کبھی خوشی کبھی غم

تحریر: انورساجدی
یہ جوریاست ہے یہ پہلے کبھی ایسی صورتحال سے دو چار نہ تھی کوئی چیز بھی اپنے مقام اور اپنے مدار پر نہیں ہے سیاست ہے لیکن گماشتہ ہے پارلیمنٹ ہے لیکن خود پارلیمنٹرین کہتے ہیں کہ یہ ربڑ اسٹیمپ ہے آئین ہے لیکن اسے کوئی مانتا نہیں ہے حکومت ہے لیکن اختیار کسی اور کے پاس ہے بعض سیاسی اکابرین کہتے ہیں کہ جمہوریت برائے نام ہے دراصل غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے میڈیا بہت پھیل چکا لیکن بدترین سنسر شپ کی زد میں ہے خاص حلقوں میں معتوب صحافی حامد میر نے بی بی سی کے شہرہ آفاق پروگرام ہارڈٹاک میں کہا کہ سنسر شپ کا سب سے بڑا ثبوت وہ ہیں انہوں نے پہلی بار کہا کہ وزیراعظم بے بس ہیں انہیں کوئی اختیار نہیں ہے اسد طور کے معاملہ کے بعد حامیر میر نے ایک بڑے پلیٹ فارم پر وہ غلطی نہیں دہرائی لیکن سب کچھ کہہ گئے۔
یہ سب کچھ دیکھنے اور ہونے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ ریاست اس کے ادارے اور سماج شدید زوال کا شکار ہوگئے ہیں ایک سفر ہے جو ناکامی کی طرف جارہا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ 25 کروڑ آبادی والے ملک نے ٹوکیو اولمپکس میں صرف 6 کھلاڑی بھیجے جو کوئی ایک تمغہ بھی حاصل نہیں کرسکے یہ پسماندگی اور پستی کی آخری علامت ہے۔
صحافت تو رخصت ہوچکی اور کس کس چیز کا رونا رویا جائے۔
افغانستان کا لاوا پھٹنے والا ہے لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی میں اتنی بے چینی نہیں دیکھی جارہی ہے جو ہونی چاہئے طالبان آگے بڑھ رہے ہیں شہروں اور صوبائی صدر مقامات پر قبضہ کرتے جارہے ہیں انہوں نے پہلے ہی ہلے میں جوزجان میں واقع ازبک وارلارڈ رشید دوستم کے محل پر قبضہ کرلیا دیکھا جاسکتا ہے کہ طالبان کے جھتے محل کو آرام سے استعمال کررہے ہیں دوستم اور اس کی ملیشیا نے کوئی مزاحمت نہیں کی حالانکہ یہی دوستم تھا جس نے روسی افواج کے انخلا کے بعد کابل کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور اسی کم بخت کی وجہ سے ڈاکٹر نجیب پھنس گئے اور بالآخر طالبان کے ہاتھوں قتل ہوگئے شبر گان کے محل میں دوستم کی جو فیلڈ مارشل والی وردی تھی وہ ایک نوجوان نے پہن کر اس کا تمسخر اڑایا منگل کی صبح ایک ٹی وی چینل نے دکھایا کہ طالبان کس طرح تاریخی عمارتوں پر قبضہ کرکے ان کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں انہی طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ہزارہ جات کے مقام بامیان میں ایستارہ ہزاروں سال قدیم بدھا کے دیوہیکل مجسمے کو دھماکوں سے اڑایا تھا جس کے بعد ملا عمر کو بت شکن کا لقب ملا تھا لیکن یہ کس نے کہا ہے کہ اپنے ملک کے تاریخی ورثہ اور آثار قدیمہ کو تباہ کردو مٹا دو حالانکہ طالبان کے ترجمان نے کچھ عرصہ قبل کہا کہ ہم بدل گئے ہیں ہم وہ پرانے والے طالبان نہیں ہیں اگر بدلے ہونگے تو ان کے لیڈر بدلے ہونگے ان کے کارکن تو وہی ہیں ان کی تربیت وہی ہے ان کا مائنڈسیٹ وہی ہے وہ اپنی پرانی روش پر چل رہے ہیں دنیا دیکھے گی کہ اگر وہ کابل میں داخل ہوگئے تو کیا مناظر ہونگے سروں کے کتنے مینار تعمیر ہونگے قصر گل خانہ کا کیا ہوگا کابل یونیورسٹی کا کیا ہوگا کابل میوزیم جسے پہلے دور میں لوٹ لیا گیا تھا اب یہ جو دوبارہ آباد ہوا ہے تو اس کی نوادارت لوٹ مار سے کتنا بچ سکیں گے کابل کی خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہوگا وسط ایشیاء کے سب سے بڑے اور دل ربا شہر کا کیا حشر ہوگا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران افغانستان کی ایک بار پھر تاراجی کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں ان کا کہنا ہے کہ طالبان آزاد ہیں اور وہ ہمارے پابند نہیں ہیں عجیب بات ہے کہ جب قطر میں مذاکرات کی ضرورت پڑی تو طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان لایا لیکن جب جنگ روکنے کی بات ہے تو کہا جارہا ہے کہ وہ ہمارے اثر سے باہر ہیں۔
ہم کچھ بھی کہیں دنیا ہماری بات ماننے کو تیار نہیں ہے گزشتہ روز ہی امریکی ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ جو محفوظ مقامات ہیں ہمیں اس پر تشویش ہے کیونکہ دہشت گرد یہ مقامات دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں حالانکہ کئی بار وضاحت کی جاچکی ہے کہ پاکستان یا اس کے بارڈر پر محفوظ مقامات نہیں ہیں لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی پرانی بات دہرائے جارہے ہیں اگرچہ ڈاکٹر اشرف غنی کی فورسز طالبان کا مقابلہ کررہے ہیں لیکن تابہ کئے امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان فورسز کے پاس جو اسلحہ اور وسائل ہیں وہ طالبان کے پاس نہیں امریکہ بھول گیا ہے کہ خوداسے دنیا کے جدید ترین اسلحہ اور بے پناہ وسائل کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا بے چارہ اشرف غنی اور اس کی فورسز کے پاس وسائل کی کیا وقعت ہے امریکہ نہیں جانتا کہ طالبان کے پاس ایک مضبوط نظریہ ہے ان کے اندر فاتح کا فخر بھی ہے جبکہ اسلام کے نام پر عوام بھی ساتھ ہیں حالانکہ طالبان نے پہلے دور میں صرف تعزیری اسلامی قوانین نافذ کئے تھے دیگر تمام پہلو بھول گئے تھے پاکستان اس لئے مشکل میں ہے کہ ایک طرف امریکہ اصرار کررہا ہے کہ امن کی ضمانت دو طالبان کو روکنے کے ضامن بن جاؤ جبکہ دوسری طرف طالبان دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر امریکہ کو زمینی اور فضائی اڈے دیئے تو پاکستان کے خلاف ہمارا اعلان جنگ ہوگا خدشہ یہ ہے کہ طالبان جلد بازی کا مظاہرہ کرکے جوں جوں آگے بڑھیں گے امریکہ اندھا دھند بمباری میں اضافہ کرے گا جس سے ہزاروں لوگ بے گناہ مارے جائیں گے جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک پھر عظیم انسانی المیہ جنم لے گا اگر خانہ جنگی تیز ہوگئی تو لاکھوں پناہ گزین ایک بار پھر پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں اور جینواکنونشن کے تحت ان لوگوں کو پناہ دینا پڑے گی کیا پتہ کہ ہمارے حکمران سوچ رہے ہوں کہ اس کے بدلے میں ہمیں اربوں ڈالر ملیں گے جیسا کہ کرونا کی وباء کے دوران ملے ہیں جس کا آڈٹ ہونا باقی ہے جو کہ کبھی نہیں ہوگا لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2005 کے زلزلہ کے بعد دنیانے 5 ارب ڈالر کی امداد دی تھی لیکن یہ امداد روپوں میں تو استعمال ہوئی تھی لیکن ڈالر غائب ہوگئے تھے یہی وجہ ہے کہ زرداری کے دور میں جب سندھ میں قیامت خیز سیلاب آیا تھا تو دنیا نے ایک آنہ کی مدد بھی نہیں کی تھی ہماری دوغلی پالیسی ایک نہ ایک دن رنگ ضرور لائے گی کیونکہ مسئلہ افغانستان کے فریق موجودہ دورکی سپر طاقتیں امریکہ چین اور روس ہیں امریکہ ناراض ہے یہاں تک کہ سلامتی کونسل میں مسئلہ افغانستان پر پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب افغانستان کا آتش فشاں پھٹ گیا تو اس کے لاوے سے متاثر پاکستان ہوگا لیکن کسی کو اس کی فکر نہیں ہے۔
موجودہ حالات میں عام آدمی یا صحافیوں کو چاہئے کہ وہ پرسکون رہنے کی کوشش کریں ایسی تحریروں اور پوسٹ سے پرہیز کریں کہ کوئی نہیں اٹھا کر لے جائے فرصت کے لمحات میں موسیقی سن کر اگرسگار کافی اور دیگر مشروبات ہوں تو ان سے لطف اندوز ہوا جائے اگر ہوانا کے قیمتی سگار میسر نہ ہو تو کسی مالدار سیاست دان یا پارلیمنٹرین سے انعام یا ادھار کے طور پر لیا جائے جان بچانے کی اس سے اچھی ترکیب اور کوئی نہیں ہے۔
ایک مرتبہ زندہ دل بذلہ سنج اور حس مزاح سے کام لینے والے سیاسی و قبائلی رہنما نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ ان کا جو طرز زندگی ہے وہ غم غلط کرنے کیلئے ہے ان کی باتوں اور ان میں پوشیدہ اسرار و رموز کو لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اپنی بیماریوں اور دکھوں کو بھلا دینے کی کوشش کرتے ہیں اچھی چیزیں پڑھتے اور پوسٹ کرتے ہیں تاکہ دکھ درد زیادہ اثر نہ کریں وہ ہر طرح کی موسیقی سے دل بہلاتے ہیں تاکہ فرصت کے کچھ لمحات پرسکون طریقہ سے گزاریں۔
یہی فارمولہ سب کو اپنانا چاہئے اس ریاست میں کسی بھی معاملہ میں زیادہ سنجیدہ ہونے کا مطلب ہے رنجیدہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں