عثمان سیاست کے اندھیرے میں چراغ شب تھا۔
تحریر:امان اللہ شادیزئی
گزشتہ سے پیوستہ
ہم دونوں کئی مقامات پر اکھٹے ہوتے جب سائنس کالج میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کا جلسہ ہوتا تھا تو اس میں میری تقریر ضرور ہوتی تھی عثمان کاکڑ بھی تقریر کرتے تھے ان کے چچا سردار عبدالرشید جماعت اسلامی بلوچستان کے ٹکٹ پر صوبائی انتخاب لڑ رہے تھے ایک بار ملاقات میں عثمان کاکڑ سے کہاں کہ آپ کے والد جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے تو انہوں نے کہا وہ میرے چچا تھے اور خوب ہنسے عثمان سے دوستی ہوگئی گزشتہ انتخابات میں میری رائے تھی کہ عثمان کاکڑ کو صوبائی نشست کا ٹکٹ دینا چاہیے تھا لیکن پارٹی کا فیصلہ کچھ اور تھا ان کو ٹکٹ دیا جاتا تو وہ ایک شاندار پارلیمنٹرین بن کر ابھرتے،ابولکلام آزاد نے کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،یعنی وہ بڑی بے رحم ہوتی ہے پھر جب کوئٹہ کے میئر کا مرحلہ آیا تو میری رائے تھی کہ عثمان کاکڑ کو میئر ہونا چاہیے تھا پشتونخوا کے کئی دوستوں کے سامنے اس کا بر ملا اظہار بھی کیا وہ مجھ سے متفق تھے لیکن کہتے تھے کہ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے،ڈاکٹر کلیم اللہ کو میئر بنایا گیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے،کوئٹہ ایک کھنڈرکا نقشہ پیش کررہا تھا،ڈاکٹر کلیم اللہ سے کئی بار ملا ہوں ایک بار ملاقات کی تو مجھ سے پوچھا آپ کون ہے ان سے کہاں کہ امان اللہ شادیزئی تو ہنس پڑے یاد داشت ان کا ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ ،سینیٹ میں عثمان کاکڑ کو ٹکٹ دیا گیا میرے نزدیک سینٹ ایک لحاظ سے سیاسی کارکن کیلئے جلاوطنی کا درجہ رکھتی ہے۔
ہم دونوں کئی مقامات پر اکھٹے ہوتے جب سائنس کالج میں حزب اختلاف کی پارٹیوں کا جلسہ ہوتا تھا تو اس میں میری تقریر ضرور ہوتی تھی عثمان کاکڑ بھی تقریر کرتے تھے ان کے چچا سردار عبدالرشید جماعت اسلامی بلوچستان کے ٹکٹ پر صوبائی انتخاب لڑ رہے تھے ایک بار ملاقات میں عثمان کاکڑ سے کہاں کہ آپ کے والد جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے تو انہوں نے کہا وہ میرے چچا تھے اور خوب ہنسے عثمان سے دوستی ہوگئی گزشتہ انتخابات میں میری رائے تھی کہ عثمان کاکڑ کو صوبائی نشست کا ٹکٹ دینا چاہیے تھا لیکن پارٹی کا فیصلہ کچھ اور تھا ان کو ٹکٹ دیا جاتا تو وہ ایک شاندار پارلیمنٹرین بن کر ابھرتے،ابولکلام آزاد نے کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،یعنی وہ بڑی بے رحم ہوتی ہے پھر جب کوئٹہ کے میئر کا مرحلہ آیا تو میری رائے تھی کہ عثمان کاکڑ کو میئر ہونا چاہیے تھا پشتونخوا کے کئی دوستوں کے سامنے اس کا بر ملا اظہار بھی کیا وہ مجھ سے متفق تھے لیکن کہتے تھے کہ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے،ڈاکٹر کلیم اللہ کو میئر بنایا گیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے،کوئٹہ ایک کھنڈرکا نقشہ پیش کررہا تھا،ڈاکٹر کلیم اللہ سے کئی بار ملا ہوں ایک بار ملاقات کی تو مجھ سے پوچھا آپ کون ہے ان سے کہاں کہ امان اللہ شادیزئی تو ہنس پڑے یاد داشت ان کا ساتھ چھوڑ رہی تھی،سینیٹ میں عثمان کاکڑ کو ٹکٹ دیا گیا میرے نزدیک سینٹ ایک لحاظ سے سیاسی کارکن کیلئے جلاوطنی کا درجہ رکھتی ہے۔سینیٹ صرف سیاسی پارٹی کے اندر ایک طرح سے لیڈر کو کنارہ لگانے کے مترادف ہے۔میرے نزدیک سیاستدانوں کے لئے خاص طور پر نوجوانوں کیلئے سیاسی موت کا کنواں ہے وہ صرف وقت پاس کرنے کے لئے ایک الگ سیاسی اسٹیج ہے وہ آہستہ آہستہ گوشہ گمنامی میں چلاجاتا ہے اس کا تعلق بڑی خوبصورتی سے کارکنوں سے دور کرلیا جاتا ہے۔عثمان کاکڑ پارٹی کے اندر بڑی تیزی سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے عثمان کاکڑ نے سینیٹ میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور اپنے موقف کو جذباتی انداز میں لیکن دلائل کے ساتھ رکھا لیکن وہ بات جو صوبائی اسمبلی میں ہوسکتی ہے سینیٹ اس کا متبادل نہیں ہوسکتا۔عثمان کاکڑ نوجوان تھے اور پشتون طلباء ونگ سربراہ تھے۔سیاسی پارٹیوں میں میرا اپنا تجربہ ہے اور وہ یہ ہے ایک طالب علم لیڈر جب پارٹی میں شامل ہوتا ہے تو اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ایک تو اس کی پشت پر طلباء کی قوت ہوتی ہے اور اگر مقرر ہو تو پارٹی کے اندر ایک ان دیکھی کشمکش شروع ہوجاتی ہے یوں قدیم ذہن اور جدید ذہن کی کشمکش اندر ہی اندر شروع ہوجاتی ہے۔عثمان کاکڑ ایک بہترین مقرر تھے ان کی شخصیت میں ایک پہلو بہت اہم تھا ان کی چہرے کی شائستگی اور چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہوا لگتا چہرے پر کرختگی نہیں ہوتی جب ان سے ملتا تو وہ مسکرا کر ملتے اور بہت احترام کرتے تھے اور بعض معاملات پر کھل کر گفتگو کرتے انہیں معلوم تھا کہ میری سوچ ان سے کئی معاملات میں مختلف تھی لیکن ہمارے درمیان جب بھی ملاقات ہوتی تھی تو بعض پیچدہ معاملات کو ہم دونوں نظر انداز کر کے بات کو آگے بڑھاتے تھے انتخابات سے کافی پہلے عثمان خان کاکڑ نے مجھے افطار کی دعوت دی میرے ہمراہ حاجی عبدالقیوم خان کاکڑ(مرحوم)بھی تھے۔ڈبل روڈ پر ان کی رہائش گاہ پر انتظام تھا افطار ایک بھر پور انتظام کے ساتھ تھا۔عبدالرحیم زیارتوال گفتگو کے دوران کرسی پر ہی بیٹھے رہے ہم اس موقع پر ایک خاص پہلو پر اظہار خیال کررہے تھے کہ ایک نئی صف بندی ہونی چاہیے ہم جس طرح کی سیاسی صف بندی چاہتے تھے اس پر ہم خوب ہنسے اور سوچ رہے تھے کہ یہ ہو سکے گا۔میری بڑی خواہش تھی کہ عثمان کاکڑ سے ملاقات کروں لیکن یہ اتفاق ہے کہ بطور سینیٹر ان سے نہ مل سکا یہ موقع ہاتھ نہیں آیا تو ان کوپنجاب کی سیاست پر بعض مشورے دیتا تا کہ اس کی شخصیت بہترطور پر ابھر سکے اور پنجاب اس کے موقف کو سن سکے اور اس کی شخصیت کیلئے احترام زیادہ ہو بلوچستان سے سینیٹ میں نہ جانے کتنے لوگ پہنچیں اور وہ گمنام ہی رہے آج ان کو یادکرنے والا کوئی نہیں ہے ایسے کئی مواقع پر باقی بلوچ یاد آتا ہے۔پورا پنجاب اس کو سنتا تھااس پر جب قاتلانہ حملہ ہوا اور اسے پانچ گولیاں لگیں اور کے ساتھ صحافی نے دم توڑا اور باقی بلوچ بچ گیا یہ ایوب خان کا دورِ حکومت تھا نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان تھے اسے خون کی ضرورت تھی تو پنجاب کے طالب علم خون دینے پہنچ گئے اور ہزاروں نوجوان خون دینے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے تھے جب باقی بلوچ بولتا تھا تو پورا پاکستان اس کو سنتا تھا اس دور میں نواب خیر بخش مری،عطاء اللہ مینگل اور بزنجو ایوان میں موجود تھے مگر باقی بلوچ سب پر چھا گیا اس کے بعد بھٹو نے سینٹ تشکیل دی مسلسل اس میں بلوچستان سے بلوچ اور پشتون منتخب ہو کر پہنچ رہے ہیں تقریریں بھی کرتے رہے ہیں لیکن عوام میں ان کی کوئی پذیرائی نہیں اس کی اصل وجہ سینیٹ دستوری مقام ہے جو بھی سینٹ میں پہنچا وہ گمنام ہوگیا اس کی اصل وجہ سینٹ کا بے اختیار ہونا ہے میری رائے تو یہ ہے کہ سینٹ کو ختم کیا جائے اور امریکی طرزِدستور کو اپنایا جائے سینیٹ کو با اختیار بنایا جائے اور صوبوں کو سینٹ میں برابری کا درجہ دیا جائے تو پنجاب کی بالا دستی ختم ہوسکتی ہے پنجاب اور بلوچستان کو مزید صوبوں میں تقسیم کیا جائے نئے صوبوں کو کیا نام دیا جائے اس پر صوبے میں ریفرنڈم کرایا جائے تو جو کشمکش سندھ اور بلوچستان میں تلخیاں پیدا کرتی ہے وہ ختم ہوجائے گی یہ میری رائے اور تجویز ہے اس پر بحث ہوسکتی ہے۔عثمان خان کو چاہیے کہ اس مسئلے پر سینیٹ میں بحث کا آغاز کرتا لیکن وہ نہیں کرسکا،عثمان کی موت ایک بہت بڑا حادثہ ہے وہ شعلہ بیان مقرر تھا اس کا سیاسی خلاء کو ن پر کریگا یہ مستقبل میں آشکار ہوجائے گا فی الحال دور دور تک اس کا متبادل نظر نہیں آتا ہے لیکن سیاست میں سفر ہمیشہ آگے کی جانب چلتا رہتا ہے سیاسی قافلہ بھی محو سفر رہے گا اور کوئی نہ کوئی ضرور آجائے گا مگر وہ عثمان کاکڑ جیسا نہیں ہوگا۔ہوسکتا ہے اس سے بہتر شخص ابھر آئے پاکستان کی سیاست میں عرب ملوکیت کا رجحان بن گیا ہے یا اسے ایک خاص منصوبے کے طرز پر آگے بڑھایا جارہا ہے۔باپ کی جگہ اس کے بیٹے کو جانشین کی طور پور آگے لایا جارہا ہے اس مرض سے صرف جماعت اسلامی بچی ہوئی ہے جماعت اسلامی حقیقی معنوں میں عوامی جماعت ہے میری مراد اس میں باپ کی جگہ بیٹا ہوتا یا نواسہ ہو اس سیاسی بیماری سے جماعت اسلامی محفوظ ہے۔حقیقی معنوں میں جماعت اسلامی پرولتاریہ جماعت ہے اس حقیقت کا ادراک مستقبل میں ہو جائے گا سیاست کو بیٹوں،لڑکیوں،پوتوں اور نواسوں کے ذریعے پروان نہ چڑھایا جائے۔عثمان کاکڑ کی طرز کی سیاست آج پاکستان اور بلوچستان کی ضرورت ہے۔سیاست میں شہنشاہیت کا فلسفہ نہ اپنا یا جائے باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو ایک سیاستدان کا بیٹا ہونا پارٹی ورکروں پر بالا دست ہونا عوامی سیاست ہو یا قوم پرست سیاست اس رجحان کو ترک کر کے خوبصورت سیاست کا آغاز کیا جائے عثمان کاکڑ پر بہت کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں اس کی موت ایک معمہ بنی رہی گی میری نظر میں سیاست کے اندھیروں میں ایک روشن چراغ تھا جو گل ہوگیا اپنے پیچھے نہ جانے کتنی ان کہی کہانیاں چھوڑ گیا وہ سیاست کا ایک خوبصورت باپ تھا جو بند ہوگیا اس کی عزیزوں دوستوں کو اور پارٹی ورکروں سننے والوں سے تعزیت کرتا ہوں،دعا ہے اسے ابدی سکون ملے۔(ختم)