اقتدار کا نیاکلٹ

تحریر: انورساجدی
طالبان افغانستان میں کیا کرنا چاہتے ہیں انہوں نے ایک مزاحیہ فنکار خاشہ زوان کو بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے بتادیا ہے افغانستان کے سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی نے ٹک ٹاکر کو ایک بے ضرر اورمعصوم شخص قراردیا ہے جبکہ طالبان کاالزام ہے کہ یہ پولیس کاخفیہ اہل کار اور جاسوس تھا جسے کیفرکردارتک پہنچایا گیا اس قتل کے بعد قندھار سے ہزاروں افراد خوف کے مارے فرار ہوگئے اگرچہ بارڈر بند ہے لیکن یقینی طور پر ان میں بڑی تعداد نے بلوچستان کا رخ کیا ہوگا سرحد پار کرنا انکے لئے اس لئے آسان ہے کہ قندھار کی آدھی آبادی کے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ ہیں جو گزشتہ جہاد کے دوران انہوں نے بنوارکھے تھے یہ ان کی تیسری نسل ہے جن کے پاس پاکستانی شہریت کی دستاویز موجود ہیں جب ضیاء الحق نے افغان پناہ گزینوں کیلئے سرحدیں کھولی تھیں تو یہ ریاست کی پالیسی تھی بعد کی حکومتوں نے انہیں مستقل رہائش دیدی یہ بھی ریاست ہی کی پالیسی تھی اب جبکہ عمران خان نے نازک صورتحال کے باوجود حکم دیا ہے کہ افغان مہاجرین کوکاروبار کی اجازت دی جائے انہیں بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی جائے اور ان کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں کسی رکاٹ کے بغیر داخلے دیئے جائیں تو یہ بھی ریاست کی پالیسی ہے اب جبکہ افغانستان ایک بار پھر خوفناک خانہ جنگی کا شکار ہونیوالا ہے تو پاکستانی حکومت کیسے جان بچا کر آنے والوں کو پناہ دینے سے انکار کرسکتی ہے۔
غریب خاشہ زوان کی طرح افغانستان کے لوک فنکار خاص طور پر خواتین آرٹسٹ انتہائی خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ طالبان توہین خواتین کے گھروں کے باہر نکلنے کے مخالف چنانچہ ان پر پابندی ہوگی موسیقی تو ہے ہی حرام جبکہ آرٹ کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہوگی لہٰذا ہزاروں لوگ کابل قندھار ہرات اورقرار سے فرارہونے کا پلان بنارہے ہیں اس ضمن میں طالبان کو دوش دینے کی کیا ضرورت ان کے گروروحانی پیشوا جنرل محمد ضیاء الحق نے قوالی کے سوا ساری موسیقی پرپابندی عائد کردی تھی فلمی صنعت کو مکروہ قراردے کر اسے ممنوع قرار دیا تھا ان کا سارا زور پی ٹی وی کے ایسے ڈراموں پرتھا جس سے عام لوگوں کادھیان مارشل لاء اس کی تباہ کاریوں اور سیاسی کارکنوں کو پھانسی اورکوڑے مارے جانے کے سزاؤں سے ہٹ جائے اصل میں ضیاء الحق نے اپنے حامیوں پرمشتمل ایک مذہبی وسیاسی کلٹ بنایا تھا اس دور میں چونکہ اس کے سامنے پیپلزپارٹی بڑی رکاوٹ تھی اس لئے ضیاء الحق نے سارے بھٹو مخالفین کو اپنے کلٹ میں شامل کیا تھا اندازہ لگایئے کہ کراچی کا مشہور ہارون خاندان جسے بھٹو نے سیاسی سے آؤٹ کردیا تھا اس کے نمایاں رکن محمود ہے ہارون ضیاء الحق کے وزیرداخلہ تھے جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی ان کے پہلے دور کے وزیراطلاعات تھے موصوف نے بانئی پاکستان کی ان تمام آڈیو ریکارڈ تلف کردیئے تھے جس میں انہوں نے سیکولرنظام یاغیرفرقہ وارانہ نظام پر زور دیا تھا انہوں نے آڈیو ماسٹریو لطف اللہ خان سے کہا تھا کہ وہ محمد علی جناح کا دستور سازاسمبلی سے خطاب کاریکارڈ بھی ان کے حوالے کریں لیکن وہ کمال خوبی سے یہ بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن یہ آڈیو ریکارڈ روزنامہ ڈان کے آرکائیوز کے سوا اور کہیں موجود نہیں ہے۔
ضیاء الحق نے جی ایم سید اور پیرپگارا کی مریدی بھی اختیار کرلی تھی کیونکہ وہ بھٹو کے ذاتی دشمن تھے یہ جو طالبان کی تشکیل ہے اگرچہ امریکی ایماھ پر ہوئی لیکن اس کا بنیادی خیال ضیاء الحق نے مجاہدین بناتے وقت پیش کیاتھا۔
حضرت مولانا عبدالحق حقانی کی قدم بوسی اور انکے مدرسہ کو مجاہدین کا مرکز قرار دینے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں سے طالبان کے جتھے بناکر افغانستان بھیجاجائے اور اسے ختم کیاجائے آج بھی امریکہ کاالزام ہے کہ حقانی گروپ کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے امریکہ نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ کوئٹہ طالبان کی شوریٰ کاہیڈکوارٹر ہے نوازشریف کے دور میں جب امریکہ نے طالبان کے سربراہ کو نوشکے کے قریب نشانہ بنایا تو وہ ظاہری طور پر کچلاک کے ایک مدرسہ کے مہتمم تھے۔غالباً اسی طرح کی ڈیوٹی مویوی ہیبت اللہ نے بھی سرانجام دی ہے ملاعمر کے صاحبزادہ ملایعقوب نے سارا بچپن کوئٹہ میں گزارا ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے جو سیاسی مذہبی کلٹ بنایا تھا اس کے پیروکاروں نے دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی یکسر کوملیامیٹ کردیا تھا اس زمانے میں پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے غلام اسحاق خان اور لاہور سے تعلق رکھنے والے میاں نوازشریف اس کلٹ کے پسندیدہ رہنما تھے اگرچہ کافی وقت گزرا ہے لیکن ضیاء الحق کا کلٹ زندہ ہے البتہ نوازشریف نے بالآخر اس کلٹ سے علیحدگی اختیار کرلی یہی وجہ ہے کہ تین مرتبہ چانس دینے کے بعد ضیاء الحق کے جانشین ان سے مایوس ہوگئے اور انہوں نے میاں صاحب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا یہ جو پانامہ کیس ہے یہ تو بہانہ تھا اصل مقصد نوازشریف کو ضیاء الحق کے نظریات سے انحراف کی سزا دینا تھا اور ان کی جگہ ضیاء الحق کے سچے پیروکار عمران خان کو لانا تھا۔اگردیکھا جائے تو عمران خان نے تین سالوں میں ضیاء الحق کی جانشینی کا اچھا حق ادا کیا ہے درسی کتب سے لیکر جعلی تاریخ کی ازسر نو ترتیب ریاست مدینہ کا نعرہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی تعریف اور چین کے آمرانہ نظام کی تقلید کی خواہش میڈیا کو نیست ونابود کرکے ایک ضیائی میڈیا کی تشکیل جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو سست کہنا صدارتی نظام کی حمایت اور صوبوں کے اختیارات کی مخالفت یہ سب کچھ ضیاء الحق کی روح کو خوش کرنے کیلئے کافی ہے تحریک انصاف نے میڈیا کو ذاتی ملکیت میں لینے کی جانب سے بھی پیش رفت کی ہے لاہور کے لینڈ گریبر نیب زدہ کھرب پتی وزیرعلیم خان نے ایک بڑے ٹی وی چینل کو چار ارب روپے میں خریدلیا ہے کئی دیگر چینلوں کی خریداری کیلئے بی گفت وشنید جاری ہے جبکہ سوشل میڈیا کے سینکڑوں ادارے قائم کرکے ان کا کنٹرول سنبھال لیا گیا ہے مستقبل قریب میں بچے کچھے پرنٹ میڈیا کو دفن کرکے تحریک انصاف کی حکومت تمام قومی وسائل اپنے خرید کروہ چینلوں اور سوشل میڈیا کے اداروں کیلئے وقف کرے گی۔
آج کل وزیراعظم ریاست مدینہ کے قیام پر زور نہیں دے رہے ہیں بلکہ مسلسل چینی نظام حکومت کے رطب السلسان ہیں حتیٰ کہ شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ وہ کرپشن کے ضمن میں چینی طریقہ کار کے حامی ہیں یعنی کرپٹ عناصر کو گولی مار کر سزادی جائے حالانکہ شیخ رشید خودراولپنڈی رنگ روڈ کے اسکینڈل میں ملوث ہیں اگر آئندہ حکومت مخالفوں کی آئی تو ہوسکتا ہے کہ شیخ صاحب خود گولی کی سزا کی زد میں آجائیں۔
چین کا نظام ہمارے موجودہ حکمرانوں کو اس لئے پسند ہے کہ وہاں پر یک جماعتی آمریت قائم ہے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کو سوسال پورے ہوچکے ہیں جبکہ پیپلزلبریشن آرمی کے قیام کو90سال سے زائد ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کے سوا کسی اور جماعت کو تعلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کا جی چاہتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی یک جماعتی نظام قائم ہوجائے لیکن رکاوٹیں کافی ہیں ایک تو انہیں پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں ہے دوسرے یہ کہ سیاسی رکاوٹیں بہت ہیں اگر کسی طرح نوازشریف،زرداری اور اسفندیارولی پھانسی چڑھ جاتے تو عمران خان اپنا مقصد آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتے تھے لیکن نہ جانے کیسے زرداری 18ویں ترمیم منظور کرواتے وقت ضیاء الحق کے سارے کلٹ کو جل دینے میں کامیاب ہوگئے انہوں نے پورے نظام کو زنجیروں میں جھکڑ دیا اور اس سے جان خلاصی اس وقت ہوسکتی ہے کہ2023ء اس سے پہلے عام انتخابات کروائے جائیں وہ بھی عام نوعیت کے نہیں بلکہ حالیہ کشمیر جیسے تب ہی دوتہائی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے جس کے بعد پہلے مرحلے میں پارلیمانی نظام سے جان چھڑالی جائیگی جبکہ دوسرے مرحلے میں یک جماعتی نظام کی جانب مراجعت کی جائے گی جیسے کہ چین،روس،مصر،شام،تیونس وغیرہ میں رائج ہے یک جماعتی نظامکا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ حکمران تاحیات ہوتا ہے یا جب بھی الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے اس کا کوئی مدمقابل نہیں ہوتا جیسے کہ ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے دوران ہوا تھا تنہا اپنا خودمقابلہ کرنے والے کو80فیصد ووٹ مل جاتے ہیں اور وہ کامیابی سے سرفراز ہوجاتا ہے اگرایسا نظام آجائے تو جناب عمران خان مسند اقتدار میں ہی عمرعزیز کی ایک سوویں سالگرہ منائیں گے۔یعنی وہ مزید30سال اقتدار کے مزے لوٹیں گے اسی طرح کی خواہش ان کے پسندیدہ حکمرانوں ایوب خان،ضیاء الحق اور مشرف کی بھی تھی لیکن عمر نے وفا نہ کی ایوب خان کا دل جواب دے گیا ضیاء الحق سی ون تھرٹی طیارے کے حادثہ میں گزرگئے جبکہ مشرف کو زرداری نے ایسے بھگایا کہ ان کا شمار زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں کیونکہ یہ مملکت خداداد پاکستان ہے یہاں کسی وقت بھی تبدیلی آسکتی ہے جی تو میاں صاحب کا بھی چاہتا تھا کہ وہ چوتھی اور پانچویں بار اقتدار کے مزے لوٹیں لیکن ضیائی کلٹ کے اندرونی جھگڑوں اوربنیادی نظریات سے انحراف کی وجہ سے میاں صاحب کو نہ صرف بے عزت کرکے اقتدار سے باہر کیا گیا بلکہ منصوبہ یہی تھا کہ وہ باقی مائدہ زندگی کوٹ لکھپت یا اڈیالہ جیل میں گزاریں وہ تو بزرگوں کا احسان ہے کہ انہوں نے پلیٹس کا بہانہ بناکر انہیں ولایت بھیج دیا ویسے خان صاحب کو بلاول بھٹو کی بعض اہم قربتوں پر بھی نظررکھنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ2023ی کاسال ان کے لئے منحوس ثابت ہوجائے اور تاحیات حکمرانی کا ان کا خواب چکنا چور ہوجائے اس وقت افغانستان کے سوا عمران خان کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے اگر امریکہ کی ہدایات سے روگردانی یاانحراف کیاگیا تو سب کچھ چوپٹ ہوسکتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ طالبان کو زیادہ مار پڑے کیونکہ امریکہ تاریخی شکست کی خفت مٹانے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں