تینوں طرف سمندر والی پیاسا گوادر
تحریر:شہداد شاد
بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں سہولیات کی فقدان اور ان پر احتجاج کوئی نئی یا انھوکی بات نہیں ہے،مملکت خداداد جو اس نظریے پہ بنا تھا کہ یہاں تمام اقوام اور مذاہب کے لوگ پرسکون اور باعزت زندگی گزاریں گے اور ان کو ہرطرح کی آزادی دی جائیگی۔ دیکھا جائے تو اس ملک کے آئین میں جو اقلیتوں کو جو آزادی اور حقوق دی گئی ہے وہ شاید ہی کسی ملک میں آئین میں آپ کو ملیں مگر بات جب عملدرآمد ہونے پہ آتی ہے تو "یہ کہانی پھر سہی”۔بلوچستان میں محرومیوں اور ناانصافیوں کی داستانیں نئی نہیں ہیں، ہردورِ جمہوریت اور آمریت میں حکمرانوں نے ناانصافیوں پر بلوچستان آ کر معافیاں مانگیں مگر پھر اسلام آباد جا کر وہی ظلم پھر سے شروع کیا۔ چہرے بدلتے گئے، محرومیاں اور معافیاں وہی رہیں۔ ترقیاتی پروجیکٹس اور پیکجز کے نام پر یہ جملہ بلوچستان کے ہرباسی نے سنا ہوگا کہ فلاں منصوبہ بلوچستان کے لیے گیم چینجر ہے اور بلوچستان کی تقدیر بدل دیگا۔
اسی طرح جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور پروجیکٹ شروع ہورہا تھا تو پھر وہی نعرے ہمارے کانوں میں رینگتے گئے کہ اب گوادر سینگاپور اور دبئی بنے گا۔ اب بھلا گوادر کے غریب مید(ماہیگیر) نے سنگاپور اور دبئی کو تو خوابوں میں نہیں دیکھا ہے کہ کس طرح ہے مگر ان کے دل میں شاید یہ بات آگئی ہوگی کہ میرے بچے پیاس اور بھوک سے نہیں مریں گے بلکہ کسی انہیں صاف پانی، بجلی اور اچھے تعلیمی ادارے میسر ہونگے۔سی پیک گیم چینجر تو واقعی ہوگیا، اس نے خطے کی تقدیر بھی بدل دی، وہی گوادر جس میں لوگ باعزت طریقے سے آزادانہ گھومتے تھے، چھٹیوں کے دن کوہ باتیل اور کوہ میدی کے سائے نیچے پکنک منانے جاتے تھے، کوئی یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو؟؟۔
پینے کے لیے منرل واٹر تو نہیں ملتا تھا مگر بارانِ رحمت سے جمع ہوئے پانی اور ہمسایہ ملک ایران سے اتنا بجلی ملتا تھا کہ لوگ رات کو سکون سے سو سکتے تھے۔ ایک عدد کرکٹ گراؤنڈ جو کسی زمانے میں اپنی مدد آپ کے تحت مقامی کھلاڑیوں نے بنایا تھا اس پہ کسی سے اجازت لیے بنا کھیل سکتے تگے۔یہ ساری چیزیں سی پیک کے ترقی نے بدل دیے، اب کوہِ باتیل اور میدی پہ جانا سیکورٹی وجوہات منع کردیا گیا، سیکورٹی کے نام پہ بزرگ لوگوں اور گاڈیوں کو گھنٹوں روک کر قطاریں بناکر ان کی تذلیل کیا جارہا ہے، ہردومنٹ بعد یہ پوچھا جاتا ہے کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو کیوں جارہے ہو۔
بارش کی پانے کے بدلے پندرہ پندرہ دن کے وقفے پر گٹر کی پانی ملنا شروع ہوگیا جسے بندہ دیکھ کر پریشانی میں پڑھ جاتا ہے کہ یہ پانی ہے یا کوئی کوکا کولا جسے "پاپا جونز پیزا” کے ساتھ پیا جائے، تین تین دن مسلسل غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سمیت ایسے کئی ترقی اور تبدیلیاں گوادر کے عوام کو دی گئیں۔گوادر پورٹ میں دبئی اور سینگاپور کے روڈوں جیسی روڈ بنے، 24 گھنٹے بجلی بھی دستیاب ہے، صاف پانی کے لیے واٹر پلانٹ بھی لگے ہیں،بڑی بڑی بلڈنگیں بھی بنی ہیں مگر "غیرمتعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے”۔
اسی پورٹ سے چند قدم کے فاصلے پر موسی موڈ علاقہ ہے جہاں پچھلے ایک ہفتے سے پانی کی قلت اور بجلی بندش کے خلاف خواتین و بچے سمیت علاقائی عوام احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دے رہے ہیں مگر اس پہ مکمل خاموشی ہے کیونکہ مقامی لوگوں کے مسائل "گیم چینچر” اور ترقی کے زمرے میں نہیں آتے۔اب شاید گوادر کے لوگوں کو ایک اور "گیم چینجر” منصوبے کا انتظار کرنا پڑیگا۔۔۔۔