بچہ سقہ کا کابل

تحریر: جمشید حسنی
تاریخ بتلاتی ہے افغانستان میں حاکم ہوتا ہے جو کابل پر قابض ہوجائے افغانستان میں بچہ مسقہ بھی نو ماہ حکمران رہا انگریز تین جنگوں کے باوجود افغانستان پر قابض نہ ہوسکا تیسری جنگ میں تو ساری فوج تباہ ہوگئی صرف ایک ڈاکٹر زندہ بچا ایک انگریز کرنل کی مصورہ بیوی نے اس شکست کو منظر یوں دکھایا کہ تق درق صحر میں گھوڑے پر ڈاکٹر اوندھے منہ پڑا ہے روس کی ہیٹراعظم کے زمانے سے گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش تھی ادھر بر صغیر پر قابض انگریز کی خواہش تھی کہ روس ایسا نہ کرسکے،سنڈیمن کی فارورڈ پالیس کے تحت راستہ روکنے بلوچستان پر قبضہ ہوا چمن تفتان لنڈی کوتل تک ریل کی پٹڑی بچھی خوجک سرنگ کھودنے میں تجارتی مفاد نہیں تھا انگریز گیا ظاہر شاہ کا تختہ سردار داؤد نے الٹا طاہر شاہ اٹلی جلا وطن ہوئے،سردار داؤد نور محمد ترکی کے انقلاب میں مارا گیا بعد ازاں حفیظ اللہ،امین ببرک کابل ڈاکٹر نجیب آئے ڈاکٹر نجیب کو کابل کے چوراہے پر پھانسی دی گئی،روس آیا امریکہ آیا دونوں گئے اب دوبارہ طالبان آگئے ہیں تیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں روس اور چین نے کابل میں سفارت کانے بند نہیں کئے،امریکہ یورپی یونین بھارت نے سفارتی عملہ نکال لیا ہے انخلاء کے لئے 2500امریکی فوج کابل میں موجود ہے افغانستان کے حکمران ملک چھوڑ کر بھاگ گئے عبداللہ عبداللہ حامد کرزئی گلبدین حکمت یار افغانستان میں ہیں آگے کیا ہوتا ہے صورت خان مبہم ہیں پچھلی بار طالبان حکومت میں سختی کی گئی اس بار وہ لچک دکھا رہے ہیں اہم بات فوج پولیس انتظامیہ کو بحال کرنا عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ترقی کیلئے انفراسٹرکچر نہیں ہمسایہ ممالک زیادہ خوشحال نہیں ہندوستان ظاہری طور پر دوستی کا دم بھرتا ہے اس کی کوشش ہے پاکستان کا اثر ورسوخ کم کیا جائے دوسری طرف امریکہ پاکستان کے ساتھ کبھی مخلص نہیں رہا اس نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کرنے کی کوشش کی امریکہ ویت نام ہیں ہا را افغانستان میں دو کھرب ڈالر ضائع کئے ویت نام کی طرح افغانستان میں بھی سفارتی عملہ کو ہیلی کاپٹر سے نکالا گیا۔
افغانستان میں سب امن چاہتے ہیں طالبان اب ایک سیاسی قوت اور حقیقت ہیں ہمارے اور طالبان کے تعلقات ماضی میں کشیدہ نہیں رہے امریکہ کی بجائے ہمسایوں سے پرامن تعلقات ہماری ترجیح ہونی چاہیے ماضی میں امریکی خوشنودی کیلئے ایران کے ساتھ سرد مہری برتی‘ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ ہوا،اہم بات یہ ہے کہ عالمی برادری افغان حکومت کو کس صورت میں قبول کرتی ہے شمالی افغانستان کے اکثر لیڈر پاکستان آگئے ہیں اسماعیل خان ایران چلے گئے جنرل روستم نے کبھی پاکستان کی طرف نیک نیتی کا اظہار نہیں کیا۔
شاعر نے کہا
تم رقامت میں میرے گھر کو جلا مت دینا
عین ممکن ہے کبھی ہاس نہیں بنائیں ڈھونڈو
پاکستان آنے والے افغان لیڈروں کی مستقبل کی سیاسی عمل میں کوئی حیثیت نہیں رہی پاکستانی وزارت خارجہ انہیں شوپیس کی طرح استعمال کریگی۔پشتوضرب المثل ہے گدھے کو جتنا موٹر کرو اس سے عید کی قربانی نہیں ہوتی

اپنا تبصرہ بھیجیں