مستقبل کی عدلیہ مقتل گاہ میں کھڑی تھی

تحریر:امان اللہ شادیزئی
پاکستان کی تاریخ کا یہ حادثہ کتنا خوفناک او ر و حشت ناک حملے نے پورے پاکستان پر سکتہ عاری کردیا تھا اس دھماکہ کی گونج میں انسانی جسم کے ٹکڑے اڑ ر ہے تھے عدل گاہ پر سکتہ طاری ہوگیا تھا یہ دکلا کی کربلابن گئی تھی لاشیں بکھری بڑی تھیں زندگی کے چراغ بجھ رہے تھے دہشت گردی ہشتگردی نے ڈاکٹرں کو خوفزدہ کردیا تھا یہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا حکومت ہر ایسے حادثہ کے بعد سراسیمہ عاری قی ہے اور عجیب وغریب دلائل دینا شروع کرریتی ہے اپنی غلطی تسلیم کرنا اس کا شیوہ نہیں رہا۔
مرنے والوں نے جہاں چاہاوہاں حملہ کیا اور معرف کے پورا کیا۔ وہ اپنے ہدف پر بغیر کسی رکاوٹ پہنچے ہیں یہ معاشرہ کا یم تھا قابل اورلائق مقتل گاہ میں گھیراگیا یہ ایک کاری ضرب تھی جو د عدلت کو لگائی تھی اس کو جس پہلوسے بے دیکھیں حکومت کی ناکامی جھلکتی ہے بے بسی نظر آتی ہے انصاف کی وکالت کرنے والوں کی زندگیوں کے چراغ گل کئے کیا بے بسی کا منظرتھا یہ ایک حملہ نے اگست گہرے گھاؤلگائے کتنے گھروں کو اجاڑ ویا 8آئے والی صبح میں موت کا کھیل کھیلا جانے والا تھا کوئٹہ کی وادی نے اپنی پوری تاریخ میں ایسا منظر نہ دیکھا کی پوری پاکستان میں ایسی مقتل گاہ نہ دیکھی کوئٹہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک بے بسی انسانوں کی چیخوں سے گونج رہا تھا ماؤں بہنوں اور بیویوں کی صدائیں دورتک سنی گئیں ہے عاتم کدہ کو ابھی تک فراموش نہیں کرسکاہوں اس نتھاسنگھ اسٹریٹ پر دوستوں کے ساتھ چھاگیا لیبرفیڈر یشن میں خوش گپیوں میں محوتھا کہ نواب بگٹی بہت تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے گزرگئے مجھے حیرت ہوئی کہ نواب بگٹی اتنی تیزی سے کیوں گزرے ہیں چند لمحوں بعد اس علاقہ میں دکا نیں بند ہونا شروع ہوگئیں باہر نکلاتو معلوم ہوا کہ نواب کا بیٹا قتل ہوگیا۔ ایک خوف کا سناٹا جو خون میں تھا نواب کا سب سے چھوٹا بیٹا سلال قتل مرگیاتھا یہ نواب بگٹی کے مستقبل کا سنہر اخواب تھا جو خون میں ڈوب گیا تھا نواب کا جانشین زندگی کی ہار گیا تھا نواب سے ایک زمانہ کا تعلق تھا دفتر سے نکلا مغرب کا وقت ہو چلاتھا تسلی دینے کے کئے نواب بگٹی کا گلی میں داخل ہوا توقدم رک گئے۔ نواب بگٹی کے گھرسے عورتوں کی دلدوز صدائے احتجاج کا رنگ ایساتھا کہ دل بے قابو ہوگیا بہنوں اور بیوی کی رونے کی آوازوں میں ایسادردتھا کہ دل بھر آیا اور بڑی مشکل سے آنسوؤں پر قابوپاسکا۔ اور حوصلہ نہ تھا کہ نواب کو حوصلہ دیتا لوٹ آیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور ایساہی منظر میری نگاہوں کے سامنے تھا موبائل پرفون آیا کہ آیا کہ آپ کی گلی میں ایک نوجوان لڑکاقتل ہوگیا دل دھک سے رہ گیا خیا ل آیا کہ میر ابیٹا نہ جلدی گھر پہنچا تو گلی میں رش تھا امیرہمسایہ جو ایک غریب نوجوان تھا اس کی جوائنٹ روڈ پر پان کی دکان تھی اس کے والد سے اچھے تعلقات تھے اس کے گھر کے قریب پہنچاتوعورتوں کی رونے کی آواز یں اتنی زوردارتھیں او راس میں دردو بے بسی اپنے عروج پر تھی مجھے اندازہ ہو ا کہ گھر کسی نواب کا ہو یا خاک بسر نوجوان کا ہو درد او رغم یکساں ہوتا ہے دونوں طرف بے بسی نظر آتی ہے نواب کی بے بسی اور مزدور کے بیٹے کی بے بسی یکساں نظر آئی۔ مجھے اندازہ ہے کہ جس جس گھر میں معززوکلاء کی لاشیں گئی ہوں گی ہر گھر میں ایک کربلابپاہوئی ہوگی ماؤں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی بیٹیویاں بے بسی کی تصویربن گئی ہوں گی ماں باپ کی نگاہوں میں اندھیر ا چھاگیا ہوگا۔ خوبصورت مستقبل بے جان جسموں کے سا تھ پڑے ہوں گے موت نے انہیں گھر لوٹنے نہیں دیا۔ ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں سے اپنے پیاروں سے رخصت ہوگئے ہوں گے ایک دست قاتل نے کتنے بچوں کو یتیم کردیا۔ بیواؤں میں اضافہ کردیا کوئٹہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک غم کے سائے پھیل گئے تھے۔ ہر قبیلہ زخم خوردہ تھا پوراملک سوگوار تھا۔ مذہبی پارٹیا ں، سیاسی پارٹیاں او ران کے سربراہ ہرگھرپر گئے۔ دانشوروکلاء تاجربرادری صحافی برادری سارے اس غم میں شریک تھے۔ گہماگہمی تھی مگرغم کئے ہوئے تھے افسردگی چھائی ہوئی تھی غصہ بھی تھا لیکن دشمن پس پردہ تھا صرف اس کی پرچھائیں گھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ایک ھیولا تھا جوکبھی نظر آتا اور کبھی اوجھل ہوتا ہاتھ نہ آتا انتقام کی خواہش تھی لیکن دشمن نظر نہیں آرہا تھا ایسی بے بسی ہزارہ قبیلہ کی ہوتی جب لاشیں ان کے گھروں میں جاتیں‘ قبرستان بے گناہ انسانوں سے آباد ہوگئے ہیں ہر قبر ستان میں شہداء کی قبریں نظر آتی اہیں اکثر وبیشتروکلاء سے قریبی تعلقات تھے کورٹ جاتا تو ان سے ملاقاتیں ہوتیں۔وکلاء تحریک میں انہیں کوئٹہ سے دورتک چھوڑ نے گیا ہوں پھر وہ لوٹ آتے مگر اب ایسے گئے ہیں کہ لوٹ نہیں سکیں گے۔ وہ سب ہماری دنیا سے چلے گئے ہیں او رشہر خموشاں میں جابسے ہیں۔
اپنے اس کالم کوحضرت علی کے ایک اہم خطے کے بعض حصوں کو قار ئین کی نذر کرتا ہوں آپ غور کریں کہ اپنے وقت کے امام نے کیا کہا یہ خطبہ انسان کی زندگی کی ناپائیداری کی داستان سناتاہے۔یہ کیسامنظر ہوگا جب قریب ترین رشتہ داروں نے اپنے ہاتھوں سے اپنوں کو خاک کے سپردکیا ہوگا۔جانے والوں کو علم نہ ہوگا کہ ان چاہنے والوں پر کیا قیامت گزری ہوگی۔
حضرت علی نافرما:
”اب ان کی واپسی کا کوئی منتظرنہیں ظاہر میں حاضر ہیں اور درگور ہیں اور قیدسامنے ہی ہے لیکن مجالس میں حاضرنہیں ہوسکتے ہیں پہلے آپس میں میل جول رکھتے تھے اب جداہیں ان کے شہرودیار گنگ اور خاموش ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے جام مرگ پی لیا ہے ان کی گوہائی گونگے پن سے ہوگئی اہل گورستان ایسے ہمسائے ہیں جوایک دوسرے سے کوئی رابط نہیں رکھتے ایسے دوست ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں بھائی بندی کے اسباب منقطع ہوگئے ہیں حالانکہ یہ سب مجمع ہیں لیکن اکیلے اکیلے ہیں اگر چہ آپس میں دوست تھے لیکن مہچور ہیں یہ لوگ نہ دن کو پہچانتے ہیں نہ رات کو ان میں ہر ایک نے جس شب کوچ کیا تھا وہ ان کے لئے ہمیشگی کازمانہ تھا اگررات تھی تواب اس کا دن نہیں آئے گا اوراگردن تھا تواب اس کی رات نہیں آئے گی وہ شگفتہ اور شادات چہرے زشت اور بدنماہوگئے نرم ونازک بدن خاک ہوگئے اب بدن پر جامہ کہنہ (کفن) پارہ پارہ ہے۔ ہماری خاموش منزلیں (قبریں) ویران ہوتی جارہی ہیں جس کے باعث ہماراندام نازک‘ روئے خوش آب ورنگ زشت بدنما ہوگیا اور ہماری موت قیام ورازترہوگئی ہے۔اس زمین نے کیسے کیسے معزز اور خوش نما خوبصورت اجسام کوکھا لیا ہے۔ جنہوں نے کی زندگی بسرگی تھی جو خوش گزارنی اور عزت کے پروردہ تھے جوغم کے وقت بھی خوش رہتے تھے ناگاہ زماہ نے ان کی مسرت آمیز زندگی کو اپنے کانٹوں سے چھلنی کردیا موت نے بہت قریب سے ان پر نگاہ قہر ڈالی اور موت کی آغوش میں چلے گئے۔
اگرسرار کے پردے تمہاری آنکھوں سے ہٹادئیے جائیں تو تم دیکھو گے کہ وہ تمہیں عجیب حالت میں نظر آئیں گے ان کے کانوں کوز یرز مین جانوروں نے کاٹ بیٹ کررکھ دیاہے وہ اب بالکل بے بہرہ ہیں ان کی آنکھوں میں مٹی کا سرمہ گھلاہواہے او رسرکی ہڈیوں میں پیوست ہوکررہ گئی ہے ان کے ہر عضوبدن پر کہنکی طاری ہوئی رہتی ہے۔نہ ان کے دل ہیں کہ نالہ وفریاد کرسکیں‘ یقینا مروے عبرت کے لئے زیادہ لائق ہیں نہ کہ سبب اختیار ان کا نظارہ کرکے تواضع وفروتنی اختیار کرنا خرومندی ہے نہ کہ اسے وسیلہ فخروار جمندی بنانا۔“
یہ خطبہ انیہائی اہم ہے او رموت کی یاد تازہ کرتا ہے جب وکلاء اپنے سدر کود یکھنے جارہے تھے تو کسے معلوم تھا کہ وہ موت کی منہ میں جارہے ہیں اور اگر بلال کاسی کو قوت گویائی حاصل ہوتی تووہ چیخ چیخ کر کہتا دوست مت آؤمت آؤرُک جاؤ‘ موت کا مہیب شکنجہ تمہارا امنتظر ہے لیکن مو ت تو قوت گویائی کو سلب کرچکی ہوتی ہے درجنوں وکلاء اپنے صدر کے پاس چلے گئے یہ دنیا عبرت کی جاہ ہے اس سے سبق حاصل کروہم سب کے لئے ایک عظیم تر عدالت منتظرہے او رہم سب کو اس کا حساب دینا ہوگا وہاں کوئی P.L.D کام نہیں آئیگی اس عدالت کے فیصلہ اور قلم کے بعد کوئی دوسری عدالت نہیں ہوگی۔ 8اگست کا حادثہ اور المیہ ہمارے لئے سبق کے کئی پہلو دکھا ہے کیا ہم اس کے بعد سنبھلے ہیں۔ 8اگست کے شہداء کو اللہ تعالیٰ اپنے دامن رحمت میں جگہ عطافرمائے اور کوتا ہیوں سے درگزر فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطافرمائے (آمین)