ڈیل ناگزیر ہے؟

تحریر: انورساجدی
احتساب کے مشیر شہزاد اکبر داد کے مستحق ہیں کہ ان کی وجہ سے نیب کو لندن کی کمپنی براڈ شیٹ کو جو کہ دیوالیہ ہوچکی ہے مزید 22 ارب روپے دینے پڑرہے ہیں اگرچہ حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن اندازہ یہی ہے کہ نیب باہر کی جائیدادوں کا کھوج لگانے یا ایک آنہ واپس لانے میں ناکام رہا لیکن اس نے ابتک کھوج کے نام پر اربوں روپے خرچ کئے ہیں براڈ شیٹ اگرچہ کوئی ساکھ والی کمپنی نہیں تھی تاہم وہ نواز شریف کی دو اہم جائیدادوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے میاں صاحب کی یہ جائیدادیں بچ گئیں جن میں سے ایک بظاہر ملک ریاض نے خریدی جبکہ ایون فیلڈ میں میاں صاحب برسوں سے رہائش پذیر ہیں پاکستان کا نظام احتساب اور نظام انصاف ایسا ہے کہ طاقتور لوگ یا زیادہ پیسے والے لوگ کبھی پکڑے نہیں جاسکتے میاں شہباز شریف کی مثال سامنے ہے وہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ثابت ہونے کے باوجود ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ہیں ن لیگ کے مرکزی صدر ہیں جب زیادہ مشکلات میں آجاتے ہیں تو ایک ٹیلی فون کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وقتی طور پر جان بچ جاتی ہے وہ بڑے اداروں کے دلدارہ اور ان کے حکم کے تابع فرمان ہیں۔
پہلے بات چھپا بھی لیتے تھے لیکن اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کھل کر بات کی بلکہ ن لیگ کی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار دھڑلے کے ساتھ بڑے بھائی کو قرار دیا یہ بھی کہا کہ 2018 کے انتخابات میں ہماری حکمت عملی ناقص تھی ورنہ نگ لیگ برسراقتدار آجاتی دوسرے لفظوں میں انہوں نے اداروں کے خلاف بڑے بھائی کے جارحانہ بیانیہ کو ن لیگ کی اقتدار سے دوری کی وجہ قرار دیا انہوں نے کمال خوبی سے اداروں کو پیغام دیا کہ آئیں ماضی کو بھول جائیں اور مستقبل میں مل جل کر چلیں ماضی کو بھولنے سے ان کی مراد غالباً یہ ہے کہ جو کھربوں روپے ہم نے کمائے وہ بخش دیئے جائیں اس وقت حکومت جو کھربوں روپے کمارہی ہے اس پر ہم چپ رہتے ہیں مستقبل میں آپ جو کہیں گے ہم اس پر چلیں گے لیکن اقتدار ہمیں دیا جائے میاں شہباز کا لہجہ معذرت خواہانہ پاؤں پڑنے کی حد تک گڑگڑانے و لہجہ رونے کی حد تک عاجزانہ تھا کچھ عرصہ قبل ایک اونچی میٹنگ میں انہوں نے ہاتھ باندھ کر اور جھک کر پرنام کیا تھا تو جذباتی بلاول نے طعنہ لگایا تھا کہ یہ لوگ کبھی آر یا پار کی بات کرتے ہیں اور وقت آنے پر پاؤں پکڑتے ہیں۔
شہباز شریف اصل میں ایک سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں کیونکہ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا ایک نظریہ ہوتا ہے جس سے وہ کبھی انحراف نہیں کرتااپنے مقصد کی خاطر اسے جدوجہد بھی کرنا پڑتی ہے جبکہ قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن شہباز شریف مسلم لیگ کے ”ماٹو“ کے عین مطابق صرف اقتدار میں رہنا اور کاروبار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو جب نواز شریف کا تختہ الٹا تو کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف بہت گھبرائے ہوئے تھے وہ اٹک اور اڈیالہ جیل ضرور گئے لیکنجوانمردی اور حوصلے کے ساتھ جیل نہیں گزاری کسی طرح سعودی عرب اور لبنان کے رفیق حریری سے رابطہ کرکے معافی تلافی کی بات کی صرف ایک سال بعد ایک 12 صفحہ کے تحریری معافی نامے کے بعد ان کی صعوبتیں ختم ہونے کو آئیں اور دسمبر کو پورا شریف خاندان عازم سعودی عرب ہوگیا جنرل مشرف کے مطابق شہباز شریف نے جلد بازی میں ہر صفحہ کے پیچھے بھی دستخط کئے۔
یہ بات تو اسلام آباد ایئر پورٹ پر سب نے سنی تھی کہ جانے سے پہلے شہباز شریف نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ
جان بچی تو لاکھوں پائے
مشرف کے دور میں دونوں بھائیوں نے واپس آنے کی کوشش کی لیکن ان کے استقبال کیلئے کوئی بھی لیگی لیڈر یا متوالہ ایئر پورٹ نہیں گیا لیکن ان کی قسمت اس وقت جاگی جب بینظیر اور امریکہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے کیونکہ امریکی انتظامیہ بینظیر کی واپسی چاہتی تھی تاکہ ان سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹے چنانچہ امریکہ نے جنرل مشرف پر دباؤ ڈالا کہ وہ بینظیر کو این آر او دیں اس دوران نہ جانے کیوں بینظیرنے یہ شرط پیش کی کہ نواز شریف کو بھی واپس آنے دیا جائے۔
بینظیر واپس آئی تو 18 اکتوبر 2007 کو شاہراہ فیصل پر قیامت برپا ہوئی پیپلز پارٹی کے سینکڑوں جیالے مارے گئے دھماکہ کے بعد جس شخص کو نہایت بہادری سے بینظیر کو بم زدہ گاڑی سے نکال کر بلاول ہاؤس پہنچایا اس شخص کو بعدازاں کراچی میں پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
بینظیر تو لیاقت باغ کے جلسہ کے بعد راہی ملک عدم ہوگئیں جس پر نواز شریف نے پہلے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن پھر اچانک اپنے سارے اتحادیوں کو بھلا کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ان کے اتحادیوں میں جناب عمران خان بھی شامل تھے۔
2008 سے 2013 تک نواز شریف آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ اداروں کو شہ دیتے رہے کہ وہ زرداری کا تختہ الٹ دیں اور جب میمو اسکینڈل آیا تو نواز شریف مدعی بن گئے اور زندگی میں پہلی بار کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پیش ہوئے اس دوران زرداری نے کوشش کرکے جان بچالی پھر ایک موقع آیا کہ میاں صاحب بالکل بدل گئے اور دھمکیاں دے لگے۔
جس طرح 2018 کے انتخابات میں عمران خان پسندیدہ ہستی تھے اسی طرح 2013 کے انتخابات میں میاں صاحب اداروں کا انتخاب تھے اس الیکشن میں ریٹرننگ آفیسروں نے جھرلو پھیرا اورن لیگ کو کامیابی دلادی لیکن بہت جلد خارجہ پالیسی پر اختلافات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے عمران خان کو میدان میں اتارا گیا جنہوں نے ڈی چوک پر دھرنا دیا رفتہ رفتہ اختلافات بڑھتے گئے حتیٰ کہ تین سال بعد میاں صاحب کو عدالت کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا اور قید کی سزا بھی دی گئی معلوم نہیں کہ ڈیڑھ سال انہوں نے کس کرب میں گزارے اور بالآخر عمران خان کی حکومت کو بیوقوف بناکر لندن چلے گئے اصل میں اس کام میں کسی اور کی مرضی بھی شامل تھی اپنی معزولی کے بعد انہوں نے پرانے تجربہ کار لیڈروں کی موجودگی کے باوجود اپنے بھائی شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر بنایا کیونکہ ان کی صاحبزادی سزا کی وجہ سے عہدے کی اہل نہیں تھیں لندن جانے کے بعد میاں صاحب تمام وعدوں سے مکر گئے اور واپس آنے سے انکار کردیا اس دوران انہوں نے اپنی دوغلی پالیسی جاری رکھی اگر دھمکیاں دینا مقصود ہوتا تو صاحبزادی کو آگے کرتے اور اگر مفاہمت درکار ہوتی تو بھائی سے کام لیتے۔
ویسے شہباز شریف کا جی چاہتا ہے کہ وہ آل و نال رہیں لیکن میاں نواز شریف کی آمرانہ طبیعت اس کی اجازت نہیں دیتی حالانکہ اصولی طور پر نواز شریف کا موقف درست ہے وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات اور سیاست میں ہر طرح کی مداخلت ختم ہوجائے تاکہ آئین کی بالادستی یقینی ہو لیکن میاں صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے کہ آج تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف اوقات میں بڑی سیاسی جماعتیں استعمال ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے مداخلت کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
اپنے انٹرویو میں شہبا زشریف نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے میاں صاحب نے 1989 میں تحریک عدم پیش کی 1990 میں صدر اسحق اور اسلم بیگ کو ملاکر حکومت برطرف کروائی یہی کچھ انہوں نے 1996 میں بھی کروایا اگر وہ اداروں کو مداخلت کی دعوت نہ دیتے تو ابتک برائے نام سہی جمہوری قدرے مضبوط ہوجاتی 2017 کے بعد لگتا ہے کہ میاں صاحب بدل گئے ہیں لیکن شہباز شریف بالکل نہیں بدلے ان کا خیال ہے کہ اوپر کی آشیرباد کے بغیر اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہے۔
جبکہ بڑے بھائی عوام کی طاقت کے ذریعے آنا چاہتے ہیں زمینی حقائق کے مطابق پاکستان میں فی الوقت یہ ممکن نہیں ہے اس کیلئے طویل مدت درکار ہے نہ صرف یہ بلکہ ساری اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے لیکن شاہد خاقان جیسے سازشی بندوں کی موجودگی میں تمام اپوزیشن کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے پی ڈی ایم کے حالیہ اتحاد کو شاہد خاقان نے توڑا گرچہ بظاہر نواز شریف کے بیانیہ کے حامی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے انہیں پی ڈی ایم توڑنے کا جو ٹاسک ملا تھا وہ انہوں نے کامیابی کے ساتھ پورا کرلیا پہلے خواجہ آصف زرداری پر ڈیل کا الزام لگاتے تھے لیکن چند ماہ جیل میں رہنے کے بعد وہ معافی مانگ کر باہر آئے اگر احسن اقبال ابتک جیل میں ہوتے تو وہ بھی معافی نامہ بھر کر آجاتے یہی حال دیگر ن لیگی ٹاپ لیڈر شپ کا ہے کیونکہ ان لوگوں کی تاریخ جدوجہد اور قید و بند پر استوار نہیں ہے یہ زیادہ دیر تک مذاحمت نہیں کرسکتے اگر ن لیگیوں کو یہ نظر آجائے کہ 2023 کے انتخابات میں ان کی جماعت برسراقتدار نہیں آسکتی تو اکثر بھاگ جائیں گے یہ پارٹی مسلم لیگ کی پرانی تاریخ کے طور پر تادیر مذاحمت کی صلاحیت نہیں رکھتی اگر میاں صاحب کی اس سال کے آخر تک ڈیل پکی نہ ہوئی تو ن لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ڈیل اور مسلم لیگ لازم و ملزوم ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں