بے نام جنگ

تحریر: انور ساجدی
نیشنل پارٹی کے لیڈر سینیٹر طاہر بزنجو نے ایک نہایت دلچسپ بات کہی ہے انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ممکنہ مذاکرات سے نوابوں اورسرداروں کو دوررکھا جائے کیونکہ یہ طبقہ ہر چیز کا بیڑہ غرق کردیتا ہے انہوں نے تجویز دی ہے مذاکرات کیلئے ڈاکٹرعبدالمالک جناب محمود خان اچکزئی اور خان اسفندیارولی کی خدمات سے استفادہ کیا جائے معلوم نہیں کہ حکومت نیشنل پارٹی کی رائے مانتی ہے کہ نہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اچکزئی اوراسفندیارکوئی کردارادا کرنے کیلئے تیار ہیں کہ نہیں البتہ یہ بات صاف نظرآرہی ہے کہ حکومت کنفیوز ہے اس کے نامزد کردہ نمائندہ شاہ زین بگٹی نے ابھی تک کسی روڈ میپ اور ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا ہے توقع ہے کہ مذاکرات کے ضمن میں عید کے بعد کوئی صورتحال واضح ہوگی اس دوران کچھ متعلقین کے فدائین نے سوشل میڈیا پر الزامات اور گالم گلوچ کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ لارڈ صاحب کی بگھی تک ان کا ہاتھ بھی پہنچے۔
اپنے ہاؤس کو ان آرڈررکھنے کیلئے حکمران کا فی جتن کررہے ہیں نام نہاد مذاکرات کا شوشہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن افغانستان اور اس سے متصل پاکستانی علاقوں میں کافی پراسرار واقعات شروع ہوگئے ہیں ایک طرف قطر میں مقیم طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ہم پوری دنیا اور ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے لیکن کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے دوسری طرف وہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملہ تیز کررہے ہیں ایک ویڈیو میں دیکھاجارہا ہے کہ انڈیا نے پانی کا جو ریزرواٹرتعمیر کیا تھا اسے دھماکہ خیز موادکے ذریعے اڑایاجارہا ہے ایک اور واقعہ میں دوگاڑیوں میں سوار حکومتی فورسز چند طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں ادھر امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان نے ہتھیار ڈالنے والے22افغان فوجیوں کو گولیوں سے بھون دیا ایک اور وحشتناک واقعہ سابقہ فاٹا کی کرم ایجنسی میں پیش آیا جہاں ٹی ٹی پی نے 11پاکستانیوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا اوران کی خون سے لت پت لاشوں پر نعرہ تکبیر بلند کررہے ہیں ایک اورواقعہ میں ایک سابق جنگجو کمانڈر اچانک گلگت بلتستان پہنچ گئے جہاں انہوں نے عدالت لگائی اس پرالزام تھا کہ انہوں نے چند سال پہلے نانگاپربت کے پہاڑ پر متعدد غیر ملکی سیاحوں کو قتل کردیا تھا طالبان ترجمان نے بھی کہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے پاکستان جانے وہ جانیں لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے فرار کے بعد طالبان کا جو بول بالا ہوا ہے اس کے بعد پاکستانی طالبان کیوں دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے کارروائیاں کیوں شروع کردی ہیں اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی ازسرنوصف بندی کررہی ہے جونہی طالبان تخت کابل پرقبضہ کرلیں گے ٹی ٹی پی اپنی پرانی تاریخ دہرائے گی اگرچہ فاٹا باقی نہیں رہا لیکن ٹی ٹی پی کیلئے یہ علاقہ مسلسل پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے خاص طور پر وزیرستان جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے ابھی تک یہ تبصرے غلط ثابت ہوگئے ہیں کہ کابل طالبان سے ایک گھنٹہ یا ایک دن کی دوری پر ہے کیونکہ ابھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی کوشش ہورہی ہے تاکہ ایک ممکنہ خونریز خانہ جنگی کو روکا جاسکے طالبان نے دنیا کی یہ بات رد کردی ہے کہ وہ افغانستان کو اسلامی امارت نہ بنائیں انہوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ انکے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ حکومت میں آنے کے بعد شرعی نظام ضرور نافذ کریں گے مبصرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان کے برسراقتدار گرنے کے بعد پاکستانی طالبان دوبارہ طاقت حاصل کریں گے اگرچہ وہ سوات کی طرح دوبارہ کسی علاقہ پرقبضہ کرکے اپنی حکومت قائم نہیں کرسکیں گے لیکن اے پی ایس جیسے سانحے دوبارہ برپا کرسکتے ہیں پاکستان حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آئندہ چندماہ کے دوران کیا ہونیوالا ہے اسی لئے انہوں نے پیشگی تیاریاں شروع کردی ہیں ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ2002ء سے اب تک مختلف حکومتیں فاٹا کو مکمل کلیرنہیں کرسکی ہیں دہشت گردی کیخلاف کارروائیاں جاری ہیں اس کے نتیجے میں فاٹا کے پرامن لوگوں نے زیادہ ہزیمت اٹھائی ہے جبکہ طالبان جان بچا کر افغانستان کے اندرپناہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
وزیرستان کے جو لاکھوں لوگ دربدر ہوئے وہ ابھی تک صحیح معنوں میں آباد نہیں ہوئے کئی عالمی مبصرین نے رائے دی ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک خاموش مفاہمت ہوگئی ہے جس کے تحت حسب ضرورت طالبان امریکی پراکسی کا کردار ادا کریں گے سوال یہ ہے کہ امریکہ طالبان کو کس کیخلاف استعمال کرے گا؟یہ سوچنے کی بات ہے ماضی میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ٹی ٹی پی کئی طاقتوں کی پراکسی بنی رہی جبکہ سابق مجاہدین کی باقیات کرایہ کے قاتل کاکردار ادا کرتے رہے اس کے ساتھ ہی کسی کومعلوم نہیں کہ کوئٹہ بدستور طالبان شوریٰ کا مرکز رہے گا یاافغانستان پرقبضہ کے بعد کوئٹہ شوریٰ کو قندھار منتقل کردیاجائیگا ایک بات تو طے ہے کہ اگرامریکی مطالبہ پرطالبان نے القاعدہ اور داعش پر ہاتھ ڈالا تو ایک مرتبہ کافی خونریزی ہوگی امریکہ کوخدشہ ہے کہ اگر القاعدہ اور داعش زیادہ طاقت حاصل کرگئے تو ایک اور نائن الیون برپا ہوسکتا ہے۔
طالبان کا یہ کہنا ہے کہ وہ پاکستان سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے کافی معنی خیز بات ہے ماضی میں جب پاکستان نے طالبان تخلیق کئے تھے تو حکمرانوں نے یہ کہا تھا کہ افغانستان ہمارا اسٹریجک ڈیتپھ ہے لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ طالبان نے پاکستان کو اپنا اسٹریجک ڈیتپھ بنادیا اگرمعاملات خوش اسلوبی سے نہ چلے تو کون کس کی اسٹریجک ڈیتپھ ہے کے سوال پر ایک بڑی کشیدگی پیدا ہوگی انڈیا اگرچہ طالبان کے آنے سے پہلے بھاگ گیا ہے لیکن وہ اور طریقے سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرسکتا ہے چند روز قبل افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے یہ سوال کیا ہے کہ آیا وہ ڈیورنڈ لائن کو متنازع سرحد مانتے ہیں کہ نہیں یعنی یہ معاملہ ابھی تک طے نہیں ہوا اور یہ آگے جاکر متنازع ہوسکتا ہے پاکستان نے اگرچہ طویل سرحد پر باڑھ لگاکر اپنے تئیس ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل کردیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے سیاسی اعتبار سے البتہ یہ فرق ضرور آیا ہے کہ1972ء میں خان عبدالولی خان نے دھمکی دی تھی کہ وہ سرحد کی زنجیر اٹک پر لگادیں گے لیکن اسفندیارولی اس بارے میں خاموش ہیں چند ماہ قبل ایک ٹی وی انٹریو میں وہ بالواسطہ طور پر ڈیورنڈ لائن کی موجودہ حقیقت کو تسلیم کررہے تھے لیکن ان کی ہچکچاہٹ سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ دل سے نہیں کہہ رہے ڈیورنڈ لائن اور فاٹا کی حیثیت کے بارے میں محمود خان کا موقف ماضی میں زیادہ واضح رہا ہے لیکن انہوں نے بھی درمیان میں مبہم باتیں کی ہیں محمود خان اس وقت لالہ عثمان کی شہادت کو لیکر ایک عوامی مہم چلارہے ہیں لیکن وہ سیاسی اعتبار سے تنہا ہیں انہیں آگے جاکر مزید سیاسی عوامی حماعت درکار ہوگی کوئی شک نہیں کہ عثمان کاکڑ کے سانحہ نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب افغان عوام کوجھنجھوڑ کررکھ دیا ہے اس کا شاک ویو ہر جگہ پہنچا ہے لیکن پشتون یا افغان لبرل عوام کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کریں کس نوع کا احتجاج کریں اگرطالبان چند ہفتوں یا مہینوں کے دوران برسراقتدار آگئے تو یہ مسئلہ پس پشت جاسکتا ہے البتہ یہ محسوس کرنے والی بات ہے کہ نئے واقعات اور تبدیل شدہ صورتحال میں بلوچوں اور پشتونوں کوآپس میں بعض مسائل پر تعاون کرنا ہوگا ورنہ دونوں تاریک راہوں میں جائیں گے خدشات تو کافی ہیں کیونکہ افغانستان دوبارہ آتش فشان بن رہا ہے نائن الیون کے بعد یہ عالمی طاقتوں کامیدان جنگ بنارہا جبکہ اس کے ساتھ واقع بلوچستان بھی ایک کنفلکٹ زون کی حیثیت اختیار کرگیا افغانستان تک ہر گزرگاہ بلوچستان سے ہوکر جاتی ہے جبکہ امریکہ حملہ آور تھا تو نیٹو کی سپلائی کراچی کوئٹہ شاہراہ سے جاتی تھی اور جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس نے بلوچستان میں واقع تمام ہوائی اڈوں کا استعمال کیا جبکہ اس کا جنگی بیڑہ بلوچستان کے پانیوں میں موجود ہوتا تھا اس وقت بھی پسنی کے قریب اس کا ایک بیڑہ لنگرانداز ہے اگراس جہاز سے یا گلف کے اڈوں سے میزائل داغے گئے تو وہ بلوچستان کے اوپر سے گزرکر افغانستان تک جائیں گے دوستی ہو یا دشمنی افغانستان اور بلوچستان صدا کے ہمسایہ ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جدا نہیں کیاجاسکتا۔
طاہر بزنجو جو نے بیان دیا ہے اس کا بنیادی مقصد سابقہ نیپ دور کا احیاء کرنا معلوم ہوتا ہے یعنی بلوچ پشتون قیادت ایک بار پھر قریب آجائیں اور اپنا دکھ درد بانٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں انہوں نے صرف ایک خیال پیش کیا ہے موجودہ حالات میں پشتون قیادت صرف اخلاقی حمایت کرسکتی ہے کیونکہ بلوچ تنہا برسرپیکار ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جانیں گنواچکے ہیں اس کے مقابلے میں پشتون جو جنگ لڑرہے ہیں اس کا کوئی نام نہیں ہے جس دن اس جنگ کو نام مل گیا اسی وقت ناقابل بیان تبدیلیاں جنم لیں گی اور یہ جو خطہ میں مہم جوئی چل رہی ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔
بلوچوں کو افغان پناہ گزینوں کی آمد سے ڈیموگرافی تبدیلی آنے کا خوف لاحق ہے جبکہ کابل کے تاراج ہونے سے ہزاروں سال پر محیط ایک عظیم سول لائزیشن خطرات سے دوچار ہوجائے گی۔
طالبان پشتون ضرور ہیں لیکن پشتون ولی کے امین نہیں ہیں وہ جب ایک بار پھر امارت اسلامی قائم کریں گے تو ان کا پہلا حملہ افغانوں کے کلچر پر ہوگا حالانکہ انہیں انتہا پسندی کا دامن ہاتھ سے چھوڑدینا چاہئے اور پشتون روایات کی پاسداری کرنی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں