مولانا صاحب کو طالبان کی دعوت

تحریر: انورساجدی
طالبان افغانستان کو چلانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں ایک بات ضرور ہے کہ ان کی فتح نے پاکستانی سماج کو دو واضح حصوں میں تقسیم کردیا ہے اسلام آباد کی مشہور اسلامی درسگاہ جامعہ حفصہ کے نامور مگر بزدل سربراہ مولانا عبدالعزیز نے پاکستان کو امارت اسلامیہ بنانے کا اعلان کیا ہے ای طرح اوریامقبول جان عباسی الحاج سید زید زمان حامد انصار عباسی ہارون رشیداور اس طرح کے ضیائی دانشوروں نے یک طرفہ طور پر طالبان کی وکالت شروع کردی ہے دینی محاذ پر لبرل سمجھے جانے والے جاوید غامدی نے بھی طالبان کی فتح کو دیوبند تحریک کی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔
دیوبند کی تحریک تو مولانا نانوتوی نے شروع کی تھی اور مولانا حسین احمد مدنی نے اسے بام عروج پر پہنچایا تھا اس تحریک نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی آزادی کیلئے بینظیر قربانیاں دی تھیں اس تحریک کی سرشت میں غلامی کیخلاف جہاد اور استعمار کوماربھگانے کافلسفہ شامل تھا اسی لئے دیوبند مکتبہ فکر افغانستان میں امریکہ کی شکست کو21ویں صدی کا سب بڑا واقعہ یامعجزہ سمجھ رہا ہے جے یو آئی کی تو مجبوری ہے کہ وہ اپنے طالبان کی حمایت کرے یہ الگ بات کہ طالبان کو جے یو آئی کی طرز سیاست سے اختلاف ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دیوبند کی تحریک کا ہندوستان میں کوئی خاص رزلٹ نہیں نکلا لیکن اس کے ثمرات افغانستان میں بارآور ثابت ہوگئے جلد یا بدیر تحریک دیوبند ایک نئے انداز میں پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اگرچہ امریکہ کو شکست دینا یاافغانستان میں فتح حاصل کرنا غیرمعمولی واقعہ ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ طالبان کامیاب حکمران بھی ثابت ہونگے اور وہ ایک کثیرالقوامی ریاست کو کماحقہ چلاپائیں گے کیونکہ انکے سامنے غیرمعمولی چیلنجز ہیں افغانستان کے وسائل محدود ہیں ملک کو چلانے کیلئے جس کا رقبہ تقریباً پاکستان کے برابر ہے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے سردست تو امریکہ نے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر جو9.4بلین ڈالر ہیں ضبط کرلئے ہیں۔جب تک وسیع البنیاد حکومت تشکیل نہیں دی جائے گی سیاسی استحکام نہیں آسکے گا بلکہ خانہ جنگی شروع ہونے کا خطرہ ہے لیکن اس مرتبہ کی خانہ جنگی 1990ء کی دہائی سے مختلف ہوگی اور یہ شہروں میں لڑی جائیگی طالبان نے حکومت سنبھالنے سے قبل ملک کا پرچم تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس کیخلاف جلال آباد اور دیگرشہروں میں لوگ سڑکوں پر نکلے طالبان نے اسدآباد میں فائرنگ کرکے مظاہرین کو بے دردی کے ساتھ کچلا انسانی حقوق کے حق میں کابل شہر میں خواتین سرکوں پر نکل آئیں شکر ہے کہ خواتین کو گولیوں کا نشانہ بنانے سے گریز کیاگیا۔
کابل جو60لاکھ آبادی کا شہر ہے صرف پانچ دن میں آدھااجڑ چکا ہے جب مستقبل میں اس شہر میں بے روزگاری بھوک اورافلاس رقصاں ہونگے تو لوگ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہیں سڑکوں پر آنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ طالبان طاقت کا بے رحمانہ استعمال کریں گے۔طالبان نے اپنے نظام کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں جمہوری نظام نہیں شرعی نطام نافذ ہوگا طالبان امیرسپریم لیڈر ہونگے ملکی امور چلانے کیلئے ایک عدد صدرمملکت بھی ہوگا جو امکانی طور پر ملاعبدالغنی برادر ہونگے مولانا برادر مولوی ہیبت اللہ اور ملایعقوب قریبی عزیز ہیں جو سپریم لیڈر صدر اورمسلح افواج کے عہدے اپنے پاس رکھیں گے لازمی طور پر ایک شوریٰ بھی بنے گی یعنی جوشوریٰ ابتک کوئٹہ میں موجود تھی وہ کابل منتقل ہوجائے گی طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں جمہوری نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری جانب شمالی اتحاد کے ایک لیڈر عبداللطیف پدرم نے کہا ہے کہ افغانستان میں جب تک وفاقی نظام نہیں ہوگا یہ ملک نہیں چل سکے گا انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کی طرح کا وفاق بنایاجائے حالانکہ پاکستان میں وحدانی صدارتی مارشل لائی اور وفاقی نظام بھی ناکام ہوچکے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہرنظام میں مداخلت روایت بن چکی ہے آج تک کسی بھی نظام کو چلنے نہیں دیاگیا۔
شمالی اتحاد کے عزائم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طالبان کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک انہیں ریاستی امور میں مکمل نمائندگی نہیں دی جائیگی جبکہ طالبان کیلئے ممکن نہیں کہ وہ کوئی وفاقی نظام سامنے لائیں چنانچہ شمالی اتحاد اس طرح کی مزاحمت شروع کرے گا جیسا کہ1996ء میں طالبان کے آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے کیا تھا لیکن شمالی اتحاد کے پاس احمد شاہ مسعود جیسی قیادت نہیں ہے ازبک کمانڈر دوستم بھی تھک ہارچکے ہیں اس اتحاد کے نئے لیڈر امراللہ صالح جو عمل کم اور باتیں زیادہ کرتے ہیں وادی پنجشر پہنچ کر باقاعدہ مزاحمت کااعلان کرچکے ہیں۔کابل میں سابق صدر حامد کرزئی اور دوسابق وارڈلارڈز گلبدن حکمت یار اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی مفاہمتی فارمولے پرطالبان کولایاجائے لیکن یہ طالبان اور افغانستان کی روایت نہیں ہے کہ وہاں پر صلح اور آشتی سے کام لیاجائے اگرعبداللہ مایوس ہوگئے تو وہ بھی پنجشر کارخ کریں گے جبکہ گلبدن اورحامد کرزئی اگرفرارنہ ہوئے تو انہیں سرقلم کرنے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگرافغانستان کی دوسو سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حامد کرزئی واحد حکمران ہیں جس نے اپنی مدت پوری کی اور ابھی تک قتل ہونے سے بھی بچے ہوئے ہیں جبکہ28میں سے27حکمران یا تو معزول ہوئے یا قتل ہوئے۔اگرچہ طالبان کے ترجمان واضح طور پر کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی لیکن گماں یہی ہے کہ پاکستانی طالبان اجازت لئے بغیر اپنی کارروائیاں شروع کریں گے ماضی میں امریکہ حقانی گروپ کو پاکستانی پراکسی قراردے چکا ہے جبکہ سراج الحق حقانی طالبان کی ٹاپ قیادت میں شامل ہیں گوکہ نظریاتی اعتبار سے عمران خان طالبان کے ہمنوا ہیں لیکن مقتدرہ دیکھ بھال کے چل رہی ہے اگرطالبان نے ٹی ٹی پی کی حمایت کی تو پاکستان کو لازمی طور پر اپنی سلامتی کیلئے محاذ کھولنا پڑے گا اور عمران خان سے کہہ دیا جائیگا کہ وہ اپنے نظریات عارضی طور پر ملفوف کرکے رکھ دیں حالانکہ پاکستان مقتدرہ بھی ماضی میں طالبان کی ہمنوا اور ان کا مائی باپ رہی ہے لیکن اس وقت مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی برادری کے ساتھ چلنا ہے کیونکہ ملک چلانے کیلئے عالمی برادری کی امداد ناگزیر ہے بلکہ پاکستانی حکمران کوشش کریں گے کہ طالبان کو قائل کیاجائے کہ فتح کے باوجود وہ زیادہ اچھل کود نہ کریں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
طالبان پہلا کام داعش کیخلاف کارروائی سے شروع کریں گے تاکہ مغرب کو ان پر کچھ یقین آجائے دوسرا کام القاعدہ جو کہ ان کا لازمی حصہ ہے کو منظر عام پر آنے نہیں دیں گے تاکہ بیرونی دباؤ میں کمی آجائے اس کے باوجود مغرب کو یقین نہیں آئیگا کیونکہ چین بیچ میں کود پڑا ہے آثار بتارہے ہیں کہ چین طالبان پر دست شفقت رکھ دے گا جواب میں جوایغورباغی افغانستان میں مقیم ہیں انکو کارروائیوں سے روک دیاجائیگا۔اس وقت تو چین کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اسے سی پیک افغانستان تک لے جانا ہے اور افغانستان کے لیتھم کے ذخائر کو لوٹنا ہے کیونکہ اس وقت اس دھات کی اشد ضرورت ہے اس سے چین الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹری بنارہا ہے جوں جوں پیٹرول والی گاڑیاں ختم ہونگی لیتھم کی ضرورت بڑھ جائے گی چین افغناستان کے ذریعے سی پیک کو وسط اشیاء تک وسعت دے کر پھر ایران تک لے جانا چاہتا ہے۔
ایران اور چین پہلے ہی ایک تذدیراتی معاہدہ کرچکے ہیں جبکہ وہ ایران میں 4سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا یہ رقم پاکستان میں سرمایہ کاری سے سات گناہ زیادہ ہے۔اسی اثناء مغرب پاکستان پر اس لئے اعتبار نہیں کرے گا کہ اس کے حکمران ہمیشہ دوغلی پالیسی پر چلے ہیں غالباً چینکو بھی یہی شکایت ہے مغرب کو خدشہ ہے پاکستان طالبان کوبہلاپھسلا کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتا ہے حالانکہ اسلام آباد کے حکمران طالبان کے دوبارہ آنے سے بظاہر لرزہ براندام لیکن اندر سے خوش ہیں جس طرح مولاناعبدالعزیز نے امارات اسلامیہ کا اعلان کیا ہے اس طرح کے مزید گروپ ابھرکرسامنے آجائیں گے طالبان کے آنے کی خوشی میں کئی مقامات پر لوگوں نے مظاہرے کئے بلوچستان میں جے یو آئی کاایک نظریاتی گروپ ہے اس نے تو باقاعدہ جلوس نکالے اسی طرح مولاناسمیع الحق گروپ تو کھلا کھلا طالبان کی حمایت کررہا ہے صوبہ پشتونخوا اور بلوچستان میں طالبان کے زیادہ وسیع اثرات پڑیں گے کیونکہ ان دونوں صوبوں میں ہزاروں مدارس میں نئے طالبان تیار ہورہے ہیں اور یہ لازمی طور پر اپنے سینئرز کا ساتھ دیں گے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود لوگ کسی نہ کسی طرح بھاگ کر بلوچستان آرہے ہیں اگرطالبان حکومت نے بامیان میں کارروائیاں کیں تو ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ بلوچستان کا رخ کرسکتے ہیں 1990ء کے بعد ہزارہ برادری کی آبادی میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس وقت کوئٹہ شہر کی دونشستیں اس برادری کے پاس ہیں اگرافغانستان سے مزید لوگ آگئے تو 2023ء میں ان کی نشتوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ جنرل موسیٰ نے بہ حیثیت گورنر مغربی پاکستان یہ بات تسلیم کروائی تھی کہ ہزارہ بلوچستان کے لوکل ہیں نہ صرف ہزارہ بلکہ دیگر متاثرین بھی بلوچستان کر رخ کریں گے بدقسمتی سے پناہ گزینوں کی آمد کو اسلام آباد کے حکمران اپنے لئے نیک شگون سمجھتے ہیں تاکہ خودبخود ڈیموگرافک تبدیلی آجائے اور وہ آبادی کے توازن کے ذریعے اپنے سیاسی اورتذدیراتی مقاصد حاصل کرسکیں 1990ء کی دہائی میں جو افغان مہاجرین آئے تھے وہ کبھی واپس نہیں گئے کیونکہ افغانستان میں طویل عرصہ تک سیاسی ومعاشی استحکام نہیں آسکتا طالبان کی سرشت میں شامل ہے کہ وہ پشتون کے سوا دیگر اقوام کونمائندگی نہ دیں بلکہ تاجک ازبک ہزارہ ترکمان اور دیگراقوام کی آبادی نصف سے زیادہ ہے عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف طالبان شرعی نظام کے نفاذ اور امت کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ پشتون کے سوا کسی کو نہیں مانتے حتیٰ کہ وہ پشتو کے سوا کسی اور زبان کو بھی تسلیم نہیں کرتے ان کی یہ غیرلچکدار پالیسی آئندہ چل کر انکے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی کیونکہ افغانستان کے60فیصد لوگ فارسی بولتے ہیں کئی علاقوں کے پشتون بھی فارسی ہی جانتے ہیں۔لہٰذا انکو اپنی یہ تنگ نظرپالیسی ترک کرنا ہوگی اسی طرح پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی وحدانی سوچ اور رجعت پسندانہ سوچ ترک کردے حال ہی میں حکومت نے جو یکساں نصاب نافذ کیاہے یہ اس کی وحدانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ چاروں صوبوں شمالی علاقہ جات اور کشمیر کے لوگ ایک طرح سوچیں ایک نصاب پڑھیں اور اس پر عمل کرکے قرون وسطیٰ کے انسان بنیں عمران خان نے دوروز قبل اس نصاب کے نفاذ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انگریزی زبان پر سخت تنقید کی تھی انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایچ ای سن انگریزی پڑھنے گئے وہ آکسفورڈ بھی انگریزی کی خاطر گئے تھے انہوں نے اپنے بچوں کو بھی لندن میں اس لئے رکھا ہے کہ وہ اس زبان کے ماہر بن جائیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس ملک کے غریب بچوں کو ابدالی غوری اورغزنوی کی کہانیاں پڑھاکر انہیں قرون اولیٰ میں لے جانا چاہتے ہیں اگرطالبان والا نظام درکار ہے تو بسم اللہ کریں انگریزی نظام ترک کرکے شرعی نظام نافذ کردیں اور یہ نظام چلانے کی ذمہ داری مولاناعبدالعزیز اور مولانافضل الرحمن کو سونپ دیں یا ان کے ساتھ شریک ہوجائیں یہ بہت ہی دوغلی اورناقابل قبول رویہ ہے اگر حکمران اسی روش پر چلتے رہے تو وہ حالات کو طالبان کیلئے سازگار بناکر چھوڑیں گے اور اس ریاست کی بنیاد کھوکھلی کرکے کہیں دور دیس جابسیں گے طالبان کا جونظام بھگتیں گے وہ اس ملک کے غریب عوام ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں