مسلم لیگ نون میں قیادت کی جنگ

مسلم لیگ نون کے بارے میں عمومی تأثر ہے کہ یہ اقتدار میں قائم اور اقتدار جاتے ہی تتر بتر ہو جاتی ہے۔نواز شریف 2016میں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے گئے لیکن ان کی پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی،نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت برقرار رہی،اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف رہے۔جولائی 2018 میں انتخابات ہوئے اور نون لیگ کے ہاتھ سے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں نکل گئیں۔ 2021 میں آزاد کشمیر کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔گویا آج مسلم لیگ نون اقتدار سے کلیتاً باہر ہے۔ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے حوالے سے اطلاعات گشت کرنے لگیں کہ انہوں نے مستعفی ہونے کی ”دھمکی“ دے دی ہے۔ اس دھمکی سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ مبصرین کی رائے غلط نہیں تھی۔جب برے دن سامنے نظر آنے لگیں اور پسِ دیوار ملاقاتوں کے ثمر بار ہونے کا یقین اٹھ جائے تو یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ خواجہ میردردکا یہ شعر پڑھاجائے:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی؛جو چاہے سو آپ کرے ہے، ہم کو عبث بدنام کیا؛
یہ بھی سچ ہے کہ نون لیگ کے قائد پر اتنابراوقت کبھی نہیں آیا جو پی پی پی کے قائد نے بہادری سے جھیلا اور تاریخ میں آج بھی زندہ ہے۔لیکن حکومت جاتے ہی ان کے انتہائی قریبی ساتھی اپنی اپنی پیپلز پارٹیوں کا اعلان کرنے لگے،ایک نے پروگریسیو پیپلز پارٹی بنا لی، دوسرے نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی،بعض شادیاں رچانے اور نیشنل فرنٹ بناکر عوام اور مقتدرہ کے سامنے نئے منصوبے اورنئے حل پیش کرنے لگے۔یوں لگتا تھا جس پر پی پی پی کے بانی قائد نے احسان کیا تھا وہ سب ”بروٹس“ بنے حاکمِ وقت کے درباریوں میں شامل ہو گئے،ایک پی پی پی کے متعددٹکڑے ہوئے مگر جیالے کارکن سرعام کوڑے کھاتے رہے،آہنی سلاخوں کے پیچھے جاتے رہے۔یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے سارے ”انکلز“ سے کرونا’ایس او پیز‘سے بھی کئی گنا زیادہ فاصلہ رکھا۔زندگی بھر ان سے علیک سلیک نہیں کی۔ دیکھا جائے تو نون لیگ کے قائد کے پاس ساری سیاسی جمع پونجی ”بینظیربھٹو مخالف“اثاثہ ہے۔ مقتدرہ نے موجودہ پاکستان میں جتنے سیاسی اتحاد بنائے،سارے پی پی پی کے خلاف بنائے۔ پی پی پی حکومت ہو تو”پی این اے“، حکومت میں نہ ہوتو”آئی جے آئی“۔ آخر کوئی تو وجہ رہی ہوگی،بلا وجہ تو اتحاد نہیں بنائے جاتے،بھاری رقوم تقسیم نہیں کی جاتیں۔ایئر مارشل(ر) اصغر خان جیسی معروف شخصیت مدعی ہو، سارے گواہان عدالت کے روبرو گواہی دے چکے ہوں تب بھی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا۔عدالتی نظام کی سست روی کے علاوہ بھی بعض عوامل کااثر انداز ہوناجھٹلایا نہیں جا سکتا۔یہ ایک پرانا،پیچیدہ اور حد درجہ بگڑا ہوا مسئلہ ہے،اب بھی سنجیدگی سے غور کر لیا جائے تو مستقبل میں غلطیاں دہرانے کاراستہ بند ہوسکتا ہے۔بہت پہلے غور کرلیا جاتا تو معاملات میں اتنا بگاڑ پیدا نہ ہوتا، رنجشیں نہ بڑھتیں، صاحبزادہ شاہ زین بگٹی سے مدد لینے کی حاجت نہ ہوتی۔یاد رہے عوام صرف روٹی،کپڑا اور مکان نہیں چاہتے،وہ اس خوف سے بھی نجات چاہتے ہیں کہ کوئی اچانک بازو مروڑ کر، زمین پر پٹخ دے گا اور گردن پر گھٹنا رکھ کر اتنادباؤ ڈالے گاکہ سانس بھی نہ لے سکے،کوئی مدد کو نہ آئے،دن دہاڑے،لب سڑک،یاکسی نامعلوم مقام پرچند سیکنڈوں میں موت واقع ہو جائے۔ورنہ برطانیہ سے آئے ہوئے انگریز بر صغیر میں مثالی ترقیاتی کام کر رہے تھے۔ان کی بچھائی ہوئی ریلوے لائن آج تک استعمال کر رہے ہیں، ان کا بنایاہوا نہری نظام ہمارے مصرف میں ہے۔اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ترقیاتی کاموں کے ساتھ عزت نفس کا تحفط بھی ہونا چاہیئے۔واضح رہے نون لیگ اگر عوام نے بنائی ہوتی، عوام کی جماعت ہوتی،عوام کے پاس اس کی قیادت ہوتی توعوام اس کی حفاظت کرتے، کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرتا۔رات کی تاریکی میں گیٹ نمبر چار پر پہنچنے کی ہدایت جاری نہ ہو سکتی۔بلانے والے،دن کو پریس کانفرنس میں یہ نہ کہتے کہ آئندہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کرو، اور قانونی معاملات کے لئے عدالت سے رجوع کیا جائے۔ سیانے کہتے ہیں،جو ہو چکا اسے کافی سمجھا جائے،اورچھوٹے سے جزیرے پر آباد ہونے کے باوجود طویل عرصہ دنیا پر راج کرنے والے انگریز کہتے ہیں:”Enough is enough.“۔ دنیا کو اچھی طرح جانتے ہیں۔یورپی یونین میں گئے مگر باہر نکلنے کا راست کھلا رکھا۔یورو کو اپنی کرنسی نہیں بنایا۔ایک مہینے کیrotational سربراہی پسند نہیں آئی، سلام کرکے اپنی پرانی شناخت اختیار کر لی۔سیاست میں جبر نہیں ہوتا، پارلیمنٹ بحث کرتی ہے، تمام اراکین رائے دینے کا استحقاق رکھتے ہیں، بات چیت سے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔امریکہ میں 1787میں دستور منظور کیا گیا، 234 برس بیت گئے، آج تک ایک بار بھی منسوخ یامعطل نہیں ہوا۔پاکستان میں دستور کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا، نہیں ہونا چاہیئے تھا۔جن مسائل کا ہمیں آج سامناہے، اسی غلطی کا بھیانک نتیجہ ہیں۔یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف ”ہیلو مائی کنٹر مین!“ کہنے سے پہلے بہت طاقت ور ہوتا ہے،مگرآرمی اسٹاف ”ہیلو مائی کنٹر مین!“ کہتے ہی جس پالیمنٹ کو معطل یا منسوخ کرتا ہے، اسی سے ڈرنے لگتا ہے۔عدلیہ کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اسے جسٹس منیرسے نظریہئ ضرورت آئین سے برتر ہے، لکھوانا پڑتا ہے،جسٹس مولوی مشتاق سے ہٹائے گئے وزیر اعظم کو پھانسی کی سزا دلوانا پڑتی ہے، جسٹس چوہدری افتخار سے 3سال تک آئین میں ترمیم کے اختیارات لینے پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ خود کو آئین سے بالا تر سمجھنے لگتی ہے،عدلیہ میں بگاڑ کرپشن کو فروغ دیتا ہے،ملزم کی غیر حاضری میں ضمانت، اورمتعلقہ محکمے کو گرفتاری سے دس دن پہلے چھاپہ مارنے کی اطلاع دینے کا پابند کرنے کی ماورائے قانون ہدایات کی نئی رویات قائم ہونے لگتی ہیں۔بحالی کے بعداسی پارلیمنٹ سے اپنے تمام ماورائے آئین اقدامات کی توثیق کرانا پڑتی ہے،نہ کراسکے تو دورانِ سماعت بیرون ملک فرار ہونے پر مجبور ہو کر بیرونِ ملک موت کا انتظار کرتا ہے۔”ہیلو مائی کنٹری مین!“کہنے والے آرمی چیف کی غیر آئینی حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی عالمی مالیاتی ادارے چلانا شروع کردیتے ہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گراؤ، ورنہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ ہیلو مائی کنٹری مین! کہنے والا کرپشن کی روک تھام کاادارہ قائم کر کے پہلے سیاست دانوں کی کھیپ کواپنی کابینہ میں شمولیت اور پھر این آر او دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان پر حملہ کرنے کی اطلاع ملنے پر اپنے دوست ہونے کا یقین دلایا جاتا ہے،جواباً Do more جیسی گالی لگاتار سننی پڑتی ہے۔ اس شرمناک منظر کی وجہ صرف اور صرف ”ہیلو مائی کنٹر مین!“ کہنا ہے،اس بارے سنجیدگی سے سوچا جائے، دیانت داری سے اس غلطی کی اصلاح کی جائے۔تلافی ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں