تاریخ سے سبق مت سیکھو

تحریر انور ساجدی

اس وقت ہمارا ریجن سازشوں دہشت گردی اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا شکار ہے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے طالبان 42میں سے16صوبوں پر قبضہ کرچکے ہیں امریکہ انخلا پر پچھتارہا ہے ایک ماہ قبل امریکہ نے پیشنگوئی کی تھی کہ طالبان90دنوں میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں لیکن گزشتہ روز اس مدت کو کم کرکے ایک ماہ کیا گیا یہی وجہ ہے امریکہ نے اپنے سفارت کاروں اورباشندوں کو نکالنے کیلئے3ہزار فوجی کابل بھیجنے کا اعلان کیا ہے جبکہ انگلینڈ نے6سو فوجی بھیجنے کا عندیہ دیا ہے اسی اثناء امریکہ نے طالبان پر زور دیا ہے کہ کابل پر قبضہ کے وقت امریکی سارت خانے پر حملہ سے گریز کیاجائے ان اعلانات نے اشرف غنی حکومت کو بہت کمزور کیا ہے جس کی وجہ سے افغان فوج ہر ہگہ پسپا ہورہی ہے اور لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈال رہی ہے ادھر ترکی کے فوجی دستے بدستور کابل ایئرپورٹ پر موجود ہیں اور صدر طیب اردگان نے طالبان سے اس مسئلہ پر بات چیت کی اپیل کی ہے ترکی کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کیوں کرنا چاہتا ہے اسکے وہاں کیا مقاصد ہیں ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے لیکن سقوط کابل طے ہے طالبان قطرمعاہدے کوتوڑ کر تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہے ہیں۔اس عجلت کے باعث افغانستان کو خوراک ایندھن اور ادویات کی سپلائی معطل ہوگئی ہے ملک کے بیشتر علاقوں میں بھوک اور فاقے شروع ہوگئے ہیں خدشہ ہے کہ ہزاروں بچے غذائی قلت اور ادویات کی قلت سے ہلاک ہوجائیں گے اگرچہ افغانستان کے قریبی ہمسایہ پاکستان نے اس صورتحال میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے لیکن دنیا اس اعلان پر یقین کرنے کو تیار نہیں وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی میڈیا کو اپنے انٹریو میں کہا ہے کہ امریکہ جو ”گند“ افغانستان میں چھوڑ کر گیا ہے اس کی خواہش کہ یہ گند پاکستان صاف کردے امریکہ کو اس طرح کی سخت بات آج تک کسی پاکستانی حکمران نے نہیں سنائی ہے حالانکہ سویت یونین کیخلاف نام نہاد جہاد کے خاتمہ کے بعد امریکہ اسی طرح کا سارا گند پاکستان پر ڈال کرگیا تھا اس وقت کے حکمرانوں کی اپنی کمزوریاں تھیں کیونکہ کتابوں میں درج ہے کہ امریکہ نے جو 33ارب ڈالر پاکستان کو دیئے تھے وہ ملک پر خرچ کرنے یا اس کے قرضے اتارنے کی بجائے چند بااثر افراد ہڑپ کرگئے تھے اور یہ دو درجن افراد راتوں رات کھرب پتی بن گئے تھے کچھ چھوٹے لوگوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے ان لوگوں کی فہرست بھی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے30سال بعد شائع کی تھی۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف جو پہلے طالبان کے طرفدار تھے ایک امریکی دھمکی کے بعد یکایک پلٹی کھاگئے اور نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکی سہولت کار بن گئے تھے اس کی وجہ بھی ڈالرز تھے اگرچہ اس کا حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن تیس سال پورے ہونے پر امریکہ خود اس راز سے پردہ اٹھائیگا اوربتادے گا کہ ان ڈالروں سے کس کس سے اپنے ہاتھ رنگے تھے اس وقت بھی بظاہر پاکستانی حکمران غیر جانبدار رہنے اور افغان جنگ میں کسی ایک فریق کاساتھ دینے سے انکار کررہے ہیں لیکن گماں یہی ہے کہ جب اقوام متحدہ کہے گی کہ پناہ گزینوں کو قبول کیاجائے تو ہمارے حکمران ڈالروں کے لالچ میں دوبارہ افغان پناہ گزینوں کو قبول کرلیں گے اقوام متحدہ اور مغربی دنیا کا اصول ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی مدد کیلئے اربوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں کون کم بخت ہوگا جو اس نعمت غیر متبرکہ سے انکار کرے گا جس طرح کرونا ایک رحمت بن کر پاکستانی حکمرانوں کیلئے آیا جس کی وجہ سے ڈوبتی معیشت کو سہارا ملا اسی طرح افغان جنگ اور خانہ جنگی بھی اربوں ڈالر لائے گا نہ صرف یہ بلکہ افغانستان کے جو ارب پتی تاجر امریکہ اور یورپ جانے سے رہ گئے ہیں ایک مرتبہ وہ بھی اپنے ڈالر بوریاں بھرکر پاکستان منتقل کریں گے یہ جو عمران خان نے دو روز قبل کہا ہے کہ پاکستان اوپر جانا شروع ہوگیا ہے وہ افغان ڈالروں کے آنے کی وجہ سے پر امیدی کی بات کررہے ہیں لیکن اس کے جو اثرات پاکستانی سماج معیشت حتیٰ کہ سیاست پر مرتب ہونگے وہ چند ڈالروں کی نسبت بہت زیادہ تباہ کن ثابت ہونگے افغان جہاد کے اثرات ابھی تک قائم ہیں پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن یہ پاکستانی حکمرانوں کا بنیادی وصف ہے کہ وہ سابقہ غلطیوں اور تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ہیں روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے گزشتہ اوراق دیکھ رہا تھا جس میں جولائی کے مہینے میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن پر غداری کے الزام میں ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی کہانی درج ہے جبکہ11اگست کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل یوتھانٹ کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے طریق انصاف پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا دو دن بعد 13اگست کو امریکہ نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شیخ مجیب کے مقدمہ پر تنقید کی گئی تھی اگست کا ہی مہینہ تھا کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور سرحدی جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا لیکن اس وقت کے حکمران یحییٰ خان پر اس عالمی رائے کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا انہوں نے کسی ایک کی نہ سنی تھی اور غداری کا مقدمہ چلتا رہا۔
ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی1971ء کو ایک بیان جاری کیا تھا کہ اقتدار کی منتقلی کیلئے عوامی لیگ سے بات کی جائے جب بھٹو کو یحییٰ خان سے ڈانٹ پڑی ہوگی تو اگلے روز ہی انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے وضاحت کی کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ عوامی لیگ کے ان رہنماؤں سے بات چیت کی جائے جو محب وطن ہیں۔
یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو غداری کے الزام گرفتار کیا تھا اور عوامی لیگ پر پابندی لگاکر اس کی جیتی ہوئی 160نشستیں مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی تھیں جن میں پیپلزپارٹی اور یحییٰ خان کی پارٹنر جماعت اسلامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب وعوامل تو حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں لیکن مغربی پاکستان کی اقلیتی اشرافیہ نے جو سیاسی حماقتیں کیں وہ الگ واقعات ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ ایک اقلیت نے اکثریت کو غدار قراردیا اور اکثریت کو مفتوحہ سمجھ کر اسے غلامی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں اکثریت نے بغاوت کردی اور اقلیت سے جان چھڑالی بدقسمتی سے سقوط مشرقی پاکستان کے کسی کردار کا احتساب نہیں کیا گیا جنرل یحییٰ خان طبعی موت مرے اور انہیں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا 16دسمبر1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے والے مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی بھی طبعی موت مرے کسی نے ایک دن بھی بلاکر ان سے کچھ نہیں پوچھا جو کمانڈر فرار ہوکر کولمبو کے راستے واپس آئے تھے انہیں بعد میں بڑے بڑے عہدے دیئے گئے۔
یہ تاریخ کاجبر ہے کہ ہمارے عہد حاضر کے حکمران بھی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں اور اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہے ہیں یحییٰ خان سے لیکراب تک ایک رجعتی ٹولہ مسلط ہے جو خوابوں فکشن نسیم حجازی کے ناولوں اور علامہ اقبال کی بحر ظلمات میں گھوڑے سے دوڑانے کی شاعری پر یقین رکھتا ہے دنیا بدل چکی ہے لیکن یہ ٹولہ نہیں بدلا اب جبکہ افغانستان شدید جنگ کا شکار ہے تو اس ٹولہ کے دانشور جن کی قیادت آج کل اوریا مقبول جان فرمارہے ہیں پھولے نہیں سمارہے کہ طالبان جلد کابل پرقبضہ کرلیں گے یہ ٹولہ امت کے خیالی نظریہ پر یقین رکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ افغان طالبان کی کامیابی بھی امت کی کامیابی ہے اگرایسا ہے تو پاکستانی طالبان کی مخالفت کیوں؟ بسم اللہ انہیں بھی بلاکر اقتدار میں شرکت کا موقع دیجئے کیونکہ وہ بھی امت کا حصہ ہیں یہ ٹولہ اس وجہ سے بھی آج کل خوش ہے کہ موجودہ حکومت ان کے نظریہ پر چل رہی ہے اور وہ بہت جلد میڈیا ڈیولپمنٹ کے نام سے ایک قانون لارہی ہے بلکہ لاچکی ہے جس کے پہلے مرحلے میں سوشل میڈیا میں سیاسی مخالفین یا آزادی اظہار کے حامیوں پرپابندی عائد کردی جائیگی صرف اوریامقبول،زید حامد اور اس قماش کے لوگ ہی سوشل میڈیا پر دندناتے بھریں گے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے رہیں گے اگرچہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام اسٹیک ہولڈر مجوزہ قانون کو مسترد کرچکے ہیں لیکن فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ تمام پریس کلب اس کے حامی ہیں غالباً یہ پریس کلب چھوٹے قصبوں اور دیہات میں واقع ہیں اور حکومت نے کوشش کرکے انکو اپنا ہموار بنالیا ہوگا یہ قانون بہت خوفناک ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ آزادی اظہار پر اس طرح کا کنٹرول حاصل کیاجائے جو چین،روس،شمالی کوریا،ایران اور ترکی نے کیا ہے نئے قوانین کے تحت مخالفین کو قیدخانوں میں ڈال دیا جائیگا اور ان کے میڈیا ہاؤسز کو بھاری جرمانے لگاکر ان کا قصہ پاک کردیاجائیگا۔
حکومتی ارادوں کااظہار دوہری شہریت کے حامل قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے حال ہی میں کیا ہے انہوں نے ایک طویل رپورٹ جاری کی ہے جس میں مخالف صحافیوں کو ملک دشمن ظاہر کیا گیا ہے یہ ملک دشمنی وہ ہتھیار ہے جو پاکستان میں کثرت سے پہلے بھی استعمال ہوا ہے اس وقت بھی ہورہا ہے جبکہ مستقبل میں اس کا استعمال کچھ زیادہ ہی ہوگا حکومت کوکوئی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے دنیا کیا کہے گی اس نے جو ٹھان لی ہے وہ کرکے رہے گی لیکن یہ سوال تو اٹھایاجائیگا کہ حکمران کون ہوتے ہیں یہ طے کرنے والا کہ کون غدار اور کون محب وطن ہے؟عالم اسلام میں جہاں بھی آمریت کا شکنجہ مضبوط ہے وہاں پر سیاسی مخالفین اور آزادی اظہار کے حامیوں کو غدار قراردے کر اس کیخلاف کارروائی کاچلن عام ہے۔
لیکن پاکستان میں یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نیم ساختہ جمہوری نظام پارلیمنٹ یا آئین موجود ہے۔اگر حکومت کو یہ ملک تاریک دور میں لے جاتا ہے ایوب خان یا یحییٰ خان کا دور واپس لانا ہے تو اسے موجودہ آئین سے چان چھڑانی پڑے گی اور ایک آمرانہ شخصی اور صدارتی نظام لانا پڑے گا جس کے تحت وقت کا پہیہ لگاکر پچھلی صدی کی طرف لے جایاجاسکتا ہے لیکن ابلاغ کے موجودہ تیز ترین دور میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
اگرحکام نے پاکستانی ذرائع ابلاغ پرپابندی لگادی تو لوگ آزاد ممالک جاکر اپناکام جاری رکھیں گے اور حکومتی عزائم کو بے نقاب کریں گے موجودہ تیز رفتار ابلاغ جس کی رسائی عنقریب سورج کی رفتار جتنی ہونے والی ہے رجعتی حکمران اس کو کیسے روک سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں