بلوچ راج مایوس لوگوں کی اُمید

ڈاکٹر عزیر بلوچ

میں نے بلوچ راج کا نام تب سُنا۔ جب دو نوجوان جو سعودی عرب سے واپس آئے اور ایک دن ڈیرہ غازی خان سے کوٹ مبارک واپس آ رہے تھے۔ عبداللہ کھوسہ اور حیدر کھوسہ کو پولیس اہلکاروں نے پکڑ کر تشدد کے بعد قتل کردیا۔ اُس وقت بلوچ راج نے ڈیرہ غازی خان، ملتان اور لاہور تک احتجاجی مہم چلائی۔ خاموش کینڈل مارچ کیے۔ اُس کے بعد حکومت نے مطالبات مانے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں پولیس اہلکار قاتل ثابت ہوئے تھے۔

بلوچ راج کا نام سُننے کے بعد اُس کا آئین و منشور دیکھا۔ جس میں بلوچ ثقافت، سرائیکی و بلوچی زبانوں اور قومی یک جہتی کا ذکر ملا۔ بلوچ راج کی آئینی جدوجہد تاحال جاری ہے۔

بلوچ ثقافت کے لیے بلوچ راج نے 2 مارچ کے پروگرامز اپنے دوستوں کے بل بوتے پر 2014 سے تونسہ شریف، راجن پور، چوٹی اور ڈیرہ غازی خان تک پھیلایا۔ اُن پروگراموں میں کتب میلا، شعر و شاعری، سبق آموز ڈرامے اور ثقافتی پروگرام ہوتے تھے۔

21 فروری کو پوری دنیا میں زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے مجھے بلوچ راج کے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف میں کئی پروگرام دیکھنے کو ملے۔ بلوچ راج نے جن کو بغیر زبانی تفریق کے منعقد کیا۔ ان پروگراموں کی تعریف مختلف طبقات کے لوگ کیے بنا نا رہ سکے۔

بلوچ راج نے رکھ کوٹ قیصرانی، راجن پور میں جعلی ڈومیسائل، تونسہ شریف کے مضافات میں منشیات کی فراوانی کے خلاف پمفلٹنگ کی اور تونسہ شریف میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا اور سب سے پہلے یونیورسٹی کا مطالبہ کیا۔

حالیہ دِنوں میں بلوچ راج نے ایک بھرپور قدم اُٹھایا۔ جس میں تونسہ شریف اور ڈیرہ غازی خان میں کینسر ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس کینسر سے 10 سالہ بچے سے لیکر 80 سال کے بزرگ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ بلوچ راج نے آواز اُٹھائی۔ جس پر مختلف حلقوں سے شنید سامنے آئی کہ گورنمنٹ نے کینسر ہسپتال پر سوچنا شروع کر دیا ہے جو کہ بلوچ راج کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس سب کے باوجود بلوچ راج کے نوجوانوں نے محدود وسائل کیساتھ چھوٹے سے وقت میں بہت بڑے کام سر انجام دئیے۔ بلوچ راج معاشرے کی ترقی کے لیے سائنسی اور جمہوری انداز میں کوشاں ہے اور نوجوانوں کے علمی بنیادوں پر سماج کے مسائل کے حل کے لیے راغب کررہی ہے۔ اُمید ہے کہ بلوچ راج مستقبل میں اپنی کاوشوں کو جاری رکھے گی۔ اپنی تحریر کا اختتام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے شعر سے کرونگا،
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اپنا تبصرہ بھیجیں