پارلیمنٹ اپناکردار ادا کرے

کسی ملک پر کوئی مصیبت اچانک نہیں آتی،یہ برسوں کی جمع شدہ غلطیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔مسائل بروقت حل نہ کئے جائیں تو بگڑ کر نئی شکلیں اختیار کر لیتے ہیں۔سب جانتے ہیں پاکستان میں انتخابی عمل ہمیشہ دھاندلی زدہ رہا۔دھاندلی کا حجم سمجھنے کے لئے وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی کا قومی اسمبلی میں دیا گیا یہ بیان کافی ہے:
”اگر ووٹوں کی جانچ پڑتال کی گئی تو ہر حلقے
میں 40/50ہزار جعلی ووٹ برآمد ہوں گے“
وزیر داخلہ کا مذکورہ بالا بیان قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے،کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ملکی سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔وزارتِ داخلہ کامنصب ہمیشہ وزیرِاعظم کے قریب ترین اورقابل اعتماد پارٹی رہنما کو تفویض کیا جاتا ہے۔ امن وامان قائم رکھناوزیر داخلہ کے فرائض میں شامل ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کا وسیع جال اس کی نگرانی میں کام کرتاہے۔ انتخابات کے دوران ملک کے چپے چپے پر رونما ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ وزیرداخلہ تک پہنچتی ہے۔وزیر داخلہ کے اعترافی بیان کے بعدمزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے۔ پارلیمنٹ کو وزیر داخلہ کے اعترافی بیان کا 2014میں ہی نوٹس لینا چاہیئے تھا۔واضح رہے ان دنوں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔اس سے پہلے کے انتخابات کو بھی یکے بعد دیگرے جھرلو، چمک کا نتیجہ، انجنیئرڈ اور آراو زدہ قرار دیاگیا۔موجودہ حکومت کو منتخب کی بجائے مقتدرہ کی چنی ہوئی کہا جاتا ہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف میڈیا کے سامنے اقرار کر چکے ہیں کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم اور وزراء کی فہرست مجھے دے دی گئی تھی، میری جیب میں تھی۔ایسے ماحول میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے جس سے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی روایتی خطاب کریں گے۔عام آدمی کوتوقع ہے کہ اس اہم اجلاس سے صدارتی خطاب میں ملک کے طول و عرض میں جاری الیکشن میں دھاندلی کے خاتمے بارے بحث کا ایک مدلل اور دیرپا حل بھی شامل ہوگا۔صدر مملکت ایوان کی رہنمائی کے لئے چیدہ چیدہ نکات ایوان میں پیش کریں گے۔صدر مملکت پورے ملک کے صدر ہیں۔صدر مملکت کاالیکٹرانک ووٹنگ مشین کی افادیت یا نقائص کی نشاندہی بارے غیر جانبدارانہ تجزیہ پارلیمنٹ کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔لیکن اس موقعے پر صدر مملکت کے خطاب میں حکومت کی بیجا تعریف و توصیف سننے کو ملی تو اسے ملک کی بد قسمتی سمجھا جائے گا۔ ای وی ایم ایک متنازعہ مشین ہے۔2018کے نتائج بھی ایک کمپیوٹرائز مشین عوام تک پہنچا رہی تھی۔ابھی نتائج مکمل نہیں ہوئے تھے کہ مشین جام ہوگئی۔کہا گیا اتنا بڑا بوجھ آنے کی بناء پر یہ خلل پیدا ہوا ہے۔ لیکن یہ خلل انتخابات پر ایک سے زائد سوالیہ نشان ثبت کر گیا۔انتخابات داغ دار ہوگئے۔حکومت بے توقیر ہوگئی۔اپوزیشن نے ایک جانب دست تعاون آگے بڑھایا اور دوسری طرف ”سیلکٹیڈ“ہونے کا زہریلا اور چبھتا ہوا طعنہ بھی دیا۔اس طنز کی کڑواہٹ اور چبھن تین سال بعد بھی حکومت کی سماعتوں کا حصہ ہے۔غلطی انسان سے سرزد ہو یا کوئی کمپیوٹر کرے اس کے اثرات پورے سیاسی ماحول کو اذیت ناک بنا دیتے ہیں۔بجٹ اجلاس کے دوران جو تکلیف دہ مناظر عوام نے دیکھے اسی مشینی غلطی کا نتیجہ تھے۔حکومت اور اپوزیشن کو مشینی بدگمانی ورثے میں ملی ہے۔اپوزیشن کو قائل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ واضح رہے یہ کام حکومت کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔الیکشن کمیشن بارے کہے گئے ”اس کوآگ لگا دینے“ جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی الفاظ کسی مہذب معاشرے میں کہنے کی کوئی وزیر جرأت نہیں کر سکتا۔مگر پاکستان میں طویل عرصے تک حکومتوں نے خود کو آئین و قانون سے بالاترسمجھنے کی غلط روایت کو مضبوط تر ہونے دیا، اس کے منفی اثرات کو مسلسل نظر انداز کئے رکھا۔چنانچہ اصلاح احوال انہیں نا گوارگزرتی ہے۔لیکن کوئی معاشرہ لاقانونیت کا بوجھ مستقل طور پرنہیں اٹھاسکتا۔تاہم اصلاحی اقدامات میں باہمی مشاورت کو اہمیت دی جائے۔کوئی فریق اپنی مرضی دوسرے پر مسلط کرنے کی ضد نہ کرے۔اپوزیشن اور حکومت دونوں پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔سب کویاد ہونا چاہیئے کہ ملک کی سلامتی اور استحکام دونوں کا مشترکہ ہدف ہے۔کسی ایک موروثی ملکیت نہیں۔جو کل حکومتی بینچوں پر بیٹھا کرتے تھے، جھنڈا لگی گاڑیوں میں سفر کرتے تھے، آج اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہیں۔کرسی کو مضبوط کہنا اور سمجھنا درست نہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔مختلف تجربات سے گزرنے اور نتائج دیکھنے کے بعد یورپی اقوام اس نکتے پر متفق ہیں۔پاکستان میں بھی جلد یا بدیراسی اصول پر متفق ہونا پڑے گا۔عام آدمی کی خواہش ہے کہ ووٹنگ مشین کے استعمال کرنے یا اسے مسترد کرنے کا فیصلہ باہمی مشاورت سے پارلیمنٹ کرے۔حکومت ووٹنگ مشین کی حمایت میں اپنے دلائل پیش کرے،جبکہ اپوزیشن اپنے خدشات اور ان کی صداقت کے شواہد ایوان کے سامنے بیان کرے۔ عام آدمی کو یقین کی حد تک امید ہے کہ پارلیمنٹ دھاندلی کے خاتمہ کے لئے پائیدار حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس یقین کی وجہ صرف یہ ہے کہ اب معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ اجلاس صرف اور صرف اسی مرکزی مسئلے پر نتیجہ خیزبحث و مباحثہ کرے گا۔خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے پارلیمنٹ صرف نظر نہیں کر سکتی لیکن خارجی مسائل کے پیش نظر داخلی مسائل سے آنکھیں بند نہ کی جائیں۔انتخابات 2023میں ہوں گے، کل یا پرسوں نہیں ہورہے۔عجلت میں کوئی رائے قائم کرنا سود مند نہیں ہوگا۔مشینی ووٹنگ کے مثبت اور منفی پہلو پر تفصیلی بحث کی جائے۔ دونوں فریق اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ امریکہ میں یہ طریقہ رائج ہے یہ بھی درست ہے اور فرانس اور جرمنی میں ووٹنگ مشین مستعمل نہیں اسے بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے،صاف، شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنائے۔ماضی میں کرائے گئے دھاندلی زدہ انتخابات پر الیکشن کمیشن فخر نہیں کر سکتا۔نیب کی طرح اسے بھی پرانا رویہ ترک کرنا ہوگا۔آئینی ادارہ اگر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے گلے میں پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جا سکتے۔ کمیشن کو بھی حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہوگا۔اسی میں سب کا بھلاہے۔ بیجا ضد سے کسی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا، البتہ نقصان سامنے دکھائی دے رہا ہے۔دانشمندی سے کام لیا جائے،بیجا ضد نہ کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں