لالا کی باتورہ
تحریر: عبدالباری شاہ
زیر نظر تصویر پاکستان کے ایوان بالا یا سینٹ میں صوبہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے سنیٹر عثمان خان کاکڑ کے بیٹی باتورہ کاکڑ کی ہے جو اپنے والد کی قبر پر لیٹ کر سکون دل حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے عثمان خان کاکڑ پشتونخوا میپ کی پلیٹ فارم سے سال 2015 سے 2021 تک سینٹ پاکستان کے رکن اور اس کے سٹینڈنگ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقوں کے چیئرمین رہےویسے تو سینٹ پاکستان سال بھر 104 اراکین سے بھرا پڑا رہتا ہے جن میں ایسے اراکین بھی ہے جو میرے خیال کئی سالوں سے سینٹ کے کرسیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر ان کو اپنے عوام کی مسائل سے زیادہ اپنے نام کے ساتھ سنیٹر لکھنا بہت پسند ہے
اس کے مقابلے میں عثمان خان کاکڑ نے چھ سال سینٹ میں گزارے اور ان چھ سالوں میں انہوں نے ملک کے محکوم اور مظلوم اقوام چھوٹے بڑے مسائل کو جس طرح باہمت، جرآت مندی، اور آئینی طریقے سے پیش کئے وہ میرے خیال میں ملکی تاریخ میں کسی اور سینیٹر نے نہیں اٹھائیں ہوں گے جس کی واضح دلیل حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں دونوں کے ہزاروں کارکنان آج سیاسی اختلافات سے ہٹ کر ان کی کارکردگی کو سراہتے ہیں اور ان کی حق ہونے پر گواہی دیتے ہیں
گزشتہ مہینے جون 17 تاریخ کو شام اچانک سوشل میڈیا پر خبر چلی کہ عثمان خان کاکڑ کو حادثہ پیش آیا اور کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے ان کی آپریشن جاری ہے بعد میں ان کی واقعہ سے متعلق مختلف قسم کی خبریں آنا شروع ہوگئی جس میں ایکسیڈنٹ، گھر کے سیڑھیوں گرنا، اور بالآخر جب وہ کوئٹہ سے کراچی ریفر ہو رہا تھا تو ایک نئی بات سامنے آئی کہ عثمان کاکڑ پر حملہ ہوا ہے
یہ وہ وقت تھا جب ہمارے پورے صوبے کو عثمان کاکڑ کی غم نے لپیٹ میں لیا گیا تھا اور ہر شخص کی منہ پر ان کی صحتیابی کیلئے دعائیں تھے ہر طرف قرآن پاک کی ختم ہو رہے تھے دیگر صدقے جاری تھے ایسے میں ان کو بذریعہ ائیر ایمبولینس کراچی کے آغا ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور ان کے اچانک واقعے پر رنجیدہ لاکھوں عوام ان کے دوبارہ صحتیابی کیلئے دعائیں اور منتیں کرنے میں مصروف تھے
مگر 21 جون 2021 کے سہ پہر کا وہ لمحہ جب صوبے کے لاکھوں عوام کے بیچ عثمان کاکڑ کے موت کی خبر پھیلی تو صوبے میں پہلے سے پھیلی ہوئی سوگ میں اور بھی اضافہ ہوا اور ہزاروں آنکھوں سے آنسو بہہ گئےپھر ان کے جنازے کی کراچی سے اور کوئٹہ مسلم باغ تک استقبال اور صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہم سب نے دیکھا کہ تاریخ میں اس طرح نہیں ہوا ہے اور نہیں میرے خیال میں ہو سکتا ہے
عثمان خان کاکڑ کی جنازے کے دوران پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور ان کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ نے پاکستان کے دو اہم انٹیلی جنس اداروں پر عثمان کاکڑ کو مارنے کا الزام عائد کیا اور آج کل ان کی پارٹی اس واقعے کے خلاف پورے صوبے احتجاجی تحریک چلا رہی ہے جس میں پارٹی کا موقف یہی ہے کہ عثمان کاکڑ کی موت میں ملک کے دو اہم انٹیلیجنس ادراے ملوث ہیں اور وہ ثبوت کے طور پر عثمان کاکڑ کی سینٹ میں الوداعی تقریر کے وہ الفاظ پیش کر رہے ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ ( اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کی زمہ دار دو انٹیلیجنس ادراے ہیں ) مگر دونوں اداروں کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے
حکومتی سطح پر بلوچستان حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنایا ہے جو ایک مہینے بعد اپنا رپورٹ جاری کرے گا
ہمارے دانشور لوگ کہتے ہیں کہ ناانصافیوں سے نفرتیں اور نفرتوں سے بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت ملکی سالمیت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اس لئے اگر ہم ان سب سے بچنے کیلئے سنجیدہ ہے تو شہید عثمان خان کاکڑ معصوم بیٹی باتورہ کاکڑ سمیت عثمان کاکڑ کی ہزاروں حامیوں کو انصاف ملنا چاہیے