ن لیگ کا بحران اورحکمرانوں کے منصوبے

تحریر: انورساجدی
مسلم لیگ ن اس وقت داخلی بحران سے دوچار ہے پارٹی میں باقاعدہ دوگروپ بن چکے ہیں جن کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوچکا ہے اس کا نام ہے مفاہمتی گروپ جس کی قیادت شہبازشریف کررہے ہیں مزاحمتی گروپ کی قائد محترمہ مریم نواز ہیں جن کا موقف ہے کہ دوبدر وجنگ کے بغیر سیاست اور الیکشن میں مقتدرہ کی مداخلت بند نہیں ہوسکتی جہاں تک انکے چچا جان کا تعلق ہے تو وہ پہلے اعلان کرچکے ہیں کہ مفاہمت کی خاطر وہ پیروں میں گرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ویسے اس مرتبہ ن لیگ کو داد دینی چاہئے کہ وہ گزشتہ چار سالوں سے ڈٹی ہوئی ہے ابھی تک اسکے اراکین اسمبلی بھی نہیں ٹوٹے اتنی طویل مزاحمت پنجاب کے مزاج کا حصہ نہیں ہے اور نہ اس کی روایت ہے چنانچہ رفتہ رفتہ پارٹی میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں خود شہبازشریف نے مریم نواز کے بیانیہ سے بیزار آکر استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے انہیں خطرہ ہے کہ اس سال کے آخر تک انہیں بھی نااہل قراردیا جائیگا نہ صرف ان پر اربوں روپے کے منی لانڈرنگ کاجو الزام ہے وہ بھی خوفناک ہے کیونکہ ساری رقم انہیں واپس کرنا پڑے گی عمر کے اس حصے میں اپنی ساری جمع پونجی کو گنوانے کا خوف انہیں کھائے جارہا ہے متعدد بیگمات اور بچوں کے ساتھ وہ جس طرح کی شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں اربوں روپے کی واپسی کے بعد ایسی پرتعیش زندگی گزارنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں ان کی جوجائیداد ہے سو ہے اربوں روپے کی جائیداد صرف لندن شہر میں ہے جو ان کے صاحبزادہ سلمان شہباز سنبھال رہے ہیں اسی طرح خواجہ آصف سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں کیخلاف بھی مقدمات ہیں اگر مفاہمت اورمصلحت سے کام نہ لیا گیا تو سب کی ساری کمائی جاسکتی ہے اوپر سے سیاست سے بھی آؤٹ ہونا پڑے گا اسی لئے مفاہمتی گروپ زور لگارہا ہے کہ پارٹی کے معاملات شہبازشریف کے ہاتھ میں رہیں تاکہ وہ طاقتور عناصر سے مفاہمت کا کوئی راستہ نکال لیں ادھر مریم بی بی سمجھتی ہیں کہ ان کے والد کیخلاف ہر طرح کی کارروائی ہوچکی ان کیخلاف مزید کرنے کا کوئی کام نہیں ہے سوائے اس کے کہ انہیں واپس لایاجائے جبکہ حکومت برطانیہ کئی بار کہہ چکی ہے کہ نواشریف کو واپس نہیں بھیجا جائیگا وہ جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں۔
اس لئے مریم کاخیال ہے کہ ان کے پاس کھونے کیلئے بہت کچھ نہیں ہے چنانچہ وہ ایک جارحانہ بیانیہ لیکر چل رہی ہیں ان کے خیال میں اسی پالیسی سے عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو شکست دی جاسکتی ہے اس طرح ن لیگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اگرمیاں نوازشریف نے ذاتی طور پر مداخلت نہیں کی تو پارٹی دولخت ہوسکتی ہے اور اسے ٹوٹنے سے کوئی بھی نہیں بچاسکتا۔
پنجاب کی سیاست کا اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کے ایک جیالے ایم پی اے نذیر چوہان نے عمران خان کے چہیتے مشیر اکبر شہزاد کیخلاف اعلان جنگ کیا تھا لیکن تین دن پہلے گرفتاری اور دو دن حوالات میں رہنے کے بعد انہوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ معافی مانگ لی ہے کیونکہ ان میں سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے جہانگیر ترین نے گروپ بناکر اپنی جان بخشی کا اہتمام کیا تھا اگر گروپ کے لوگوں کا یہی حال رہا تو عمران خان کسی وقت بھی اس گروپ پر وار کرکے اس کا تیاپانچہ کرسکتے ہیں۔حالانکہ عمران خان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے وہ محض سرپرستوں کی آشیرباد اور مہیاکردہ بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر غرور اور رعونت سے کام لے رہے ہیں۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے آئندہ سال ایک خوفناک پلان پر عملدرآمد شروع ہوجائے گا بھٹو کیس کے مدعی اور مقتدرہ کے خودساختہ طرفدار احمد رضا قصوری نے ایک اہم مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کے قیام کیلئے ایک ریفرنڈم کے انعقاد کا حکم دیاجائے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکمران 1973ء کے آئین اور پارلیمانی نظام سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے جس کا مطلب فیڈریشن کی بنیادوں کو اکھاڑ پھیکنا ہے لیکن اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے اگر پانچ اگست کی ابتدائی سماعت میں جسٹس عمرحیات بندیال نے مذکورہ درخواست کوناقابل سماعت قراردیاتو ٹھیک اگر اسے باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرلیا گیا تو یہ ایک ہیجان خیز تبدیلیوں کا موجب بنے گا کیونکہ آگے چل کر درخواست گزار یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیس کی اہمیت کے پیش نظر فل کورٹ تشکیل دیاجائے بظاہر تو کسی بھی عدالت کو آئین کی منسوخی اور ملک کا نظام تبدیل کرنے کااختیار نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسا ہوچکا ہے 1950ی کی دہائی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت پارلیمنٹ کی برخاستگی کودرست قراردیاتھا ضیاؤ الحق کے مارشل لاء کو بھی سپریم کورٹ نے اسی نظریہ ضرورت کے تحت درست مانا تھا ایک بڑی مثال جنرل پرویز مشرف کی ہے جب سپریم کورٹ نے ان کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو جائز قراردیاتھا بلکہ افتخار محمدچوہدری آف ہریانہ سمیت دیگرجج صاحبان نے فوجی حکمران کو حسب ضرورت آئین میں ترمیم کااختیار بھی دیا تھا اگرمستقبل میں بھی کوئی ایسا فیصلہ آجائے اس امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا اس امر کی ضرورت18ویں ترمیم کے بعد حکام بالا خاص طور پر محسوس کررہے ہیں اس ترمیم کے بعد صوبوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرلی ہے زرداری نے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کاحصہ بڑھاکر نہ صرف ان کی مالی خود مختاری میں اضافہ کیا بلکہ مالیاتی اعتبار سے مرکز کے ہاتھ پیر باندھے رکھے اس کے علاوہ وزیراعظم اور اسمبلیوں کربرخاست کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی جس سے مرکزی حکمران پیج وتاب کھارہے ہیں اگر18ویں ترمیم نہ ہوتی تو نوازشریف کو نکالنے کیلئے پانامہ اسکینڈل نہ لانا پڑتا اور سندھ میں ابتک گورنرراج لگ چکا ہوتا۔1973ء کے آئین کو بدلنا اس لئے مشکل ہے کہ اسکے لئے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے اسی طرح صدارتی نظام لانے کیلئے بھی یہی چیز درکار ہے جو ناممکن ہے لہٰذا طاقت کے عناصر نے سوچا ہے کہ کوئی اور راستہ نکالاجائے اس مقصد کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ہے اگرعدالت نے درخواست مسترد کردی تو حکمران کو اپنے مقصد کی خاطر آئین سے ماوریٰ قدم اٹھانا پڑے گا یعنی مارشل لاء لگانا پڑے گا البتہ جب بھی نئے انتخابات کروائے مقصود ہوئے تو کہاجائیگا کہ یہ انتخابات دستور ساز اسمبلی کیلئے ہونگے اس کے ساتھ ہی موجودہ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگاکر انہیں خلاف قانونی قراردینا پڑے گا کیونکہ ان جماعتوں کی موجودگی میں 1985ء کی طرح کے غیر جماعتی انتخابات نہیں ہوسکتے اور کیا گارنٹی کہ حکومت ایک متفقہ صدارتی آئین لانے میں کامیاب ہو لیکن مخصوص حالات مجوزہ آئین کیلئے متفقہ ہونا ضروری نہیں اس کے لئے حکام بالا کوئی اور راستہ نکال لیں گے مجھے گمان ہے کہ شریف الدین پیرزادہ ثانی یعنی فروغ نسیم اپنا ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں موصوف نے گلگت بلتستان کوپاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کیلئے بھی آئین ترمیم تیار کرلی ہے اگرچہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جی بی کو پاکستان کا صوبہ بنانا غلط ہوگالیکن اس ترمیم کے حق میں ساری اپوزیشن پارٹیاں سوائے جے یو آئی کے ووٹ ڈالیں گی تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کی وقتی واہ واہ سمیٹ سکیں بادی النظر میں یہ اقدام مسئلہ کشمیرکوکمزور کردے گا اور مودی نے گزشتہ سال کشمیر کا انڈیا میں ضم کرنے کا جواقدام کیا تھا اسے تقویت بخشے گا جس کے بعد یہ راستہ کھلے گا کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کا چھٹا صوبہ بنادیاجائے۔اگر ایسا ہوا تو مسئلہ کشمیر ہمیشہ کیلئے حل ہوجائیگا اور سلامتی کونسل اسے اپنے ایجنڈے سے خارج کردے گی حقیقی بات کا علم تو حقیقی حکمرانوں کو ہے لگتا ہے کہ اس خیال کوامریکہ کی تائید حاصل ہے امریکہ پاک بھارت کشیدگی جنگ کے خطرات اور ممکنہ ایٹمی تباہ کاریوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے عین ممکن ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ادھر ہم ادھر تم کے فارمولے پرسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی خفیہ ثالثی کاکرداراداکریں کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنگ کے ذریعے ممکن نہیں پاک بھارت کشیدگی ختم کرکے امریکہ یکسوئی کے ساتھ چین کیخلاف اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنائے گا کیونکہ اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج چین ہے جوترقی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑگیا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں بڑے فیصلے نہیں کئے جاسکتے اس کی راہ میں 1973ء کا آئین اور پارلیمنٹ حائل ہیں جن سے جان چھڑانا ان کا بہت بڑا مقصد ہے اس کے بغیر صوبہ سندھ کو بھی اپنے تصرف میں لانا ناممکن ہے جبکہ مرکز کی ضروریات کیلئے سندھ کے وسائل بہت ناگزیر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں