انسانی حقوق کی خلاف وزیاں

تحریر: جعفر میروانی

دیکھیے! کتنی سادہ سی بات ہے۔ ہر انسان انصاف، امن، محبت اور خوشحالی کا طلب گار ہے۔ ناانصافی، بدامنی، نفرت اور غربت کو برا سمجھتا ہے۔ معاشرے میں تمام قانون، ادارے اور ضابطے اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ انسانوں کو انصاف، امن اور خوشحالی مل سکے اور بدامنی، ناانصافی اور محرومی کا راستہ روکا جاسکے۔بس اسی کا نام انسانی حقوق ہے۔

’حق ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی مطلب ہے، ’درست‘ اور ’صحیح‘۔ گویا انسانی حقوق کا مسئلہ دراصل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں انسانی حقوق سے مراد ایسے قوانین، اقدار اور ادارے ہیں جن پر تمام انسانوں کو یکساں استحقاق حاصل ہے اس ضمن میں بنیادی شرط صرف انسان ہونا ہے۔ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، سماجی مقام، مالی حیثیت اور سیاسی خیالات کے فرق سے کسی فرد کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

انسانی حقوق کی اخلاقی بنیاد سمجھنے کے لیے اخلاقیات کے دیگر نظاموں اور انسانی حقوق میں بنیادی فرق جاننا ضروری ہے۔انسانی حقوق میں اخلاقی اقدار کے ماخذ کی بجائے ان کے نتائج کو اہمیت دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی اصابت اور صداقت ان کے عملی نتائج سے متعین ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی جانچ عظیم ہستیوں کے اقوال سے نہیں کی جاتی۔ انسانی حقوق کی سند کتابوں سے نہیں ڈھونڈی جاتی اور نہ انسانی حقوق کسی ادارے کی توثیق ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ انسانی حقوق انسانیت کے صدیوں پر محیط اجتماعی تجربات کا نچوڑ ہیں۔

انسانی معاشرہ ہر لمحہ جنم لیتی ہوئی نت نئی تبدیلیوں اور کبھی ختم نہ ہونے والے نئے امکانات کا رنگار نگ مظہر ہے۔ انسان ہونے کے ناتے ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو اس طرح منظم اور مربوط کیا جائے کہ ہر نیا مرحلہ تحفظ، انسانی ضروریات کی فراہمی، خوشیوں کے حصول، پائیدار ترقی اور تخلیقی قوت کے اعتبار سے اجتماعی معیار زندگی کو بہتر بنائے۔

انسانی معاشرے نے جنگل سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جنگل میں انسانی زندگی طرح طرح کے خطرات میں گھری تھی۔ جنگل میں انسانی بودوباش پر تین خوفناک حقائق یعنی عدم تحفظ، لاعلمی اور وسائل کی قلت کے سائے بہت گہرے تھے۔ ان تین عناصر نے قدیم انسان کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات تشکیل دی۔ انسانو ںکے انفرادی اور اجتماعی افعال کا پیمانہ ایک سیدھا سادہ اصول قرار پایایعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج ہم اس اصول کو جنگل کا قانون کہتے ہیں۔انسانی تہذیب کے طلوع سے لے کر آج تک انسان کی تمام تر مذہبی، سماجی یا سیاسی کاوشوں کا مرکزی نقطہ یہی جدو جہد رہی ہے کہ جنگل کا قانون ختم کرکے ایسے قوانین اقدار اور معیارات اپنائے جائیں جن کی مدد سے جسمانی، سماجی، معاشی یا سیاسی طاقت سے قطع نظر ہر انسان کے لیے یکساں وقار، مواقع اور ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے…..

اگر ھم انسانی حقوق اور اس کی خلاف ورزی پر بات کرے تو پاکستان میں انسانی حقوق کی رپورٹ کو مرتب کرنے والے کارکنوں نے اعداد و شمار کے شماریاتی تجزیہ کے ذریعہ بتایا ہے کہ جیلوں کی گنجائش سے 133.8 فیصد زیادہ قیدی جیلوں میں بند ہیں اور زیر سماعت قیدیوں کا تناسب 62.1 فیصد ہے۔ جیلوں کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ جیلوں کی بیرکوں میں غیر انسانی ماحول (Unhygienic) سے بیشتر قیدی ایچ آئی وی / ایڈز، ٹی بی اور جلدی بیماریوں کے علاوہ دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کے لیے طبی سہولتیں کم ہیں۔ اس طرح صرف پنجاب میں سزائے موت پانے والے 188 قیدی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

گزشتہ سال تنازعات سے متعلق ہلاکتوں کی تعداد میں خاصی حد تک کمی آئی ہے۔ شماریاتی تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء میں 2,333 افراد ان تنازعات میں جاں بحق ہوئے تھے مگر اس سال 1,444 افراد کی ان تنازعات میں جانیں گئیں۔ اسی طرح عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد کم نہ ہوسکی۔ اب بھی 18 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 2018ء میں یہ تعداد 19 لاکھ تھی۔

ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق کا استدلال ہے کہ گزشتہ سال ایک باقاعدہ منظم طریقہ سے سیاسی منحرفین کی زندگیوں کو تنگ کیا گیا اور آزادئ صحافت پر نظر نہ آنے والی پابندیاں عائد رہیں۔ کئی صحافیوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انھیں حکومت پر تنقیدی رپورٹوں کو مرتب کرانے، شایع اور نشر کرنے میں مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا رہا۔ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے معاملہ کو ختم کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور انسانی حقوق کی ڈاکٹر شیریں مزاری جبری گمشدگی کے خلاف قانون سازی کا عزم کرتی ہیں مگر گزشتہ سال بھی سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔

انسانی حقوق کمیشن کی ڈائریکٹر فرح ضیاء نے اپنے مشاہدہ میں کہا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں سیاسی تنازعات موجود ہیں مگر ان تنازعات کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ غیر مسلم شہریوں کے عدم تحفظ کوختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے۔ غیر مسلم نوجوان خواتین کی زبردستی مذہب کی تبدیلی، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ گزشتہ سال جاری رہا۔ اسی طرح ان مذہبی اقلیتوں کو بھی ملازمتوں کے حقوق میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ایچ آر سی پی ہر سال انسانی حقوق کی پامالی کے حوالہ سے سالانہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔

آخر میں معاشرے کے مراعات یا فتہ اقلیتی گروہ نے اپنے مفادات کی حفاظت کرنے اور موجودہ نظا م کو قائم رکھنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے ایجاد کیے ہیں اور انہیں قانونی، آئینی اور ثقافتی جواز مہیا کیے ہیں جن سے انسانی نا برابری قائم رہ سکے۔انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ذات، نسل، رنگت، مذہب، جنس، دولت، زبان، سماجی حیثیت یا ثقافتی شناخت کی بنیاد پرمعاشرتی امتیاز کو مضبوط کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں