دلوں پر راج کرنے والا عظیم فنکار نور خان بزنجو

تحریر ۔۔۔۔مجید کپکپاری
کہتے ہیں کہ موسیقی انسانی روح کی غذا سمجھی اور مانی جاتی ہے اور ساٸنسی نظریہ کے مطابق اگر کوٸی انسان دس سے پندرہ منٹ موسیقی سنے تو اگلے کٸٕ گھنٹوں تک اُس کاذہن نہ صرف تسکین حاصل کرتا ہے بلکہ اُس کے اگلے کٸی گھنٹے سکون سے گزرتے ہیں۔
جس طرح موسیقی کے حوالے درجہ بالا جملوں میں ذکر کیا گیا ہے اسی طرح موسیقی اور اُس کی تعریف بغیر کسی موسیقار اور موسیقی سے دسترس حاصل کیے بغیر گلوکار کے نہیں رہ سکتا۔۔
کہتے ہیں ایک اچھا گلوکار ایک بہترین موسیقار ٗشعر اور شاعری کو سمھجے بغیر نہ شہرت حاصل کرسکتا ھے اور نہ ہی اپنے سننے والو ں کے دل میں گھر کرسکتاھے۔ اسی لیے موسیقی جاننے اور سمجھنے والوں کا کہنا اورماننا ھے کہ ایک گاٸک کو نہ صرف گاٸیکی میں مہارت حاصل ہو بلکہ اسے شعر فہم بھی ہونا چاھیے ۔
اگر بات بلوچی زبان کے مایہ ناز گاٸیک یا گلوکار مرحوم جناب نورخان بزنجو کی ہو تو وہ نہ صرف ایک منفرد گلوکار تھے بلکہ وہ ایک بہترین اور ہر دل عزیز گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر اور ادب و انسان دوست شخص بھی تھے۔
اس کو جس قدر موسیقی میں مہارت حاصل تھی اسی قدر اس کو بحرٗ وزن ٗ ردیف اور قافیہ یعنی پورے ادب میں بہترین جانکاری تھی۔
نورخان بزنجو بنیادی طور پر ایک ایجوکیٹڈ فرسن تھا نورخان بزنجو بلوچی موسیقی کے علاوہ دیگر زبان و ادب کی موسیقی کے بارے میں بھی علم و شعور رکھتا تھا۔
نورخان بزنجو کو اپنی بلوچی زبان اور بلوچی موسیقی سے بے انتہا پیار اور محبت تھی وہ اپنی بلوچی زبان سے بے پناہ عشق کرتے تھے
اللہ تعبارک تعالی نے نورخان بزنجو کو بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا اُس کا اخلاق اُس کی آواز اور اُس کا کردار ۔
وہ دن رات بلوچی زبان کی خدمت کرتے تھے۔
نور خان بزنجو واحد ہی فنکار و گلوکار تھے جس نے اپنی آواز اور اپنے فن گلوکاری کو اپنا زریعہ معاش یا روزگار نہیں بلکہ اپنا قومی فریضہ اور اپنی زبان کی خدمت سمجھا۔۔۔
اللہ تعالی نے نور خان بزنجو کو نہ صرف ایک منفرد آواز سے نوازا تھا بلکہ اس کو ایک خوبصورت اور درد مند دل بھی عطا کیا تھا۔۔۔ وہ اپنی فنی اور نجی, دونوں زندگیوں میں ایک کامیاب اور بے مثال شخص ثابت ہوا ھے۔۔
اور نور خان ہی وہ واحد بلوچی گلوکار ہے کہ جس نے کافی قلیل وقت اور مدت میں بلوچی گلوکاری کے میدان میں اپنا سکہ ہمیشہ کے لیے چمکانے میں ایک نہ ختم ہونے والی کامیابی حاصل کی۔
انسان کو لوگوں کے دلوں میں امر ہونےکے لیے سو سال تک زنده رہنے یا جینے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک ایسا کردار نبھاٸے کہ وہ سدابہار ہوجاٸے
نورخان بزنجو کے انتقال کو 18 سال گزرنے کے باوجود اب تک قوم کے دلوں میں نورخان بزنجو زنده هے ۔
نورخان بزنجو کا تعلق ضلع گوادر تحصیل پسنی ریک پشت نامی علاقہ سے تها وہ سن 1970 میں پیدا ہوئے ، اس کا خاندان پہلے سے ہی علم، شعور سے آگاه تها۔ اس کےوالد صاحب واجہ میر غلام سرور بزنجو (نور تجلنی ) جیسی عظیم کتاب کے مالک هیں۔
نورخان بزنجو نے بلوچی موسیقی میں ایک ایسا عظیم کردار ادا کیا جوکہ آج تک بلوچ قوم نورخان بزنجو کو بهول نہیں سکتی ،نورخان بزنجو نے اپنی ابتدائی تعلیم کا اپنے آبائی علاقے ریک پشت پسنی اسکول سے آغاز کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے عطاشاد ڈگری کالج تربت میں ایف اے کیلئے ایڈمیشن لیا اور اسی طرح بی اے بهی عطاشاد ڈگری کالج تربت میں کیا اور ایم اے کیلئے بلوچستان یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا اور یہاں ایم اے کی ڈگری بہترین نمبروں سے حاصل کی۔
نورخان بزنجو کو بچپن ہی سے بلوچی ساز زیمل یعنی بلوچی موسیقی سے بہت شوق تها۔
ہر وقت اعجاز صاحب کے کلب میں جاکر گانا گاتا تها اور یہ بهی درست هے کہ نورخان نے استاد اعجاز کو اپنا استاد مانا تها نورخان بزنجو مبارک قاضی کو اپنا پسندیدہ شاعر اور مرید بلیدی ، اور عابده پروین کو اپنا من پسند گلوکار مانتا تها نورخان بزنجو نے پہلی دفعہ اپنا البم (دوست امیت جتائی گران انت) ریکارڈ کروایا جوکہ ناکام رہا لیکن یہی ناکامی نورخان بزنجو کیلئے کامیابی کی پہلی سیڑهی بن گٸ بعد میں عارف بلوچ ،نصیر احمد بلوچ، نورمحمدنورل جیسے عظیم گلوکاروں نے نورخان بزنجو کو دوباره کیسٹ ریکارڈ کرنے کیلئے مجبور کیا پهر نورخان بزنجو نے( شیرکنیں یات) کیسٹ ریکارڈ کیا لیکن اس بار بھی وہ خاص طرح سے کامیاب نہ ہوسکا اس کے بعد نورخان نے (کلکشان )کیسٹ شاداب اسٹوڈیو کراچی میں ریکارڈ کروایا نورخان بزنجو کی یہ کیسٹ پورے بلوچستان میں زبان زد عام ہوا۔ نورخان بزنجو کی طوطی لسان آواز نے بلوچی زبان کو ہر طرف پھلاانےکی کوشش کی اس نے کُل دس کیسٹ ریکارڈ کیے جن میں شیرکنیں یات ،کلکشان،الہان،شاری اوتاگ، شیر مائیں شپ ،نگره سہب،کندیل ءَ روکن ،روکن چراگ ،آدینک، شامل ہے۔
نورخان بزنجو نے اپنا آخری کیسٹ آدینک 2003 میں شاداب اسٹوڈیو کراچی میں ریکارڈ کیا ،اس کے بعد 5 اگست 2003 میں کیچ کے علاقے مند میں ایک محفل موسیقی میں حصہ لیا اس پروگرام میں شاهجان داؤدی اور نورخان کے قریبی دوست عارف بلوچ بهی ساته تهے پروگرام ختم ہوتے ہی نورخان بزنجو اپنے دوستوں کے ساته تربت کی طرف روانہ ہوئے راستے میں نورخان کی طعبیت ناساز رہی جب نورخان بزنجو تربت کے علاقے کوشقلات میں پہنچ گئے تو نورخان بزنجو کی طعبیت مزید ناساز ہوئی پهر نورخان اپنے دوست عارف بلوچ کے گهر چلے گئے (تو کیا موت میں وقت )اسی دوران نورخان بزنجو نے شیہک نور ،صدف نور ، اور ماه جان نور کے سر کا سایہ چین کر اور خود اس دنیا سے ہمیشہ کیلئے چلے گئے یعنی 5 اگست 2003 کو یہ ناخوشگوار بات پورے بلوچستان میں آگ کی طرح پهیل گٸی۔ ہر طبقہ کے لوگوں کی آنکھیں غم اور دکھ کے آنسوٶں سے لبریز ہوگئیں ،
نورخان بزنجو کی میت انتہائی غم دکھ اور افسوس کے اظہار کے ساتھ اپنے آبائی علاقے پسنی ریک پشت کے سب سے بڑے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا،
الله پاک سے دعا مانگتے ہیں کہ نورخان بزنجو کو جنت نصیب کرے( آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں