بت شکن

تحریر: انورساجدی
کراچی لاہور میں شاہی قلعہ کے سامنے ایک نوجوان نے لبیک کا نعرہ بلند کرتے ہوئے راجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گرادیا یہ مجسمہ ایک گھوڑے پر نصب تھا اس واقعہ کے بعد یہ کارنامہ سرانجام دینے والے نوجوان کو بت شکن کا لقب ملے گااور راتوں رات ان کی اتنی پذیرائی ہوگی جو کہ اس نے سوچا بھی نہ ہوگا۔
راجہ رنجیب سندھ سندھو پنجاب کے پہلے اور آخری خود مختار حکمران تھے بعض لوگ انہیں سکھ حکمران کہتے ہیں لیکن قوم پرستوں کے نزدیک وہ پنجابی حکمران تھے سکھوں کے دور اقتدار میں سید احمد بریلوی نے جنگ چھیڑی تھی اور ہندوستان سے مجاہدین کا ایک لشکر لے آیا تھا لیکن بالا کوٹ کے مقام پراس لشکر کو شکست ہوئی سکھوں نے ایک اور معرکہ پشاور کے پاس ہی لڑا جب افغانوں نے کوشش کی کہ پشاور کا قبضہ چھڑایا جائے خیبر کے پاس اس معرکہ میں سکھ کمانڈر ہری سنگھ نلوہ مارا گیا اس کے باوجود سکھوں نے افغانوں کو شکست دی جس کے نتیجے میں پشاور اور ہزارہ کا علاقہ کبھی دوبارہ افغانستان کا حصہ نہ بن سکا یہ جو لاہور میں واقعہ پیش آیا ہے یہ طالبان کے فتح کابل کا اثر معلوم ہوتا ہے کافی لوگ اس فتح کو لیکر جذباتی واقع ہورہے ہیں وہ امریکہ اور 40 ممالک کے اتحاد کی شکست کو عالم کفر کی شکست سمجھ رہے ہیں لہٰذا پاکستان کے طول و عرض میں عمومی طور پر ایک فخر اور سرشاری کا جذبہ دیکھنے میں آرہا ہے رفتہ رفتہ کئی مسائل جنم لینے کا خدشہ ہے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں طالبان کا اثر زیادہ پڑے گا کیونکہ ان کے ہم مکتب اور ہمنوا ان علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی تعلیمی نظریاتی اور روحانی مرکز جامعہ العلوم حقانیہ نوشہرہ یا اکوڑہ خٹک میں واقع ہے جہاں سے طالبان نے جنم لیا تھا یا ان کا احیا ہوا تھا یہ علاقے جغرافیائی اور جذیاتی طور پر افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں اگر طالبان کو کچھ عرصہ میں اندرونی اختلافات یا خانہ جنگی کا سامنا نہ ہوا تو ان کے اثرات پاکستان پر پڑنا لازمی ہے۔
اگرچہ پاکستان بظاہر ریاستی اور سیکورٹی کے لحاظ سے مضبوط دکھائی دیتا ہے لیکن چند سالوں سے یہاں پر جو محرومیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا نتیجہ ضرور نکلے گا سماجی ناانصافی معاشی نا برابری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور انصاف کا مفتود ہونا ایسے عوامل ہیں کہ یہاں پر کسی نہ کسی طرح کی بغاوت کا جنم لینا قدرتی امر ہے چونکہ عوامی انقلاب کی راہیں بند باندھ کر مسدرو کی گئیں لہٰذا لوگ اور طرح کی جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ہزاروں مدارس کا قیام ان میں لاکھوں طالبان کا داخل ہوجانامفت تعلیم یعنی بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت کہیں اور نہیں ہے ریاست تو اپنے تمام بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہے اس لئے غریب لوگ مدارس کو غنیمت سمجھنے لگے ہیں۔
اسی طرح ریاست روزگار تعلیم صحت اور عام لوگوں کو آبرومندانہ طریقہ سے جینے کا حق فراہم کرنے میں بھی ناکام ہے ملک پر ایک چھوٹی سی نام نہاد اور نامعقول اشرافیہ کا قبضہ ہے یہ طبقہ سارے وسائل خود ہڑپ کرجاتا ہے اور وسائل کا تھوڑا سا حصہ بھی عام لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتا ریاست کی 40 فیصد آبادی نان شبینہ کو محتاج ہے اور غربت کی لیکر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایک اور المیہ یہ ہوا کہ ایک جعلی نظام مسلط کردیا گیا جس کا نام جمہوریت اور پارلیمانی نظام رکھ دیا گیا حالانکہ یہاں پر صحیح معنوں میں کوئی جمہوریت نہیں ہے آئین بالادست طبقہ کے ہاتھوں کا کھلونا ہے جس کا اطلاق صرف غریب لوگوں پر ہوتا ہے۔
انہی حالات کی وجہ سے بلوچستان پشتونخوا اور ساؤتھ پنجاب میں دیکھتے ہی دیکھتے مدارس کا جال بچھ گیا ایک طرف مدارس کا اسلامی نظریہ ہے دوسری طرف نظریہ سے خالی اور مقاصد سے عاری ایک حکومتی بندوبست ہے جنوبی پنجاب کے غریب محنت کشوں کو جب طاقتور طبقے برہنہ کرکے سرعام گھماتے ہیں تو انہوں نے کوئی نہ کوئی سہارا تو تلاش کرنا ہوتا ہے کیونکہ ان کے بچوں کو پڑھ کر افسر تو نہیں بننا ہے لہٰذا یہ کچلے ہوئے طبقات مدارس کا رخ کرنے پر مجبو ر ہیں۔
اگر جے یوآئی کے دھڑے ٹھیک طریقہ سے کام کرتے اور جعلی اشرافیہ سے سمجھوتے کرکے اس کاحصہ نہ بنتے تو افغانستان سے بھی پہلے تبدیلی پاکستان میں آجاتی لیکن ان دھڑوں نے تبدیلی کو روکے رکھا ہے کیونکہ پاکستانی سماج میں دوغلا پن اور منافقت زیادہ ہے۔
مثال کے طور پر افغانستان پر امریکی قبضہ کے بعد ہمارے موجودہ وزیراعظم امریکہ مخالف اور طالبان کے ہمنوا نظر آتے تھے جس کی وجہ سے مغرب نے انہیں طالبان خان کا نام دیا لیکن جب سے وہ اشرافیہ کا سرغنہ بنے ہیں انہوں نے اپنے اختیارات افکار اور نظریہ میں تحریف کیا ہے وہ طالبان ہو نہ ہوں پاکستانی تاریخ کے دوسرے بڑے قدامت پسند حکمران ضرور ہیں ان پر صرف جنرل ضیاؤالحق کو فضیلت حاصل ہے وہ طالبان کے دوبارہ پاور میں آنے سے بے شک خوفزدہ ہوں لیکن دو روز قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کے دل کی بات زبان پر آگئی انہوں نے طالبان کی فتح کے بارے میں کہا کہ افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ حضور آپ کی حکومت یا ریاست کس کی غلام ہے؟ اگر یہاں غلامی ہے تو آپ بھی زنجیریں توڑ دیں۔
طالبان کی فتح کے بعد اگر کسی ملک نے سب سے زیادہ متاثر ہونا ہے تو وہ یقینی طور پر پاکستان ہوگا ماضی میں ٹی ٹی پی سے ایک بڑی جنگ لڑی گئی اگر امریکہ افغانستان پر لاکھوں ٹن بم نہ گراتا اور ہزاروں ڈرون حملے نہ کرتا تو پاکستان کیلئے طالبان کو شکست دینا ممکن نہ تھا سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے ایک بریفنگ میں کہاتھا کہ ہم فاٹا اور افغانستان سے متصل علاقوں میں کوئی فیصلہ کن آپریشن کی پوزیشن میں نہیں ہیں اگر مکمل آپریشن کربھی دیا جائے تو اس کی کامیابی کے 40 فیصدامکانات ہیں ان کی بات اس طرح سچ نکلی کہ فاٹا کے بعض علاقوں خاص طور پر وزیرستان میں آپریشن ابھی تک جاری ہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ افغان طالبان پاکستان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کریں گے یا ٹی ٹی پی کے بارے میں ان کی کیا پالیسی ہوگی لیکن یہ بات طے ہے کہ سیکورٹی کیلئے غیر معمولی اقدامات اٹھانا پڑیں گے اس کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی کو روکنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ مدارس جن سے طالبان نے فیض پایا ہے وہ افغانستان کی بجائے پاکستان میں واقع ہیں ان کے استاد کرام بھی یہیں پر ہیں طالبان کے موجودہ امیر ملاہیبت اللہ ساری زندگی کوئٹہ میں گزار چکے ہیں ان کے پیشرو کچلاک کے ایک مدرسہ کے مہتمم تھے جو نوشکے کے قریب امریکی ڈرون حملہ میں مارے گئے خود پہلے امیر المومنین ملا عمر بھی سالہا سال تک کوئٹہ میں رہے جبکہ ان کے صاحبزادوں اور اس وقت طالبان فورسز کے کمانڈر ملا یعقوب نے تو کراچی سے تعلیم حاصل کی ہے اگر دیکھا جائے توطالبان کے استحکام کے بعد کافی مسائل سر اٹھائیں گے۔
پاکستانی کی داخلی سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہونگے تحریک انصاف تو طالبان کے نظریہ کی حامی ہے ن لیگ ماضی میں طالبان کے قریب رہی ہے جبکہ جے یو آئی تو طالبان کی مائی باپ رہی ہے جن جماعتوں کیلئے حالات ناموافق ہونگے ان میں پیپلز پارٹی اور اے این پی سرفہرست ہیں اگر محترمہ بینظیر کو واقعی طالبان نے قتل کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان پیپلز پارٹی کودشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں طالبان کے سابق ترجمان حسان الحق احسان نے گزشتہ سال بلاول بھٹو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جلد آپ کو بھی والدہ کے پاس بھیج دیں گے۔
لہٰذا پیپلز پارٹی اور اے این پی کو آئندہ انتخابات اور سیاست کیلئے ہموار زمین نہیں ملے گی نہ صرف طالبان کے غلبہ کے بعد کئی تکفیری بت گرجا جائیں گے بلکہ سیاسی بت بھی زمین بوس کئے جائیں گے اگراچہ افغانستان کی طرح سارے پاکستان میں شرعی نظام نافذ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر ہمارے موجودہ حکمرانوں کو یہ یقین ہو کہ وہ تاحیات امیر المومنین بن سکتے ہیں تو وہ ریاست مدینہ کے قیام کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے ایک اور ایکسٹینشن دے کر تاحیات حکمرانی کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں