قبل از وقت انتخابات کے آثار
تحریر: رشید بلوچ
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے میں رونما ہونے والے حالات کیساتھ پاکستان کے سیاسی ماحول میں بھی تبدیلیوں ں کے اشارے مل رہے ہیں،پاکستان کے سیاست پر نظر رکھنے والے زیادہ تر تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ انتخابات قبل از وقت ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں بلکہ بعض تجزیہ نگار قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات کی تاریخ اور وقت مارچ 2022کی پیشنگوئی بھی کر چکے،ملک کے سیاہ و سفید کے مالک دو بڑی جماعتیں اپنی تئیں آنے والے انتخابات کی تیاریوں کی کوششوں میں جت گئی ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ایک بار پھر میں، میں،تو،تو کی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے،ماضی کی گواہی یہ بتا تی ہے جب بھی ان دوجماعتوں کو موقع ملا ایک دوسرے کی پیٹھ پر کلہاڑی مارنے میں زرہ بھر بھی تحمل نہیں بھرتی ہے، ایک دوسرے پر سیدھا وار کرکے آگے نکلنے کی کوشش کی ہے، ماضی میں دونوں جماعتوں کی دھینگا مشتی میں زیادہ فوائد ن لیگ کے حصے میں آئی ہیں لیکن اس بار پیپلز پارٹی,,میدان مارنے،، کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے چونکہ میاں نواز شریف اپنے نکالے جانے کے صدمے سے پوری طرح نکل نہیں سکے ہیں، ن لیگ کے غبارے میں غصہ خالی ہونے تک پیپلز پارٹی موقع سے زیادہ سے زیادہ سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہے، اس سے قبل 2013کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ان کے قریبی جماعت اے این پی کے علاوہ بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلانا دشوار ترین دور گزرا ہے لیکن اس کے بر عکس ن لیگ،نیشنل پارٹی، جمعیت علما ء اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کیلئے انتخابی پچ ہموار کی گئی تھی،انہیں دل کھول کر میچ کھیلنے کی اجازت ملی تھی، 2018 میں تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کیلئے میدان آئیڈیل تھا ساتھ میں پیپلز پارٹی اور بی این پی کیلئے کھیلنے کو گراؤنڈ کا کانر مخصوص کیا گیا تھا،حالانکہ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے وقت پیپلز پارٹی اور بی این پی کو پورا گراؤنڈ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن عہد وفا نہیں ہوسکا، اس وقت تحریک انصاف تبدیلی کا نیا سلوگن لیکر بڑی شد و مد سے نیا پاکستان بنانے کی پرچار کرنے لگی تھی اس لئے سوچا یہ گیا کیوں نہ ورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کو ملک سنوارنے کا موقع فراہم کیا جائے، اسی پالیسی کی روسے لگے ہاتھوں باپ نام کا نومولود بچہ ن لیگ کے بطن سے پیدا کرکے بلوچستان کو اسے وراثت میں دی گئی، یہ اسلئے کیا گیا کہ کیونکہ بلوچستان میں ٹیوب بے بی کا تجربہ ہمیشہ بغیر کسی مشقت کے کامیاب ہوتا رہا ہے، تحریک انصاف کو موقع تو ملا لیکن اپنی نا ہلی اور نکما پن کی وجہ سے بیرونی و اندورنی چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کرتی چلی گئی، پی ٹی آئی کی تین سالہ دور حکومت میں ایران اور افغانستان سے تعلقات خراب رہے، سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک اور امریکہ دور ہوتے چلے گئے،چین بھی شکوہ و شکایت پر اتر آیا، ترسیل زر منجمد رہی، مہنگائی تاریخ کے بلند ترین سطح کو پہنچ گئی،زر مبادلہ کم ہونے سے زرائع روزگار بند ہوگئے، عوام کی یومیہ آ مدنی کم سے کم ہوتی گئی،اشیا خوردنی کی کھپت ہونے لگی، بجلی اور گیس کی پیداوار میں کمی آئی،ملکی معیشت کا پیہ چلانے کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لینا موجودہ حکومت کی مجبوری بن گئی، دونوں عالمی اداروں نے جن شرائط پرقرضے دیئے انکی وجہ سے عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہا، دوسری جانب وزرا کی مالی بدعنوانیوں کے چرچے عام ہوتے گئے، اس پورے دورانیئے میں مخصوص وزرا کو اپوزیشن کے کرپشن کے ماضی کے قصے بیان کرنے اور اسمبلی میں ہلڑ بازی پر لگا دیا گیا تاکہ عوام کی توجہ مہنگائی، بیرزگاری اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ جیسے بڑے مسائل سے ہٹا ئی جاسکے۔
کہا جارہا ہے عام انتخابات سے قبل ن لیگ کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف کو مختلف کیسز کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے، حالانکہ شہباز شریف نے شریف بچوں کی طرح لکیر پر چلنے اور اپنے بھانجی کو بھی,, راہ راست،، پر لانے کی بھر پور کوشش کی ہے، رانا ثنا اللہ اقرار کر رہے ہیں کہ انکی جماعت اور مقتدرہ کے در میان بات چیت ہوتی رہی ہے، ن لیگ اور مقتدرہ کے درمیان بات چیت کا رستہ شہباز شریف نے ہموار کیا ہے، در اصل شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ آج کے حالات میں بڑے بھائی الیکشن لڑ نہیں سکتے، بھتیجی مقتدرہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی اگر ن لیگ کے ساتھ کوئی درمیانی رستہ نکل آیا تو آنے والے وقت میں وزارت عظمیٰ کی پنچی انکے سر پر بیٹھنے والاہے، لیکن شومئی قسمت دیکھیئے چھوٹے میاں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے کو ہولیتے ہیں وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھتے دیکھتے نا اہلی کے قریب ہوتے جارہے ہیں، بالفرض شہباز شریف نا اہل ہواجاتے ہیں تو پارٹی کی ساری بھاگ دوڑ مریم نواز کے ہاتھ لگے گی اسکے بعد ن لیگ میں ہونے والے فیصلوں کی کامیابی و ناکامی کی زمہ داری بھی مریم نواز پر عائد ہوگی،اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو 2018 کے عام انتخابات ن لیگ کیلئے آسان نہ تھے گمان کیا جارہا تھا کہ میاں نواز شریف کے بغیر ن لیگ ٹوٹ پھوٹ جائے گی لیکن کوشش بسیار کے باجود پنجاب کا ووٹر ن لیگ کے ساتھ کھڑا رہا یہیوجہ ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ میں ن لیگ دوسری بڑی جماعت ہے،گوکہ پیپلز پارٹی آنے والے وقت کیلئے رستہ ناپ رہی ہے،پی ڈی ایم سے علحیدگی کا مقصد بھی یہی تھا کہ اچھا بچہ ہونے کا یقین دلا یا جائے،ممکن ہے پیپلز پارٹی کو یقین بھی دلایا گیا ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی بنیاد بنانے میں فلحال کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی، پنجاب اب بھی ن لیگ کے ساتھ کھڑاہے اور جب تک پنجاب ساتھ نہیں دیگا پیپلز پارٹی کیلئے آنے والے وقت میں حصول اقتدار ممکن نہیں ہوگا،ظاہر ہے حصول اقتدار ہر جماعت کی خواہش ہوتی تو پیپلز پارٹی بھی اپنی خواہش پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے،بلاول بھٹو زرداری کا دورہ امریکہ بھی آنے والے وقت میں اقتدار پانے کی کڑی ہوسکتی ہے کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر جو بائڈن کے آ صف علی زرداری سے پرانے تعلقات ہیں، افغانستان سے امریکی فوجیوں کی انخلاء اور وقوع پزیر تبدیلیوں کیلئے جو بائڈن انتظامیہ کوپاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت سوئٹ کرتی ہے، اب آگے یہ دیکھنا ہوگا کہ جو بائڈن انتظامیہ کس حد تک پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے میں مدد دے سکتی ہے؟