جائیں تو جائیں کہاں

تحریر: انورساجدی
اسلام آباد سیاسی طور پر تو پہلے سے ڈوبا ہوا تھا لیکن ایک رات کی بارش نے اسلامی جمہوریہ کے پایہ تخت کو گردن گرد تک ڈبودیا میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جناب آصف علی زرداری کے وسیع وعریض رقبہ سے متصل سیکٹر ای الیون مکمل تباہی سے دوچار ہے یہ سیکٹر پہلے قبضہ گیری کے تحت آباد ہوا تھا لیکن بعدازاں اسے قانونی قراردیا گیا لیکن سی ڈی اے نے ابھی تک اس کا انتظام نہیں سنبھالا ہے اگر ای الیون کا سیکٹر کراچی میں ہوتا تو جناب چیف جسٹس ابھی تک ضرور سوموٹو نوٹس لے چکے ہوتے اور پورے سیکٹر کی مسماری کے احکامات جاری کرچکے ہوتے لیکن جگہ جگہ کا فرق ہے پایہ تخت کے لوگ زراء مختلف حیثیت کے حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اسلام آباد کے ساتھ جڑا ہوا شہر راولپنڈی تو ہے نشیب میں وہاں سے نالہ لئی گزرتا ہے یہ بڑا کرامات والا نالہ ہے جس کے پانی میں ڈبکی لگاکر سیاسی رہنما خاص طور پر فرزند راولپنڈی شیخ رشید ہرمرتبہ ”پوتر“ ہوجاتے ہیں۔جب انگریز یہاں آئے تھے تونالہ لئی میں صاف پانی بہتا تھا اور لوگ اسے پیتے بھی تھے لیکن جوں جوں شہر بڑا ہوتا گیا نالہ لئی بدرو میں تبدیل ہوگیا خاص طور پر 1959ء میں جنرل ایوب خان نے اسے عجلت میں وفاقی دارالحکومت قراردیا تو شہر جنگل کی مانند پھیلنے لگا کوئی پلاننگ نہیں تھی اس لئے بے ہنگم آبادیاں وجود میں آگئیں آج یہ50لاکھ کا شہر ہے بری طرح پھیلا ہوا ہے نالہ لئی پر بے شمار تجاوزات ہیں اس لئے مون سون کے سیزن میں اس کاپانی نشیبی علاقوں میں داخل ہوجاتا ہے اور تباہی پھیلاتا ہے شیخ رشید نے نالہ لئی کا ایک بڑا پراجیکٹ تیار کروارکھا ہے جس پر اربوں روپے خرچ کاتخمینہ ہے وہ گزشتہ 35برسوں میں ناکام رہے لیکن اس مرتبہ سردار عثمان بزدار نے پکا وعدہ کرلیا ہے کہ وہ اس پروجیکٹ پر ضرور کام شروع کروائیں گے۔اس طرح شیخ صاحب کی عاقبت اس منصوبہ کے ذریعے سنور جائیگی اور باقی ماندہ عمر وہ اللہ اللہ کرکے گزارلیں گے۔
کسی زمانے میں پاکستان کی حکومتیں اسلام آباد کی خوبصورتی کشادگی اور بے انتہا سبزہ پرنازاں تھے لیکن جس طرح کے اس ملک میں ہوتا ہے عدم توجہی لینڈ گریبنگ بلڈر مافیا اور دیگراداروں کی وجہ سے اسلام آباد کا حسن لٹ گیا لاتعداد بے ڈھنگی عمارتیں وجود میں آگئیں درخت کٹنے لگے حتیٰ کہ تین بڑی کچی آبادیاں بھی وجود میں آگئیں شہر کا جو بنیادی پلان یونانی کمپنی نے بنایا تھا اس حد تک تعمیرات ٹھیک تھیں لیکن جو سیکٹر پاکستانی حکام بالا نے بنائے وہ بنیادی پلان سے مطابقت نہیں رکھتے کئی بے ڈھنگے سیکٹر بنائے گئے جن کا سر پیر نہیں ہے شہر کے نواحی علاقے کسی پلاننگ کے بغیر کچی آبادیوں میں تبدیل ہوگئے ایک علاقہ بارہ کہو جو کبھی سرسبز وشاداب جنگل تھا وہاں پر ہزاروں ڈربے بن گئے ہیں۔ویک اینڈ پر بارہ کہو میں گھنٹوں تک ٹریفک جام رہتا ہے جنرل مشرف نے شکرپڑیاں کی خوبصورت پہاڑی پر ایک یادگار بناکر چھیڑچھاڑ کی بنیاد رکھی مشرف نے ہی چک شہزاد کے سبزہ زار کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کردیا رہی سہی کسر ملک ریاض نے بحریہ انکلیو اور تحریک انصاف کے علیم خان نے پارک ویو بناکر پوری کردی حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی بھی کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں اوپر سے متعدد حکومتوں نے شہر کو ہاتھ نہیں لگایا نوازشریف کے دور میں میٹروبس کا منصوبہ بناتھا لیکن شہر کی عمومی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی مشرف نے کچھ راستوں کو کشادہ ضرور کیا تھا لیکن جسٹس افتخار چوہدری نے شہر کے حالات کو ٹھیک بنانے والے کامران لاشاری کو نوکری سے ہی برخاست کیاتھا کیونکہ لاشاری نے انہیں چک شہزاد میں فارم ہاؤس الاٹ کرنے سے انکار کیا تھا پاکستان کے نامی گرامی روسا نے چک شہزاد کی زمین ناجائز طور پر الاٹ کرواکر اپنے محلات تعمیر کئے ہیں جن میں جنرل پرویز مشرف بھی شامل تھے لیکن انہیں اپنے محل میں رہنما نصیب نہیں ہوا سابق فوجی آمر کافی عرصہ سے جلا وطن ہیں اس ملک کا نظام انصاف یہ ہے کہ خورشید شاہ کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ خورشید شاہ نے ایک دن بھی جیل میں نہیں گزارا لیکن پوچھا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف نے کتنے دن جیل میں گزارے ان پر آئین توڑنے کاالزام ہے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بچیوں کے قتل عام کاالزام نواب بگٹی کے قتل کا الزام ہے جیل جانا تو دور کی بات وہ کسی عدالت میں بھی پیش نہیں ہوئے حکومتی اکابرین نوازشریف کو بھگوڑا کہہ کر ان کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن مجال ہے جو جنرل پرویز مشرف کا مبارک نام ان کی زبان پر آئے یہی دوہرا نظام انصاف اس ملک میں رائج ہے اور اس کے ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اگرایک حکومت اپنے کیپٹل سٹی کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو وہ اتنے بڑے ملک کو کیسے ٹھیک کرسکتی ہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ ریاست فیل اسٹیٹ کی طرف جارہی ہے۔
ملک میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی شے نہیں ہے باقی ملک کی توخیر خوددارالحکومت بھی جرائم کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہا آئے دن قتل ڈکیتی حتیٰ کہ سرقلم کرنے کے جرائم ہورہے ہیں دارالحکومت براہ راست وفاقی حکومت کی نگرانی میں ہوتا ہے روز شیخ رشید بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کا عمل زیرو ہے۔
1985ء سے جو نیادور شروع ہوا ہے وہ مسلسل تاریکی کی جانب بڑھ رہا ہے بظاہر ملک میں ایک حکومت قائم ہے۔تمام ادارے موجود ہیں لیکن کوئی کارکردگی نہیں ہے خود اراکین پارلیمنٹ اپنے ایوان کوربراسٹیمپ کہہ کر پکارتے ہیں حکومت چل نہیں رہی ہے اسے انگلی پکڑ کر چلاتا جارہا ہے یہ ڈکٹیشن کے بغیر ایک قدم بھی چل نہیں سکتی پورا نظام پولیو زدہ ہے اور ڈھنگ کا ویکسین بھی نہیں ہے جس طرح کی حکومت ہے اسی طرح کی لولی لنگڑی اپوزیشن بھی ہے اپوزیشن گرجنے برسنے اور بڑھکیں مارنے کے سواعمل کے معاملہ میں زیرو ہے حکومت تو حکومت اپوزیشن بھی ڈکٹیشن پرچل رہی ہے وقت بتائیگا کہ آئندہ سال جو ایکسٹینشن درکار ہوگی اپوزیشن آنکھیں بند کرکے انگوٹھا لگائے گی جیسے کہ اس نے پہلے لگایا تھا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ بعض علاقائی طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ وہ اس کی ڈکٹیشن پر چلے۔غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے ایک بار پھر نوازشریف کا معاملہ چھیڑا ہے اور دباؤ دے رہا ہے کہ نوازشریف پرہاتھ ہلکا رکھا جائے سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات بھی بعض معاملات پر اثرانداز ہورہا ہے لائن آف کنٹرول پر عارضی سیز فائر اس کی کوششوں سے ہوئی ہے کہنے کو تو افغانستان کے مسئلہ پر پاکستانی حکومت اور امریکہ کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات ہیں لیکن درپردہ تعلقات اچھے ہیں طالبان کے معاملہ پر ڈومور کاروزمطالبہ کیاجاتا ہے امریکہ، پشتونخوا اور بلوچستان میں ریفوجی کرائسس بھی پیدا کرنا چاہتا ہے اس کی خواہش ہے کہ لاکھوں پناہ گزین ایک بار پھر پاکستان کا رخ کریں وہ اس سلسلے میں لالی پاپ کی پیشکش بھی کررہا ہے اگرچہ پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا لیکن وقت آنے پر اسے مزید مہاجرین قبول کرنا پڑیں گے غالباً یہ اس کی تذدیراتی ضرورت ہے جب افغانستان میں جنگ تیز ہوگی تو مہاجرین لازمی طور پاکستان کارخ کریں گے اور انہیں روکنا ممکن نہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں