عثمان سیاست کے اندھیرے میں چراغ شب تھا۔
تحریر: امان اللہ شادیزئی
پریس کلب میں آنا اب معمول بن گیا ہے اس کے بعد نذر حسین سے ملاقات ضرور ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ خبر ہے کہ عثمان کاکڑ فوت ہوگیا ہے یقین نہیں آیا،پریس کلب گیا تو پوچھا تو وہ بے خبر نکلے گھر چلا گیا،ایک دو تھا کہ پریس کلب ہمارے لئے ہائیڈ پارک تھا ہر خبر موجود ہوتی اور صحافیوں سے بعض دفعہ سیاست دان پوچھتے تھے اب پریس کلب ماضی والا کلب نہیں رہا،نہ وہ پریس کی رونقیں باقی رہیں،نہ وہ صحافی رہے صحافت کے حوالے سے آج کا پریس کلب ایک ویرانہ ہے کبھی ڈان ہوٹل اورپریس کلب میں سینئر صحافیوں کا ہجوم ہوتا اور سیاستدان معلومات کے لئے ان دو مقامات پر ضرور آتے،عصر کے بعد میرے بیٹے سلیمان نے بتلایا کہ عثمان کاکڑ فوت ہوگئے ہیں یقین نہیں آرہا تھا یہ کیسے ہوا کہاں ہوا بڑی خبر تھی اس کی موت کی خبر تو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی شام کو گھر پر تھا اس لئے معلوم نہیں ہوسکا کہ کس ہسپتال میں ہے۔دوست کو فون کیا تو اس نے بتلایا کہ ہسپتال میں ہے اور کہاں کے آپ نہ جائیں رش بہت ہے اور لوگوں کو عثمان کاکڑ سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے اس دوست سے کہا کہ عثمان سے تو دوستی ہے اگر نہیں گیا تو وہ گلہ کریگا کہ شادیزئی آپ تو ملنے بھی نہیں آئے وہاں پہنچا تو ایک ہجوم باہر نظر آیا ہسپتال کے اندر داخل ہوا تو اوپر جانے والے گیٹ پر کارکن کھڑتے تھے اور اندر نہیں جانے دے رہے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا وہاں پہنچا جہاں وہ داخل تھا وہاں کیمرے کے باہر کارکن کھڑے تھے اور کمرے کے اندر کسی کو بھی جانے نہیں دے رہے تھے خواہش کے باوجود جانے نہیں دیا دوسرے فلور پر پہنچا تو کمرے نمبر 8میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان میں شناسا چہرے نظر نہیں آئے۔ان سے ہاتھ ملایا ایک صاحب سے پوچھا عثمان کاکڑ کو کیا ہوا تو اس نے بتلایا عثمان کاکڑ کی طبعیت خراب ہوئی الٹی آرہی تھی وہ باتھ روم میں گئے تو گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے ہیں اب وہ ہسپتال میں ہے اس کے دوسرے دن علم ہوا کہ انہیں کراچی لے گئے ہیں اور پر خبر آگئی کہ عثمان کاکڑ اس دارِ فانی سے چلے گئے ہیں ذہن نے ماضی کے اوراق پلٹنے شروع کردیئے مجھے اس لمحے کی تلاش تھی جہاں سے اس کی شہرت کا آغاز ہوا تو ذہن رک گیا۔عثمان کاکڑ (پی ایس او)کا لیڈر بن گیا یہاں سے ان کی زندگی کا آغاز ہوگیا نوجوانی کی دور میں وہ پشتونخوامیپ کے تھنک ٹینک کے قریب ہوگیا،ایک لحاظ سے عبدالرحیم مندوخیل کا شاگرد بن گیا عبدالرحیم مندوخیل نے جب محمود خان افغانستان چلے گئے تھے پارٹی کو منظم رکھا اور اس کو بکھرنے نہیں دیا وہ پشتونخوا کے اندر کارل مارکس تھے۔عبدالرحیم مندوخیل مولانا بھاشانی سے متاثر تھے اس گروپ میں عبدالرحیم کاکڑ،محمد جان مندوخیل،خالد خان کاکڑ شامل تھے،خان شہید سے اختلاف ہوا تو بھاشانی گروپ میں چلے گئے عبدالرحیم کاکڑ پی پی پی میں چلے گئے خالد خان بھی پی پی پی میں شامل ہوگئے،راستے جدا ہوگئے عبدالرحیم مندوخیل اور محمد جان مندوخیل دوبارہ پشتونخوا میں شامل ہوگئے چند سالوں بعد محمد جان مندوخیل نے پارٹی چھوڑ دی لیکن عبدالرحیم مندوخیل زندگی کے آخری لمحات تک پارٹی میں شامل رہے پشتونخوامیں ہمیشہ یہ سیاسی رجحان موجود ہے ایک کمیونسٹ رجحان دوسرا قوم پرست،ان دونوں کے درمیان اندرونِ خانہ کشمکش رہی ہے لیکن قوم پرست سوچ کا غلبہ ہمیشہ باری رہا ہے۔عبدالرحیم مندوخیل سے عثمان کاکڑ بہت متاثر تھے عثمان کاکڑ ہمیشہ پشتونخوا کے دفتر میں عبدالرحیم مندوخیل کے ساتھ کھڑا پایا وہ عبدالرحیم مندوخیل کے ایک قابل شاگرد تھے عثمان کاکڑ سے ان دنوں دور دور سے سلام دعا تھی اس کا طالب علمی کا دور ختم ہوگیا تو وہ پشتونخوا پارٹی میں شامل ہوگیا یہاں سے اس کا سیاسی سفر شروع ہوگیا طالب علم لیڈر اور مقرر بھی خوب تھا قدیم وجدید ذہن کی کشمکش ہمیشہ رہے گی یہ ایک فطری تقاضا ہے کوئٹہ میں حکومت مخالف پارٹیوں نے ایک محاذ بنالیا اس میں جماعت اسلامی،نیشنل پارٹی،بی این پی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی شامل تھی،اس دوران عثمان کاکڑ سے دوستی ہوگئی باخبر میں کالم چپھتے تھے تو وہ پڑھتا تھاایک دور تھا جب میرے کالم پشتونخوا کے رجحانات کے خلاف تھے وہ افغانستان میں سویت جارحیت کے حامی تھے اور میری رائے ان کے خلاف تھی۔بعض دفعہ ان کا ردِ عمل شدید ہوتا تھا اس کا اظہار گفتگو میں بھی کرتے تھے لیکن کالم ضرور پڑھتے تھے اسی طرح عثمان کاکڑ اور زیارتوال سے قربت بڑھ گئی پشتونخوا کے دفتر آنا جانا ہوتا تھا تو عثمان کاکڑ اور زیارتوال سے ملاقات ضرور ہوتی،بعض دفعہ جاتا تو وہ دفتر کے اندر پارٹی میٹنگ میں مصروف ہوتے تو مجھے دیکھتے ہی فوراً میرے پاس آجاتے اور کہتے تھے آپ نہ جائے میٹنگ جلد ختم ہوگی تو آپ سے بات ہوگی (جاری)