انقلاب

تحریر: انورساجدی
افغانستان کے حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ساری دنیا حیران ہے ان سطور کی اشاعت تک کابل کا فیصلہ ہوچکا ہوگا آخری لمحات میں امریکہ نے کوشش کی کہ انتقال اقتدار پر امن طریقے سے ہوجائے اس مقصد کیلئے طالبان لیڈر ملا برادر کواچانک کابل طلب کیا گیا تاکہ وہ عبوری حکومت کے سربراہ کونامزد کردیں آخری لمحات کے مذاکرات میں یہ طے ہونا ہے کہ اشرف غنی کس طرح اقتدار سے دستبردار ہوجائیں اور انہیں باہر جانے کیلئے محفوظ راستہ دیاجائے اگردیکھاجائے تومعاملات کافی پراسرار ہیں ایسا لگتا ہے کہ طالبان اورامریکہ ملے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ طالبان کابل کا کنٹرول سنبھالنے والے ہیں ایک بار پھر بلکہ20سال بعد افغانستان کاقبضہ حاصل کررہے ہیں ماضی کی نسبت ایک مختلف افغانستان انکو مل رہا ہے امریکہ نیٹو اور دیگر اتحادیوں نے ملک کا جدید انفرااسٹرکچر تیارکردیا ہے اور یہ سب کچھ طالبان کو مال غنیمت کے طور پر حاصل ہورہا ہے بادی انظر میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی شکست21صدی کا ایک بڑا واقعہ ہے جسے انقلاب کا نام بھی دیاجاسکتا ہے۔
مسئلہ افغانستان کے کنٹرول کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ طالبان کس طرح کی پالیسی بنائیں گے پڑوسیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ان کی معیشت کیا ہوگی اور سیاست کیاہوگی۔
فتح کابل کے ساتھ اسلام آباد کے گوشہ اقتدار میں جشن کا سماں ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران صحافی اور دانشور کابل کی فتح کو اپنی فتح قراردے رہے ہیں اس خوشی کی کیا وجہ ہے یہ ہمارے حکمران بھی سمجھنے سے قاصر ہیں اور انہیں اندازہ نہیں کہ طالبان کا انقلاب محض ایک آغاز ہے اور بالآخر اس کا خسارہ اگر کسی ملک کو ہوگا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان نہ صرف افغانستان کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے بلکہ سرحد کے دونوں طرف پشتون رہتے ہیں جو ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں اگرپاکستان کے پشتون بوجوہ تکلیف میں آگئے تو سرحد پار کے پشتون ضرور ان کی مدد کریں گے ایک بین الاقوامی سرحد ہونے کے باوجود پشتونوں کوایک دوسرے سے جدانہیں کیاجاسکتا جہاں تک پاکستانی حکمرانوں کی خوشی کاتعلق ہے تو اس کی وجہ وقتی کامیابی ہے مثال کے طور پر انڈیا کا افغانستان میں رول ختم ہونا امریکہ کا اس خطے سے رخصت ہوجانا مغربی سرحدوں کا محفوظ ہوجانا جس کے بعد پاکستان کی ساری توجہ مشرقی سرحدوں پر ہوگی لیکن طالبان کے مستحکم ہونے کے بعد نئے مسائل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے اگرافغانستان میں شرعی نظام نافذ ہوگا تو پاکستان پر بے پناہ دباؤ آئیگا سرحد کی اس طرف تحریک طالبان پاکستان کو روحانی سیاسی اور عسکری تقویت ملے گی جس کے بعد وہ پاکستان کو بھی افغانستان جیسی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے۔
کئی سال پہلے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ طالبان مرگلہ پہاڑ پربیٹھ کر اسلام آباد کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ جب چاہیں اسلام آباد میں داخل ہوسکتے ہیں
لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان پر جوقہر ڈھایا اس کی وجہ سے طالبان کا عروج اور اقتدار ختم ہوگیا جس کے نتیجے میں اسلام آباد کو لاحق خطرات کم ہوگئے جو پاکستانی حکمران اور میڈیا کے لوگ طالبان کے آنے سے شاداں اور فرحان ہیں وہ بھول گئے ہیں کہ طالبان نے کس طرح سوات پر قبضہ کرکے وہاں پر اپنی عملداری قائم کی تھی وہ صوفی محمد کی تحریک اور فاٹا پر طالبان کے قبضہ کو بھی فراموش کرچکے ہیں اگرچہ ریاست پاکستان کی صورتحال مختلف ہے لیکن طالبان کے پاس جو پاورفل نظریہ ہے اس کے حامی اس ریاست میں بھی بہت ہیں وہ ضرور کوشش کریں گے کہ پاکستان برائے نام اسلامی جمہوریہ کی بجائے امارت اسلامی بن جائے اس طرح پاکستان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اسی طرح افغانستان کے شمالی ہمسائیوں تاجکستان اور ترکمانستان میں بھی اس کے اثرات پڑیں گے اور یہ ممالک دوبارہ روس کی گود میں جاکر گریں گے کیونکہ طالبان سے انہیں روس کے سوا اور کوئی نہیں بچاسکتا جلد یا بدیر ایران کے ساتھ طالبان حکومت کا مناقشہ شروع ہوجائے گا۔ اس رسہ کشی کا فائدہ امریکہ ضرور اٹھائیگا کیونکہ امریکہ ایران کے ملاصاحبان کی حکومت سے عاجز آچکا ہے اگرچہ طالبان کو استحکام کیلئے طویل عرصہ درکارہے لیکن آثار بتارہے ہیں طالبان سے شکست کے باوجود امریکہ طالبان کو اپنا معاون یا پراکسی بنائیگا امریکہ عرب اتحادیوں اور طالبان کو ملا کر ایران کیخلاف گھیراتنگ کرے گا اس تمام تناظر میں پاکستان کی ہمہ جبتی مشکلات میں اضافہ ہوجائیگا جلد یا بدیر جب افغانستان پاکستان سے اپنے معاملات طے کرے گا تو نئی مشکلات سامنے آئیں گی البتہ یہ اطمینان کی بات ہے کہ کابل کے پرامن سقوط سے افغان پناہ گزینوں کے آنے کا جو خطرہ تھا وہ ٹل گیا ہے اگرچہ شمالی اتحاد نے اس بار لڑے بغیر جوسرنڈر کیا ہے وہ بظاہر شکست تسلیم کرنا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب لسانی بنیاد پر افغانستان کے مسائل سراٹھائیں گے جس کی وجہ سے یہ ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے اگرایک متحدہ افغانستان قائم اور دائم رہے تو یہ خطہ اور عالمی امن کیلئے نیک شگون ہوگا لیکن افغانستان کی ماضی جنگ جدل اور پرآشوب واقعات سے بھرپور ہے لسانی تضادات بڑھے تو شمال کے لوگ آخر کار ایک مختلف حکمت عملی اختیار کریں گے اور وہ ملک کوتقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔
میں ذاتی طور پر اس دن سے ایک ”خانہ جنگی“ کا شکار ہوں جب میں نے ایک کالم میں رئیسانی برادران کا ذکر کیا تھا مجھے بتایا گیا کہ ہمارے تعلقات رئیسانی خاندان سے تین نسلوں سے قائم ہیں ہمارا تعلق ”ادا“ سے ہے حاجی صاحب سے ہے جبکہ جس شخص سے ان کی بے وفائی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لہٰذا ان سے اعتدارکرنا چاہئے
عجیب صورتحال ہے کہ مجھ پرسنسر شپ عائد کردی گئی ہے کہ میں ڈاکٹرمالک کے بارے میں کچھ نہ لکھوں اخترمینگل کاذکر نہ کروں مجھے ایسی سنسرشپ کااس سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا ہم نے تو حکومتی پابندیاں پریس ایڈوائس اور خبروں پر سنسر شپ دیکھی ہے کہا جاتا ہے کہ اس وقت میڈیا پر جو پابندیاں ہیں ان کی نظیرموجود نہیں میڈیا پر اتنی سختیوں کی وجہ حکومتی اداروں کا اندرونی خوف ہے حالانکہ اس حکومت کو اس وقت کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے اپوزیشن دوبارہ صف بندیوں میں مصروف ہے لیکن اس کا مقصد حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنا نہیں بلکہ آئندہ انتخابات کی تیاری کا آغاز کرنا ہے تاکہ بروقت حکومت کے مقابلہ کی تیاری کی جاسکے یہ عمل قبل ازوقت ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد ناممکن ہے تمام جماعتیں الگ الگ انتخاب لڑیں گی البتہ انتخابات کے بعد وہ اتحاد کرسکتی ہیں اگرکوئی انہونی نہ ہوئی تو حکمرانوں کی کوشش ہوگی کہ ن لیگ کا احاطہ کیا جائے اور اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے سدود کئے جائیں سیاسی مبصرین کے مطابق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی ایک بارپھر ساؤتھ پنجاب کی اکثریتی نشستیں حاصل کرلے جس کے بعد حسب منشتا ایک مخلوط حکومت تشکیل دینا آسان ہوگا یہ تو معلوم نہیں کہ افغانستان کی صورتحال پاکستان کے حالات پر کس طرح اثرانداز ہوگی لیکن جے یو آئی ضرور زور مارے گی حالانکہ طالبان اورفضل الرحمن گروپ کے تعلقات فی الحال اچھے نہیں ہیں اسکے علاوہ پشتونخوا میپ اور پی ٹی ایم کیلئے بھی مشکلات پیدا ہونگی۔
میراذاتی خیال ہے کہ ایسی ہی مشکلات پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بارے میں بھی پیدا ہونگی کیونکہ مسلح گروپ ان جماعتوں کوآسانی کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیں گے گزشتہ انتخابات کی مثالیں سامنے ہیں نہ جانے انتخابات تک کیاکچھ ہوگاکیاحکمت عملی اپنائی جائے گی اور کون کون اس کی زد میں آئیگا کیونکہ حکمران بے شک بغلیں بجائیں لیکن افغانستان پرطالبان کے قبضہ کے بعد دور رس تبدیلیوں کاآغاز ہوچکا ہے یہ ایک غیرمعمولی انقلاب ہے۔
جس کے اثرات سے اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوگا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ غزنوی غوری اور ابدالی کے وارث تو طالبان ہیں لیکن نصابوں میں وہ ہمارے ہیروہیں اگروہ ہمارے ہیرو ہیں تو انکے وارثوں کو ان کا ورثہ لوٹاناضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں