رشید بیگ منصوبہ ساز شخصیت کا مالک تھا۔

تحریر: امان اللہ شادیزئی
رشید بیگ سے تعارف ہوا تو یہ 1967کا دو ر تھا وہ اس وقت طالب علم نہیں تھا تین طلبہ سرگرمیوں میں حصہ لینا تھا۔مزدوروں میں کام کرنا تھا کسی دور میں وہ لیفٹ کی سیاست میں سرگرم تھا۔انہیں قاضی احمد خان(مرحوم) نے مولانامودودی کی کتابیں دیں تو اس کا ذہن بدل گیا۔وہ لیفٹ سے رائٹ کی طرف آگیا۔نظریات کا سفر بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔میرا تعارف کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوگیا اور طلبہ سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی یہ ایک لحاظ سے آئیڈل دور تھا۔کالج میں طلبہ یونین ہوتی تھی اور باقاعدہ انتخابات ہوتے تھے اور بعض لوگ کالج سیاست میں باہر سے مداخلت کرتے تھے۔بیگ اس حوالہ سے بہت زیادہ متحرک تھے۔لمک نوید انور کالج کے صدارت کیلئے امیدوار تھے اور رشید بیگ اس کی حمایت کررہے تھے۔سید حسام الدین بھی اس گروپ میں وہ کالج نونین کے جنرل سیکرٹری بن گئے،اور ملک نوید انور صدر،یہ کالج کے زمانے کا سنہرا دور تھا۔اس دور میں ضیاء الدین ضیائی سے بھی وہ دوستانہ ہوگیا تھا وہ ماؤزے تنگ سے متاثر تھا وہ اپنے کوٹ پر ماؤزے تنگ کا بیچ لگا تا پھرتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں سے روابط بڑھ گئے۔رشید بیگ سے روزروز ملاقاتیں ہوتیں تھیں۔انہیں مولانا مودود کا لیکچر دیتاتھا۔
وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ممبر بن گئے اس کے بعد ضیاء الدین ضیائی بھی ممبر بن گئے۔یہ ایک لحاظ سے سنہرا دور تھا۔
تعمیر نو سکول میں ٹیچر لگ گئے یہ کالج کا سنہرا دور تھا۔ایوب خان کے خلاف جب ہم نے جدوجہد کا فیصلہ کیا تو اس جدوجہد کے پس پردہ مرزا رشید بیگ کا بہت بڑا حصہ تھا۔اس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کا ناظم تھا یہ اس وقت حملقہ کہلاتا تھا۔طلبہ جدوجہد کی منصوبہ بندی ایک ماہ تک کرتے رہے تب جا کہ طلبہ کی تاریخی جدوجہد کی بنیاد رکھی دی اور ایوب خان کے خلاف6دسمبر1968کو اسلامی جمعیت طلبہ نے آغاز کیا یوں یہ جدوجہد تاریخ کا حصہ بن گئی۔طلبہ دور ختم ہوگیا تو رشید بیگ اور ضیاء الدین ضیائی نے کوشش کی تو وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔رشید بیگ اور ضیاء الدین ضیائی مارشل اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال میں شامل ہوگئے ضیاء الدین ضیائی مارشل لاء کے سیکرٹری بن گئے اور زندگی کا چارغ گل ہوا تو وہ مارشل لاء کی پارٹی میں تھے۔
رشید نے صحافت کا میدان منتخب کرلیا یوں ان کی صحافی وارنہ کارکردگی کا آغاز ہوگیا۔وہ روز نامہ جسارت کے نمائندے تھے یہ ان کی بھر پور صحافت کا دو ر تھا اور دامن کو بعض صحافیانہ غلاظت سے پارک رکھا۔مرزا رشید بیگ انتہائی ذہین شخصیت کا مالک تھا بعض دفعہ بڑی مدلل گفتگو کرتا تھا۔دلائل زبردست دیتا تھا۔بلوچستان اور پاکستنا کی سیاست پر بڑی گہری نظر تھی کالج کے ابتدائی دور میں رشید بیگ سے کمونٹ سٹریچر کے حوالے سے بات ہوتی تو اس نے مجھے مشورہ دیا کہ پہلے اسلامی کتب کا مطالعہ گہرائی سے کرواس کے بعد کمیونزم کا مطالعہ کرو اس کی رائے پر عمل کیا اس کا فائدہ بہت ملا۔اور ذہن انتشار سے بچ گیا۔بیگ کیلئے جماعت کا دروازہ بند تھا تو اس نے مارشل اصغر خان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیا دروازہ کھلا تھا کچھ عرصہ کے بعد کھلے دروازے سے باہر آگیا اور صحافت کا میدان منتخب کرلیا پریس کلب پر پرانے صحافیوں کے اثرات تھے بیگ نے کلب کی سیاست کا پر اثر انداز ہونے کافیصلہکرلیا اور بڑی ذہانت سے پریس کلب کو بٹ صاحب کی گرفت سے نکال دیا اور یوں وہ کلب کے صدر بنے۔روز نامہ انتخاب کے بیورو چیف بن گئے بعد میں انہوں نے اپنا رسالہ نکال لیا اور انتخاب سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔آج پریس اور کلب اس کی یاد تازہ کرتا رہے گا۔پریس کلب میں اس کے جانشین اس مقام پر نہ تھے جس مقام پر رشید بیگ تھا۔اس کے گرد ان کے گھیراؤ تھا جن کا کوئی مقام نہ تھا۔رشید بیگ نے اپنے دامن کو داغدار نہیں ہونے دیا وہ معاشی دباؤ میں تھا مرزا رشید بیگ نواب بگٹی کے قریب بھی ہوا لیکن نواب کی پارٹی میں شامل نہیں ہوا۔سویت افغان کشمکش میں اس مجاہدین کی زبردست حمایت کی۔مضامین بعض مجاہدین کے انٹرویو بھی کئے وہ افغانستان کی کشمکش میں مجاہدین طالبان کا ہمنوا تھا وہ عمران خان کا زبردست حامی تھا لیکن پارٹی میں شامل نہیں ہوا۔اسیران کا بھی انقلاب کا زبردست ہمنوا تھا۔
رشید بیگ سے جو تعلقات دوستانہ تھے اس وقت اس دوری پیدا ہوگئی جہاں پریریس کلب کی ممبر شپ کیلئے درخواست اور میرے ہمراہ کوئی اور صحافی اور بھی تھے ان سب کی درکواست قبول نہیں کی گئی بیگ سے کہا جو تعلقات دوستانہ ہیں وہ ختم ہوجائیں گے اصول پر ہیں بلیک میل نہ ہوں لیکن وہ دباؤ میں تھے اور یوں ہم دونوں میں دوری ہوگئی مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ پریس کلب بعض سرکاری ملازمین کو رکن بنایاگیا اور وہ طویل عرصہ تک ممبر بنے رہے شاید اب ملازمین سرکاری پریس کلب کے انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہوں تو ان انتخابات کی کیا قانونی اور اخلاقی حیثیت ہوگی اس غلط رویہ کی وجہ سے ہم دوستوں نے کوئٹہ یونین آف جرنلسٹس تشکیل دیدی اس کی داستان دلچسپ ہے اس پر علیحدہ لکھوں گا۔ مرزا سعید بیگ ان کے بڑے بھائی تھے جماعت سے متاثر تھے ان سے گزارش کی تو وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے اب وہ کراچی میں ہیں رشید بیگ کے چھوٹے بھائی بھی کراچی میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے تھے وہ بھی فوت ہوگئے ہیں اب رشید بیگ اس جہاں فانی سے چلے گئے ہیں
بعض دفعہ رشید بیگ سے کہتاتھا کہ اب آپ کے پاس وقت ہے اپنی سرگزشتکئی دفعہ آمادہ بھی ہوئے لیکن عمل نہیں ہوا زمانہ طالب علمی کے دور کا ایک اچھا ہمشہن تھا ہم دوستوں نے جب کوئٹہ یونین آف جرنلسٹس تشکیل دی تو ہمارے درمیان دور ہوگئی تھی بعد میں وہ خاموش ہوگئے اور سیاست سے ایک طرف ہوگئے اور بیمار ہوگئے تو ان کی سرگرمیاں کم ہوگئیں بلکہ ختم ہوگئیں ان سے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی تھی تو بعض دوستوں نے کہا ماضی کی بعض تلخ واقعات کو صرف نظر کریں تو اس طرح رشید بیگ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ان کے لئے علیحدہ کمرہ پریس کلب میں رکھاگیا تھا وہ روزانہ کمرہ آتے تھے اور چائے پالی پر ان سے گپ شپ ہوتی تھی ان سے کہتا تھا سگریٹ چھوڑدیں لیکن سگریٹ سے تعلقات بحال رکھے آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی ان کا آنا پریس کلب میں بالکل بند ہوگئی یوں ان سے رابطہ بالکل ختم ہوگیا اور ان کی طبیعت بگڑگئی تھی وہ بات چیت میں نہیں کرپا رہے تھے ارداہ تھا کہ ان کے گھر جاؤں گا اور ملاقات کروں گا لیکن نہ جا سکا اور کل صبح امین اللہ مشوانی کا میسج آیا کہ رشید بیگ فوت ہوگئے ہیں یقینا ایک اچھے وقتوں کے ساتھی کا بچھڑنا صدمے کا باعث بنتا ہے ان سے دوستانہ تعلقات کی ایک دنیا آباد ہے بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ان کا بہت بڑا حصہ ہے جو انہوں نے خاموشی سے ادا کیا طلبہ سویت میں ان کے کردار کو بعم فراموش نہیں کراسکیں گے آخر میں ان کی مالی حالات درست نہ تھی لیکن انہوں نے اپنے دامن کو صاف رکھا اور دست دراز نہیں کیا۔ایک خود دار شخصیت کے مالک تھے۔ایوب خان کے دور میں جب بھی جلسہ ہوتا یا احتجاج ہوتا تو رشید بیگ،عبدالماجد۔۔(مرحوم)اورضیاء الدین ضیائی سے ہمنورہ ضرور کرتاتھا۔اور ان سے رہنمائی حاصل کر تا تھا اس حوالہ سے چوہدری محمد انور اور خلیفہ عبدالرحیم سے بھی تقریر سے پہلے مشاورت کرتا تھا یوں یہ سفر جاری رہتا۔اب بہت سے مخلص دوستوں سے محروم ہوگیا ہوں ان سب نے تاریخ کے لمحات میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے ہم ان کو فراموش نہ کرسکیں گے لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ان کا کوئی نعم البد ل نہیں‘دعا کرتا ہوں کہ مہربان رب اپنے اس بندے کی بشری غلطیوں سے در گزر کر کے اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے۔سوگوار خاندان سے تعزیت کرتا ہوں۔