20سال بعد

تحریر:انور ساجدی
بے شمار سیاسی و غیر سیاسی مبصرین کو پکا یقین ہے کہ ہمارے حکمران افغانستان کی ممکنہ جنگ یا خانہ جنگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ہاں کھینچ کر لے آئیں گے بظاہر تو غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن معاشرہ کے ایک بڑے حصے میں خاص طور پر اشرافیہ میں طالبان کیلئے ہمدردی کا جذبہ موجود ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان لوگوں کا طالبان سے نظریاتی تعلق ہے بلکہ وہ جانتے ہیں کہ آئندہ چھ ماہ کے عرصہ میں ایک جنگی معیشت جنم لینے والی ہے گزشتہ بیس برس میں جو اربوں ڈالر افغانستان میں جمع ہوئے تھے اس کا تھوڑا سا حصہ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف بھی آئیگا اگرچہ افغانستان کے بڑے سرمایہ دار اپنا مال ومتاع امریکہ اور یورپ منتقل کر چکے ہیں لیکن درمیانہ درجہ کے سرمایہ داروں کی دسترس میں یہی ہے کہ وہ پشاور اسلام آباد اور کوئٹہ کا رخ کریں انہوں نے یہاں کاروبار شروع کرنے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیا ہے وہ لوکل پارٹنر رکھ کر کاروبار کریں گے اس سے قطع نظر امریکہ طالبان اور پاکستانی حکمرانوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ افغانستان کیلئے آئندہ پلان کیا ہے اگرچہ امریکہ عجلت میں بھاگا ہے لیکن طالبان سے اس کے روابط قائم ہیں بے یار و مددگار افغان حکومت کچھ عرصہ تک مزاحمت کرے گی لیکن بالآخر طالبان غالب آ جائیں گے لگتا ہے کہ اس مرتبہ طالبان عجلت میں نہیں ہیں اور وہ ٹھنڈا کر کے کھانے کے موڈ میں ہیں وہ ایک طرف دنیا بھر کو تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اقتدار حاصل کریں گے تو دوسری طرف ان کی جنگی کارروائیاں بھی جاری ہیں زیادہ سے زیادہ علاقے ان کے کنٹرول میں آ رہے ہیں انہوں نے گزشتہ ہفتہ اسپین بولدک پر قبضہ کر کے مقامی تاجروں کے 3 ارب پاکستانی روپے لوٹے تاہم بعد میں واپس چلے گئے اس واقعہ کے بعد افغانستان کے نائب صدر امر اللہ نے ایک جذباتی بیان جاری کیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان نے واضع وارننگ دی کہ اگر افغان ایئر فورس نے طالبان کے خلاف کارروائی کی تو پاکستان کی فضائیہ جوابی کارروائی کرے گی افغان حکومت کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ ازبکستان میں صدر اشرف غنی نے الزام عائد کیا ان کے ملک میں پاکستان سے در اندازی ہو رہی ہے ان کے بقول 10ہزار کا لشکر افغانستان میں داخل ہو گیا ہے وزیراعظم عمران خان نے اشرف غنی کی موجودگی میں الزامات کی تردید کی تاہم ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہو گئی۔
جب سے افغان حکومت عالمی سرپرستی سے محروم ہوئی ہے نہ صرف افغانستان میں خونریزی بڑھ گئی ہے بلکہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ چند روز قبل کوہستان میں 9چینی انجینئر دھماکے میں مارے گئے ابھی تک یہ کھوج نہ لگایا جا سکا کہ اس واقعہ کے پیچھے کون ہے؟ چین اپنے انجینئروں کے قتل پر سخت ناراض ہے اور اس نے داسو ڈیم کی تعمیر کا کام روک دیا ہے۔
آثار بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں ہر طرح کا تشدد فروغ پا رہا ہے ٹی ٹی پی مسائل پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ چار جماعتیں ضرور بنیں گی جن میں اے این پی، پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی سرفہرست ہیں جبکہ محمود خان کی پشتونخوامیپ بھی نشانہ بن سکتی ہے 2013ء کے انتخابات میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کو خاص نشانہ بنایا گیا تھا جس کا فائدہ تحریک انصاف اور ن لیگ کو پہنچا تھا۔
اس صورتحال کے باوجود اے این پی نے نہایت دلیری کے ساتھ طالبان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے دو روز قبل پارٹی کے لیڈر ایمل ولی خان نے اشاروں میں کہا کہ طالبان دہشت گرد ہیں وہ نہ صرف افغانستان کے امن کو تاراج کریں گے بلکہ پاکستان بھی ان کی زد میں آئیگا اس سے قطع نظر طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور اس کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے انہوں نے دنیا کی تمام طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے تاہم انہوں نے پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
تذویراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان اس بار مختلف صورت میں سامنے آئیں گے اور ماضی کی طرح وہ صرف ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر کے انہیں ڈکٹیشن دینے کی کوشش کریں گے طالبان کے قبضہ سے قبل لاکھ کوشش کے باوجود خانہ جنگی ناگزیر ہے امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ بے یارومددگار اشرف غنی مزاحمت ترک کر دیں اور پر امن طریقے سے اقتدار طالبان کے حوالے کر دیں غالباً کئی دیگر ممالک بھی یہی چاہتے ہیں برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں یورپی یونین جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرے گی حالات واضع ہونے کے بعد وہ فیصلہ کرے گی کہ کس کا ساتھ دیا جائے تاہم طالبان کابل کے محاصرہ کی صورتحال پیدا کر رہے ہیں تمام عالمی سرحدوں پر کنٹرول حاصل کرنا طالبان کے لئے مشکل نہیں ہے جس کے بعد کابل کا محاصرہ کیا جائیگا اس دوران ہر طرح کی سپلائی بند کر دی جائے گی سامان ضروریہ اور رسد کی فراہمی کو ناکام بنایا جائیگا ہو سکتا ہے کہ یہ کابل کا طویل محاصرہ ہو، یا یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے دارالحکومت کے عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اشرف غنی محفوظ راستہ مانگے اس مرتبہ شمالی اتحاد کے رہنماء کسی نامعلوم وجہ سے جلد بازی میں نہیں ہیں غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ملا ہیبت اللہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے تمام باشندوں کو حکومت میں نمائندگی دی جائے گی لسان اور عقیدہ سے ہٹ کر تمام شہریوں کو یکساں مقام دیا جائیگا انہوں نے سفارت کاروں سے بھی کہا ہے کہ وہ کسی خوف کے بغیر کابل میں موجود رہیں ادھر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے جنگ شروع کر دی تو وہ بھی جنگ کریں گے انہیں یقین دلانا ہوگا کہ وہ کسی بندوبست اور عالمی ضمانت کے بغیر خونریزی یا بندوق کی طاقت سے افغانستان پر قبضہ نہیں کریں گے۔
لیکن
افغانستان میں آج تک کسی نے اپنا عہد نہیں نبھایا طالبان جنگ تو ضرور کریں گے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کن حالات سے دوچار ہوجائیگا حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک بدامنی کی ایک واضع لہر دیکھی جا سکتی ہے حکام نے خود بتایا ہے کہ افغانستان کے سیلپرسیل دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں اور دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے گویا 20سال قبل جو صورتحال تھی وہ لوٹ کر آنے کا امکان ہے پہلے پاکستانی حکمرانوں کو مشرقی سرحدوں کی فکر تھی لیکن اب مغربی سرحدوں پر زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہے امریکہ کی مداخلت اور بیک ڈور چینل پر مذاکرات کے بعد مشرقی سرحدوں پر صورتحال قدرے پرسکون ہے لیکن افغان سرحد پر معاملات کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہے اگر ٹی ٹی پی نے دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد شروع کیا تو محدود وسائل کا زیادہ حصہ سیکورٹی پر جھونکنا پڑے گا جیسے کہ مشرف، زرداری اور نواز شریف کے دور میں ہوا تھا حکمرانوں کا جھوٹا دعویٰ ہے کہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے حالانکہ معیشت میں اتنی سکست نہیں کہ وہ ایک نئی اور طویل جنگ کا بوجھ اٹھا سکے اگر افغان پناہ گزین آ گئے تو لینے کے دینے پڑیں گے پناہ گزینوں کو اس لئے قبول کرنا پڑے گا کہ پاکستان ریاست مدینہ ہے اور مہاجروں کو قبول کرنا ریاست مدینہ کی روایت ہے عالمی قوانین بھی یہی کہتے ہیں کہ کسی ملک میں خانہ جنگی ہو وہاں سے جان بچا کر آنے والوں کو قبول کرنا پڑے گا عجب صورتحال ہو گی کہ جب افغانستان میں امارات اسلامی کا دوبارہ قیام ہو اور ڈیورنڈ لائن سے اس طرف عمران خان کی ریاست مدینہ ہو فرق صرف یہ ہوگا کہ افغانستان میں تاحیات امیر المومنین تخت پر براجمان ہوگا جبکہ پاکستان میں عمران خان کیلئے امیرالمومنین کا لقب اختیار کرنا ممکن نہ ہو گا جی تو ان کا بھی للچا رہا ہے لیکن آئین راستے میں حائل ہے تحریک انصاف کے حلقے پر عزم ہیں کہ ووٹنگ مشین اور اورسیز پاکستانی آئندہ انتخابات عمران خان کی جھولی میں ڈال دیں گے جس پر وہ آئین کو بدل ڈالیں گے اور عین ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کو شوریٰ کا نام دیا جائے اور حکمران امیرالمومنین بن جائیں تحریک انصاف کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ عمران خان کا کوئی متبادل نہیں ہے ن لیگ کو آنے نہیں دیا جائیگا پیپلز پارٹی آ نہیں سکے گی لہذا واحد انتخاب تحریک انصاف ہے۔
قبلہ شاہ محمود قریشی نے تو باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم مزید 20 سال برسراقتدار رہیں گے شاہ صاحب اور خان صاحب دونوں اس وقت 70کے پیٹے میں ہیں اور وہ مہاتیر محمد کی طرح 90 سال کی عمر تک اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں شاہ صاحب کا خیال ہے کہ پانچ سال نہ سہی 10سال بعد ان کی باری ضرور آئیگی وہ حق بجانب ہیں کیونکہ خواب دیکھنا ہر ایک کا حق ہے لیکن جناب یہ پاکستان ہے یہاں کل کی بھی پیشنگوئی ممکن نہیں ہے 20سال تو بہت دور کی بات ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں