بے رنگی ساعت امروز

تحریر:جمشید حسنی
کافی دنوں سے کچھ لکھنے کا موڈ نہیں بن رہا ٹی وی کھولو مریم ہے،گنڈا پور ہے عمران خان ہے،فواد چوہدری،شیخ رشید،افغان سفیر کی بیٹی کوئی نہیں پوچھتا کہ ایک غیر ملکی نوجوان،خواتین،مارکیٹوں میں اکیلے گھومنا اس کی کیا مجبوری ہے ایجنسیاں سفارت کاروں کے حمل و نقل پر کیا نظر رکھیتی ہیں افغانستان نے اپنا سفیر واپس بلالیا۔
عمران خان کے بیرون ملک دورے ہیں کہتے ہیں انہوں نے امیر تیمور اور امام بخاری کے مزار پر حاضری دی،امام بخاری اونچے پائے کے محلات تھے،حدیث کے دوسرے مجموعے سنیں ابو داؤد اور خاصع ترمزی ہیں،ملکی حالات برست کا موسم ہے فلاں جگہ سیلابی بند ٹوٹ گیا،فلاح جگہ پل بہہ گیا،سڑک بہہ گیا،فصلات اور گاؤں زیر آب آگئے اب تو قدرتی آفات سے نمٹنے کا قومی ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہے۔یورپ میں سیلاب ہے۔فرانس میں کئی لوگ مر گئے،انسان قدتی آفات کے سامنے بے بس ہے،کائنات کا سب سے بڑا سیلابی طوفان نوح تھا،پو مپائی کا شہر آتش فشاں کے لاوے میں غرق ہوگیا،عشرہ قبل ہمارے ہاں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا ستر ہزار لوگ مر گئے،رسول اکرمؐ نے دعامانگی کہ اللہ ان کی امت کو آگ پانی سے امان دے، دعاقبول ہوئی انہوں نے مسلمانوں کی بے اتفاقی ختم کرنے کی دعا کی یہ دعا قبول نہ ہوئی ہم مسلمانوں کا المیہ خانہ جنگی ہے 14سو سال سے شیعہ سنی بے اتفاقی افغانستان میں 40سال سے خانہ جنگی نائیجریا،سوڈان،ایتھو پیا،یمن،شام،عراق خانہ جنگی۔
ہمارے صوبہ بلوچستان میں ایوب خان کے دور سے بدامنی رہی،ریاست قلات کو پاکستان میں ضم کیا گیا،نواب نوروز کان اور ساتھ مارے گئے،فوجی آپریشن ہوئے مسئلہ حل نہ ہوا۔عمران خان کہتے ہیں ناراض بلوچوں سے ملاقات کریں گے،کوشش تو ڈاکٹر مالک نے بھی کی شاہ زین بگٹی ثالثی کریں گے،بھٹو نے عطاء اللہ مینگل کی حکومت ہٹائی ان کے دادا نواب اکبر بگٹی آگے آگے آئے گورنر بنے مگر بھٹو سے یاری آٹھ ماہ بھی نہ چلی،بلوچ قوم پرست بھی منقسم ہیں تین چار پارٹیاں پشتون قیادت کو بلوچ مسئلہ سے دلچسپی نہیں مذاکرات کس سے ہوں گے پرانے اکابرین میں صرف عطاء اللہ مینگل حیات ہیں۔
وہ بھی گوشہ نشین ہیں،نواب خیر بخش کے بیٹے نواب اکبر بگٹی کے پوتے خان قلات آغا سلیمان بیرون ملک ہیں،ہمیں تو خوشی ہوگی اگر بلوچستان کو حقوق ملتے ہیں جو آیا ہے پیکیج سے مسئلہ حل کرتا ہے۔وسائل نہیں جہالت ہے،غربت ہے،پورے صوبہ میں دریا نہیں کارخانہ نہیں موٹر وے نہیں روزگار کے مواقع محدود ہیں،40لاکھ افغان مہاجرین آخر انہوں نے بھی تو روزگار کرنا ہے۔زمینداری بجلی نہیں،زیر زمین پانی کی سطح گر گئی ہے،ایران افغانستان چھوٹی موٹی چیزیں اسمگلنگ کی تجارت پر گزارہ ہے۔پنجاب میں 21نئی یونیورسٹیاں بنیں یہاں ایک یونیورسٹی نہ بنی۔
بلوچستان میں قبائلی نظام اور سرداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے مگر جمہوری اداروں نے بھی کچھ نہیں کیا،مرکز نے ہمیشہ چند لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا،بلوچستان کی پاکستان سے الحاق کی بھی میونسپلٹی ہیں چند ممبروں نے بیٹھ کر دی،شاہ زین بگٹی کو 74کروڑ اور وزارت ملی ہے،واویلہ تھا پنجاب میں بگٹی پناہ گزین ہیں ان کی واپسی اور آباکاری کے لئے کیا ہورہا ہے اب تو دو بگٹی حکومت میں سرفراز بگٹی سینیٹر ہیں ڈیرہ بگٹی کو ایک راستہ بڑی سنگیلا سے جاتا ہے دوسرا بیکڑ کے راستے رکنی تک دونوں راستے کچے ہیں گیس نکلے67سال ہوگئے پورے ملک میں ملتی ہے علاقہ میں کوئی ترقی روزگار نہیں۔
جہاں تک عوامی نمائندگی کا سوال ہے کس کوموقع نہیں ملے۔ظفر اللہ جمالی وزیراعظم رہے،عطاء اللہ مینگل،اختر مینگل،نواب بگٹی،خان جمالی،تاج محمد جمالی،نواب ذوالفقار مگسی،نواب اسلم رئیسانی،ڈاکٹرمالک بلوچ،ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ رہے،اب جام کمال ہیں،غوث بخش رئیسانی،غوث بخش بزنجو،نواب بگٹی گل محمد خان جوگیزئی،عبدالقادر بلوچ،فضل آغا،امان اللہ یٰسین زئی گورنر رہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار کس بات کوٹھہراؤں،دانشور نہیں کہ تھیوریاں پیش کروں،پورے صوبہ میں کوئی موٹر وے نہیں،لورالائی ائیر پورٹ منظور ہوا،یوسف رضا گیلانی نے فنڈ منتقل کر کے ملتان میں اوور ہیڈ برج بنائے،گوادر سڑک نہ بن سکی،پینے کا پانی برساتی ڈیم سے سینکڑوں کلو میٹر پائپ لائن سے آئے گا،جمہوریت ہے،انتخابات ہیں،حکومتیں بنتی ہیں گرتی ہیں،نہ مہنگائی کم ہوئی نہ کوئی بڑا ہسپتال بنا،بھٹو دور کے بولان میڈیکل کمپلیکس کے بعد کوئی بڑا ہسپتال نہیں بنا،گردے کا ہسپتال نواز شریف نے پنجاب کی خیرات سے بنایا،اگر عرب شیخ کوئی خیراتی ہسپتال بناتے ہیں ت و یہ ترقی نہیں۔
شاعرنے کہا۔
چیخ اٹھنا بھی تو مجبوری ہے
جبر کچھ ظلم ہی سہنے میں نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں