من چن گوئم

تحریر: جمشید حسنی
کسی بھی موضع پر لکھنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ موضوع میں قارئین کی دلچسپی ہو اس کے خیالات کا ترجمان ہو،اب اگر ایک سو دس روپیہ کلو چینی پچاس روپیہ کلو آٹا 25روپیہ کی چپاتی خریدنے والے کو افلاطون،سقراط،ارسطو کے فلسفے سنائیں،تصوف کے مراحل میں بتلائیں،کشف المحجو، فنتہ االطالبین کے اخلاقیات کے قصوں سے تو اس کے بچوں کا پیٹ نہیں بھرتا،دہشتگردی ہے بتلاتے ہیں 146واقعات میں 220اموات ہوئیں،بے روزگاری مہنگائی ہے،اگر عام آدمی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا کم از کم اسے حوصلہ دینا ضروری ہوتا ہے سیاستدان تو ہمیشہ کہے گا پہلے اقتدار دلاؤ پھر میں دیکھوں گا کرسی ملتی ہے چلی جاتی ہے عام آدمی وہیں رہتا ہے پوری دنیا عالمی سیاسیات میں یہی ہوتا ہے الیکشن میں وعدے ہوتے ہیں پھر کہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں تھا،معاملات اتنے گھمبیر ہیں ہمارا نظام لیڈر الیکشن دنیا سے مختلف نہیں البتہ عوام کے شعور معاشی حالات میں فرق ہوتا ہے کہیں تعلیم زیادہ ہوتی ہے کہیں ٹیکنالوجی کو ریا جاپان چین تائیوان نے ٹیکنالوجی سے ترقی کی کئی قوم پر خدا زیادہ مہربان ہوتا ہے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے پاس تیل کی قدرتی دولت ہے۔
بر صغیر کا معاشرہ زرعی ہے مگر آپ سوچیں ایک ایف16جنگی ہوائی جہاز خریدنے کیلئے آپ کو کتنے ہزار ٹن غلہ دینا ہوتا ہے،یورپ امریکہ شروع سے طاقتور ہے ہمارے لیڈر خیالات گفتار بدلنے میں ذرا دیر بھی نہیں لگاتے مریم نوازکہتی ہیں فوج سے محبت کرتی ہوں مانتے ہیں آپ نے ریٹائرڈ کیپٹن کو گھر والا بنا رکھا ہے۔فرماتی ہیں مخالف میری پرانی تقریروں کا حوالہ دیتے ہیں اور وہ جو آپ کے ابو نے مشرف سری لنکا گیا انہوں نے ٹی وی اسٹیشن میں کیمروں کے سامنے بٹھا کر فوجی جنرل کو کمان سونپی مشرف کو لائے علی قلی خان کا حق مارا گیا،بھٹوجنرل ضیاء الحق کو لائے،حضرت علیؓ کا قول ہے اس شخص کے شر سے بچو جس پر تم نے احسان کیا۔
ہمارے ہاں فوج عدلیہ مقننہ انتظامیہ(اسٹیبلشمنٹ)میں رسہ کشی ہوتی ہے۔عمران خان بھی دبے لفظوں میں بیورو کریسی سے گلہ مند ہوتے ہیں بیورو کریسی ریاست کے ساتھ آئی کنفیوشنس نے تین ہزار سال پہلے چین میں میرٹ اور امتحان کو رواج دیا،لاپلولجرا کی دی بیوروکرائزیشن آف دی ورلڈ کلاسک کتاب ہے ایوب خان نے ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج کی بنیاد رکھی،راقم وہاں کا تربیت یافتہ ہے،ریسرچ آن دی بیورو کریسی آف پاکستان لکھی گئی،بیورو کریسی میں تسلسل اور واضح قواعد ہوتے ہیں۔
مریم نواز سلیکٹڈ کا ذکر تو کرتی ہیں یہ نہیں بتلاتی سلیکٹر کون ہے۔عمران خان ایمپائر کے انگلی اٹھنے کی بات کرتے تھے؟
پاکستانی سیاست میں فوج کا عمل دخل رہا ہے جنرل ایوب خان،یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق،جنرل مشرف رہا،مستقبل تو جب تک فوج کے مفادات،اختیارات بحال ہیں وہ خاموش ہے،سیاستدانوں میں اتنا دم خم مقبولیت کردار کی پختگی نہیں کہ وہ فوج پر کنٹرول رکھ سکے آج وزیراعظم سے زیادہ فوج کا سربراہ بیرون ملک دورے کرتا ہے۔
جنرل ضیاء کے ریفرنڈم میں حکم تھا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہ روکا جائے،جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں ناظموں میں کروڑوں تقسیم ہوئے،جنرل ضیاء نے چالیس لاکھ مہاجرین ملک پر مسلط کئے۔امریکہ گیا ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا،افغانستان کہتا ہے پاکستان کی دس ہزار فوج افغانستان میں دراندزہے۔نیکی برباد گناہ لازم۔ہندوستان افغانستان میں کچھ نہیں کرسکتا،درمیان میں پاکستان حائل ہے۔ایران کے اپنے مسائل ہیں ایٹمی پالیسی ہے اس پر معاشی پابندیاں ہیں وسط ایشیائی ریاستیں اتنی خوشحال نہیں کہ افغان مہاجروہاں کا رخ کریں گے تاریخ عالم کا سبق ہے قو میں شمال سے جنوب کا رخ کرتی ہیں شاید پھر خانہ جنگی کی صورت میں سرحدی باڑ بھی کام نہ آئے

اپنا تبصرہ بھیجیں