پنجگور،خوابوں کی جنت

تحریر: چاکرصدیق بلوچ
پجگور مکران ڈویژن کا تیسرا بڑا ضلع ہے جس کی چار تحصیل ہیں، جس میں پروم، گچک، گوارگو اور پنجگور شامل ہیں جبکہ کیلکور،سبزآب، تسپ، کلگ، وشبود، گرمکان،سراوان، خدابادان، تارآفس، چتکان، سریکوران، بونستان،ہیرآپ،سریکلات،عیسئی،سندے سر اور سوردو،حاجی غازی،پیر عمر پنجگور کے اکثریت آبادی والے علاقوں میں شامل ہیں، 2017 میں کی گئی سرکاری مردم شماری کے مطابق ضلع پنجگور کی آبادی353 315 سے کم و بیش ہے اور یہ ضلع نخلستان کا مجموعہ ہے جہاں پر کجھور کثرت سے پائی جاتی ہے پنجگور کے کجھور صوبہ سندھ کے علاوہ پاکستان کے دوسرے بڑے بڑے شہروں میں سپلائی ہوتی ہیں یعنی پنجگور قدرتی طور پر اعلٰی قسم کے کجھوروں کی ایک قدرتی فیکٹری ہے. ہمسایہ ملک ایران کے بارڈر پنجگور کے قریب پڑتے ہیں ایران اور پنجگور کے لوگ صدیوں سے اسی بارڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتے آرہے ہیں اور ایران سے کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں. قیام پاکستان سے قبل ایران کے لوگ باآسانی پجگور آتے تھے اور پنجگور کے لوگ بھی ایران میں چلے جاتے تھے اور ایرانی بلوچستان اور پنجگور کے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں. پنجگور یہاں کے قدیمی باسیوں کے لیے ایک جنت تھی ایک ایسی جنت جہاں پنجگور کے لوگ اپنے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے تھے لیکن اب پنجگور جنت کے بجائے ایک دنیاوی قیامت بن چکی ہے جہاں امن کی چڑیا انسان کے شیطانی رویے کے باعث اُڑ چکی ہے پورا ضلع جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں کسی بھی شخص کی عزت نفس محفوظ نہیں ہے پورے ضلع کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڈ دیاگیا ہے با اثر اور نادیدہ قوتوں کی ایماء پر جرائم پیشہ لوگ شہر میں سرعام اسلحہ کی نمائش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور سرکاری ادارے خاموشی سے اُن کو دیکھتے ہیں. پنجگور میں جرائم پیشہ لوگ بیگناہ لوگوں کو سرعام قتل کرکے باآسانی سے فرار ہوجاتے ہیں پنجگور میں نوجوان ،بوڈھے اور یہاں تک کے سوردو سے اسلامک اسکالر حضرت مولانا حاجی عبدالحئی بلوچ، گرمکان سے پولیس اہلکار نصیر احمد، تسپ سے صغیر احمد بادینی، سوردو سریکوران سے 10 سے 12 سالہ معصوم فقیرجان بلوچ، وشبود سے طالب علم جعفر سلیم، چتکان سے قدیر خلیل جیسے تین چار سالہ معصوم بچے کو بھی سرعام قتل کیا جاتا ہے اور اُس قاتلوں کو پکڑنے کے لیے کسی بھی سرکاری ادارہ گوارہ نہیں کررہا ان جرائم پیشہ لوگوں کی وجہ سے پنجگور کا کاروباری طبقہ انتہائی بے سکون ہوچکا ہے ،شام سے پہلے پنجگور کا بازار بند ہونا شروع ہوجاتا ہے. ماحول اس طرح بنا ہوا ہیکہ زندہ رہنے کے آثار ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں. جیسا کہ میں نے اوپر کہا تھا کہ پنجگور ایرانی بارڈر کے انتہائی قریب واقع ہے پنجگور میں کاروبار کا زریعہ ایران ہے پنجگور کے لوگ صدیوں سے ایرانی بارڈر پر کاروبار کررہے ہیں ایرانی بارڈر سے لاکھوں لوگ چھوٹے اور بڑے پیمانے پر تجارت کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ابھی ایرانی بارڈر کے بندش کی وجہ سے پنجگور سمیت دوسرے علاقے معاشی طور پر انتہائی پیچھے چلے گئے ہیں غربت کی شرح حد درجہ بڑھ گئی ہے لوگ بھوک کا شکار ہوچکے ہیں ایک انسانی المیہ سر اُٹھا رہا ہے اور پنجگور میں جرائم پیشہ افراد اور جرائم کی بڑھتے ہوئے صورت حال بارڈر سے منسلک ہے کیونکہ جب بارڈر پر کاروبار جاری تھا تو پنجگور میں جرائم کی کمی تھی جب سے بارڈر بند ہوئی ہے پنجگور میں جرائم کی شرح بڑھ چکی ہے لیکن ایک بات ابھی بھی سمجھ سے باہر ہے کہ سرکار ان جرائم پیشہ لوگوں پر توجہ کیوں نہیں دیتا. دوسری جانب پنجگور میں بجلی کی صورت حال بھی انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر چُکی ہے جب سے ایران میں بجلی بحران پیدا ہوئی ہے پنجگور کو بجلی سے محروم کردیاگیا ہے بجلی کی جو شیڈول بنائی گئی ہے اُس شیڈول کے مطابق پنجگور کو بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے پنجگور کے لوگ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اذیت کا شکار ہوچکے ہیں. بجلی کی مستقل حل یہ ہے کہ مکران کو نیشنل گریڈ سے منسلک کیا جائے کیونکہ ایران میں جاری بحران مستقل طور پر حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا. اور ابھی مسائل میں گری پنجگور کسی مسیحاء کے انتظار میں ہے کہ کب کوئی مسیحا آکر پنجگور کے آنسوؤں کو پونچھے.