا کریں۔چند روز قبل انہوں نے فرمایا:”افغانستان میں صاف نظر آرہا ہے کہ امریکی افواج جانے کے بعد وہاں ’سب‘ہوں گے مگر پاکستان نہیں ہوگا“، لیکن امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ’سب‘ نے افغانستان سے اپنے سفارت کار واپس بلا لئے اور سفارت خانے بند کر دیئے۔سینیئر بھارتی صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نے بھارتی حکومت سے پوچھا ہے: کیا امریکی افواج کی واپسی (ان کے الفاظ میں،۔۔۔۔’سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے‘)سے بھی بھارت سرکار نے کوئی سبق نہیں لیا؟ بگرام سمیت سات ہوائی اڈوں کو خالی کرتے وقت کابل سرکار کو خبر تک نہیں کی۔نتیجہ کیا ہوا؟ بگرام میں سینکڑوں لوگ گھس گئے اور انہوں نے بچا کھچا مال لوٹ لیا۔افغانستان میں بھارت کی حالت عجیب سی ہوگئی ہے،تین ارب ڈالر وہاں کھپانے والابھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔بھارتی صحافی کے کالم میں بیان کردہ انکشافات مولانا کی پیش گوئی کے برعکس ہیں۔بھارت ہمارا مشرقی ہمسایہ ہے،اس کی خارجہ پالیسی کے منفی یا مثبت اثرات سب سے پہلے پاکستان پر پڑتے ہیں۔اس لئے کسی بھی پاکستانی سیاست دان کو زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے کوئی بیان نہیں دینا چاہیے۔اول تو آج میڈیا اتنا تیز رفتار ہو گیا ہے کہ ہر بات منٹوں میں سامنے آجاتی ہے۔ہزاروں سالہ قدیم تاریخی آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ قدیم تہذیبیں دریائے سندھ اور گنگا جمنا کی وادیوں میں آباد تھی۔مہاتما گوتم بدھ کے نایاب مجسمے ٹیکسلا کے گردونواح میں ملے ہیں اور محفوظ ہیں تاکہ آئندہ نسلیں یہ قیمتی ورثہ دیکھ سکیں، جبکہ طالبان نے اپنے سابق دور میں مہاتما کی عظیم یادگار عالمی اپیلوں کو رد کرتے ہوئے تباہ کر دی تھی۔مسلمانوں کے اہم مذہبی مقامات (اجمیر شریف وغیرہ) بھارت میں موجود ہیں۔سکھوں کے لئے ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب مقدس ہیں اور پاکستان میں ہیں۔یہ سب محبت کا درس دینے والوں کی یادگار ہیں۔مخاصمت کی وجوہات کم اور دوستی کی علامات زیادہ ہیں۔اب بھارت کی افغانستان سے واپسی اس کی خارجہ پالیسی کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ بن سکتی ہے۔برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی سمجھ لیا تھا کہ ہزاروں میل دور واقع بھارت جیسے ملک پر اپنا قبضہ برقرار رکھناآسان کام نہیں۔ہزاروں میل دور سے حملہ آورہونے والے ہر ملک کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ اسے رات کی تاریکی میں بھاگ کر اپنے بچے کھچے فوجیوں کی جان بچانی ہے۔ بھارت سرکار ٹھنڈے دل سے سوچے، پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پرامن راہ نکالے۔امریکہ کے حوالے سے تازہ خبر میڈیا پر گشت کر رہی ہے کہ امریکہ نے ا پنا بحری جنگی بیڑہ ایو ایس ایس بینفولڈ بھی چینی سمندری حدود میں واقع متنازعہ جزیرے پیریسل کے قریب سے ہٹا لیا ہے۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ امریکی خوشنودی کے لئے بنائے گئے چار رکنی بلاک میں بھی کوئی خاص دم خم نظرنہیں آتا۔ بھارت کو اپنی داخلہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔عوام کے اصل مسائل غربت، بیماری،اور بیروزگاری ہیں۔کورونا ایک وبائی مرض ہے آج نہیں تو کل اس سے چھٹکارہ مل جائے گامگر دیگر مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا تو امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں ہو سکے گی۔کسانوں کی جانب سے بھی پر جوش تحریک چلائی جا رہی ہے، سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو زراعت کے شعبے میں اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ایک مدبر حکمران کی حیثیت سے ملکی مسائل حل کئے جائیں۔ امریکہ کواب عالمی چوکیدار تسلیم کرنا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔بھارتی صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کی تشویش کو درست پیرائے میں دیکھ جائے۔آبادی کا تیزی سے بڑھنا بھی نئی مشکلات کا سگنل سمجھا جائے۔ معروف بھارتی صحافی کا کہنا ہے کہ دنیا کے 2فیصد رقبے پر آبادی کے اتنے بڑے بوجھ کا پالنا آسان نہیں ہوگا۔جنگ انجام کار رسوائی اور پشیمانی دیتی ہے۔الغرض بہت سارے تعمیری کام کئے جانے ضروری ہیں،کئے جائیں، جنگی خبط میں سوائے نقصان کے کچھ نہیں رکھا۔پاکستان کی جانب سے بڑھایا گیا دوستی کا ہاتھ تھام کر اس خطے کوترقی اور خوشحالی کی مثال بنایا جائے۔74سال پہلے ہی گنوا دیئے گئے ہیں۔ مزید وقت ضائع نہ کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں