ادھربھی جھرلو ادھربھی جھرلو
تحریر، انور ساجدی
کشمیر میں تحریک انصاف نے ووٹوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جو حالیہ عید پر کراچی کے بعض لوگوں نے قربانی کے جانوروں کے ساتھ کیا کراچی والوں نے کئی مقامات پر بیلوں کوگولیوں سے چھلنی کردیا یہ سماج کی بگڑتی ہوئی آخری صورتحال ہے نہ صرف یہ بلکہ ایک ڈاکٹر نے اپنی دوست خاتون کوذبح کرکے اس کا سرقلم کردیا اس سے قبل اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کوپراسرارٹیکسی ڈرائیوروں نے کئی گھنٹی تک اغوا کئے رکھا جس پر سفیر کا اہل خانہ جان بچاکر کابل بھاگ گیا لیکن وہاں پر بھی خطرات ہی خطرات ہیں جہاں طالبان نے اپنے سابقہ دور حکومت میں برقعہ پوش خواتین پر کوڑے برسائے تھے تشویشناک بات یہ ہے کہ سرحد کے دونوں جانب اقتدار طالبان کے قبضے میں ہے فرق صرف داڑیوں کا ہے سوچ اور اپروچ ایک جیسا ہے پاکستانی معاشرے میں بھی تشدد کا عنصرتیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور غالب آرہا ہے جب سے تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے متشدد لوگوں کا ایک ٹولہ نہ صرف گالی اور گولی کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہیں بلکہ ان لوگوں نے تحریک انصاف کوایک سیاسی ومذہبی کلٹ کی شکل دی ہے اس جماعت کے کارکن خود کو اشرف المخلوقات اور باقی جماعتوں کے لوگوں کو میلچ اورنیچ سمجھتے ہیں۔کشمیر میں الیکشن کی رات داخلہ کے وزیرشیخ رشید نے خود کو ولی اللہ قراردیا اگرشیخ رشید،علی امین گنڈاپور،مراد سعید اور شبلی کوہاٹی ولات کے درجے پر پہنچ گئے ہیں تو ان کے لیڈر عمران خان کا درجہ کیا ہوگا؟ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے خاردار پودوں کی جوفصل اگائی تھی وہ جوبن پر ہے اس نے ساری پرانی رسموں وضع داریوں اور باہمی احترام کو ملیامیٹ کردیاہے۔
علی امین گنڈاپور تو کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران پانچ ہزار کے نوٹوں کے بنڈل تقسیم کرتے نظرآئے لیکن شیخ رشید نے تازہ الزام یہ عائد کیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے کشمیر میں تجوریوں کے منہ کھولے تھے حالانکہ خزانہ کی کنجی تو حکومت کے پاس ہوتی ہے تحریک انصاف کو انتخابی مہم چلائے بغیر قطعی اکثریت حاصل ہوگئی ہے جو اگرچہ غیرمتوقع نہیں لیکن حیران کن ہے کشمیر کے انتخابات کے دن اہم سرکاری گاڑیوں پر تحریک انصاف کاپرچم نظرآیا اندرخالی بیلٹ باکس پڑے تھے۔لہٰذا تحریک کی کامیابی خاص دست شفقت کا نتیجہ ہے ن لیگ کے ساتھ تو بہت برا ہوا کیونکہ مریم بی بی نے بہت زوردار مہم چلائی تھی ان کے جلسوں میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جس سے یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ ن لیگ کامیابی حاصل کرے گی لیکن وہ تو پی پی کے برابر بھی نہ آسکی ن لیگ کشمیر کی سیاست میں اتنی پرانی جماعت نہیں ہے جبکہ پیپلزپارٹی 50سالوں سے وہاں پر موجود ہے تحریک انصاف تو تازہ تازہ واردہوئی ہے جسے غیر متوقع طور پر کامیابی دلائی گئی ہے اگردیکھاجائے تو25جولائی2018ء میں جو جھرلوپھیراگیا تھا کشمیرکا جھرلو اس سے بھی بے ڈھنگا اور بدنما ہے ضرور مخالفین انتخابی نتائج کومذاق قراردیں گے اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کریں گے لیکن ہوگا کچھ نہیں اگلے الیکشن تک یہ صورتحال جاری رہے گی ن لیگ کا راستہ روکنے کاواضح مطلب یہی ہے کہ وہ ابھی بھی پسندیدہ جماعت ہے لہٰذا آئندہ انتخابات میں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک روا رکھاجائے گا۔ایمانداری کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے انتخابات پیپلزپارٹی نے جیتے تھے لیکن اس کی10نشستیں غصب کی گئیں پیپلزپارٹی نے صرف وہ سیٹیں جیتی ہیں جہاں اس کے امیدواروں کو کافی بڑی اکثریت حاصل تھی اس پر جو رحم کیاگیا اس کا مقصد ن لیگ کو اپوزیشن کادرجہ دینے سے محروم رکھنا تھا۔
”اسلامی جمہوریہ کشمیر“ کو پاکستانی سیاستدانوں اورمقتدرہ نے مل کر مذاق بنادیا ہے اگرمودی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر مظالم ڈھارہا ہے تو آزاد کشمیر میں کونسااچھا سلوک ہورہا ہے یہاں پر ایک آزاد ریاست اسلام آباد کے جوائنٹ سیکریٹری کے ماتحت ہے کشمیری وزیراعظم وزراء مظفرآباد کی بجائے کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں پڑے رہتے ہیں انہیں اپنی حیثیت کا اچھی طرح علم ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں تھرڈ آپشن کی بات کی ہے بالآخر کشمیرکی مکمل آزادی ہی تنازع کا حل ہے اس کا سب سے پہلے خیال جنرل مشرف نے پیش کیا تھا انکے فارمولے کے مطابق10 سال تک دونوں کشمیر اقوام متحدہ کی نگرانی میں دیئے جائیں جس کے بعد ایک ریفرنڈم کرایا جائے جس میں یہ سوال پوچھا جائے کہ کشمیری عوام آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان اور بھارت میں شمولیت کا انتخاب کریں گے لیکن اس وقت بھارتی قیادت نے یہ تجویز رد کردی تھی اسے خوف تھا کہ کشمیری عوام آزادی کے حق میں فیصلہ کریں گے۔
1965ء،1971ء اور سیاچن اور کارگل کی جنگوں میں شکست نے مسئلہ کشمیر کو کمزورکردیا تھا حالیہ انتخابی مہم کے دوران مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان آزاد کشمیر کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا چاہتے ہیں اگرچہ ایسے کسی منصوبے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم اگرمسئلہ کشمیرکو حل کرنا ہے تو کوئی ایسا ہی فیصلہ کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اذلی کشمکش کاخاتمہ ہوپاکستانی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں مشرقی سرحدوں پرمسلسل کشیدگی ہے جس کی وجہ سے معیشت کی کمردوہری ہوگئی ہے اب تو مغربی سرحدوں پر بھی خطرات منڈلارہے ہیں افغانستان کی صورتحال غیریقینی ہے طالبان جلدی میں ہیں وہ پہلے قندھار اور اسکے بعد کابل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں امریکہ نے طالبان کے ٹھکانوں پربمباری شروع کردی ہے لیکن واضح نہیں کہ امریکہ نے یہ کارروائی کہاں سے کی ہے شک گزرتاہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرکے عمل میں لائی گئی ہے اس سلسلے میں پاکستانی حکام بھی خاموش ہیں ایک واقعہ یہ ہوا کہ45افغان فوجیوں نے پاکستان میں داخل ہوکر پناہ طلب کی لیکن پاکستانی حکام نے انہیں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ جنگ کا تیز ہونے کے بعد بڑی تعدادمیں افغان پناہ گزین صوبہ پشتونخوا اور بلوچستان کا رخ کریں گے پاکستانی حکمرانوں کیلئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جہاں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں پر بلوچ پناہ گزینوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار طالبان کے حوالے کریں اور جب تک ان کے مستقبل کافیصلہ نہیں ہوتا وہ نہتے پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہیں لیکن صاف ظاہر ہے کہ اگرطالبان نے قندھار اور کابل پر قبضہ کرلیا تو بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے افغانستان کی زمین تنگ ہوجائے گی حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر کافی خبریں چلائی گئیں ایک خاص خبر یہ تھی کہ بلوچستان کی سب سے بڑے مزاحمتی گروپ کے سربراہ ایک جھڑپ میں مارے گئے ہیں تاہم اس کی فوری تردید کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں تبدیلی کے بلوچستان پر گہرے اثرات مرتب ہونگے عین ممکن ہے کہ افغانستان کی طرح ”ایرانی رجیم“ بھی اپنا ہاتھ کھینچ لے جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو بہ امر مجبوری واپس آنا پڑے۔حکومت اس صورتحال سے بہت خوش ہے اس کا خیال ہے کہ دباؤ بڑھنے سے بلوچ جلاوطن رہنما مذاکرات میں حصہ لینے پر مجبور ہونگے لیکن اکثر جلاوطن قیادت تو یورپ میں براجمان ہے لہٰذا انہیں مذاکرات اور واپسی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
دریں اثناء مذاکراتی عمل کے سربراہ شاہ زین بگٹی نے کام شروع نہیں کیا ہے یا اسکے یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا مینڈیٹ کیا ہے جو بھی ہوگا وہ افغانستان کی صورتحال پر منحصر ہوگا جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ بلوچستان میں امن نہیں آئیگا سی پیک کے کام میں تیزی نہیں آئے گی یہ بھی معلوم نہیں کہ کوہستان کے واقعہ کے بعد چینی حکام نے پاکستانی وفد کو معافی دی ہے کہ نہیں اور جب تک چین مطمئن نہیں ہوگا سی پیک پر کام دوبارہ شروع نہیں ہوگا البتہ بلوچستان کے طول وعرض میں حکومت اپنی تیاریوں میں مصروف ہے۔جگہ جگہ انفرااسٹرکچر بنایا جارہا ہے تاکہ موجودگی یقینی ہو افرادی قوت میں تیزی کے ساتھ اضافہ کیاجارہا ہے پارلیمانی جماعتیں پرانی ڈگر پر چل رہی ہیں ان کی طرف سے زبانی کلامی بیانات کے سوال عملی کام صفر ہے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں انکے جو مطالبات ہیں وہ سردخانے میں پڑے ہیں یہ پارلیمانی جماعتیں اگر اور کچھ نہیں کرسکتیں تو بنیادی نکات پراتحاد کرسکتی ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اگر حکومت نے معاملہ بگاڑ دیا تو ایک مرتبہ پھرحالات خراب ہونگے جو اس کے لئے کسی صورت میں بھی سود مند نہیں ہے۔