پوسٹر مافیااور بزنجو حکومت
تحریر: رشید بلوچ
غالبا بیتے سال کی بات ہے کوئٹہ کی خنک شام تھی موسم سرمایہ نے تازہ تازہ انگڑائی لی ہوئی تھی، شال کا یہ گرم،سرد موسم نزلہ،زکام، فلو، ہلکا بخار جہیز میں ساتھ لیکر آتاہے، یہ ایسا موسم ہے دھوپ اور چھاؤں دونوں زیادہ دیر تک سہے نہیں جاسکتے،کچھ یار دوست کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، سبز چائے کی چسکیاں لی جارہی تھیں، دیوان میں بلوچستان کی سیاسی بحث چڑی ہوئی تھی، جام کمال خان مضبوط وزیر اعلیٰ کے طور پر مانے جارہے تھے، شریک مجلس کی اکثریت کا خیال تھا کہ جام کمال خان نہ صرف موجود ہ مدت پورا کریں گے بلکہ آنے والے 2023کے عام انتخابات میں بھی وزیر اعلیٰ کے منصب قائم و دائم رہیں گے بلکہ بعض شرکاء مجلس کا یہ بھی خیالی دعویٰ تھا، جام صاحب مشہور زمانہ ڈاکٹرائن کے نقطے تحریر میں مملکت پاکستان کے مستقبل کے وزیر اعظم ہوں گے، حاضرین مجلس کے بعض لوگ بلوچستان کی پسماندگی کا سارا کچرہ سرداروں م نوابوں کے دستاروں پر انڈیلنے کی پرانے بیانیہ کو دہر ا کر داد شجاعت سمیٹنے کے آرزو مند تھے،کسی نے72سرداروں کا زکر خیر چیڑ دیا،جن تین سرداروں نے بلوچستان کا بیڑھ غرق کر کے رکھا تھا وہ تو اب اس دنیا میں رہے نہیں، پیچھے رہ جانے والے72سردار تو سرکار کے لے پالک ہیں انہیں موم کی جسم کی طرح گھما پھرا کر مختلف سیاسی سانچوں میں فٹ کرا دینے کا کیمیائی تجربہ ناسا کے سائنس دانوں سے بھی بازی لے جا چکا ہے اب تو بلوچستان میں ترقی کی شہد و دودھ بہنے چاہئے، سیاسی,, فلسفانہ،، بحث کی گھونج ابھی تھمی نہیں تھی،صدر مجلس کے دائیں بازو میں بیٹھے انکل نے کھنکارتے ہوئے گلہ صا ف کرنے کی کوشش کی،سب ان کی طرف متوجہ ہوئے،آپ لوگوں کی بحث کی ا پنی جگہ اہمیت ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب سرداروں سے متعلق عوام کے خدشات کو دور کرنے وقت آگیا ہے،اب سرداروں کو عام لوگوں کے پیچھے جانا ہوگا، میر ے خیال سے ممکن ہے آنے والے وقت میں سردار نواب عام لوگوں کے پس منظر میں دیکھائی دیں گے،سرکار و سردار کایہ ہنی مون اب ختم ہونے کو ہے،سیا سی قطار میں سردار،نواب آگے کے بجائے پیچھے نظر آئیں گے،بظاہر تو مونچ والے انکل کی باتوں میں کوئی منطق نظر نہیں آرہی تھی، یقین کرنے کو بھی کوئی مواد موجود نہیں تھا لیکن ٹھیک ایک سال بعد انکل کی کہی ہوئی باتوں میں حقیقت کی جھلک نظر آنے لگی،پرائے کے گھر میں مقیم میر قدوس بزنجو کی رہائش گاہ کی لمبی چھوڑی چار دیواریوں کی ہرایک اینٹ گواہی دینے کو تیار ہے،کون کہاں اور کس قطار میں کھڑا تھا۔۔؟
راقم نے چند ماہ پہلے انتخاب میں لکھا تھا کہ ظہور بلیدی ممکنہ طور پر جام کمال خان کی جگہ وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں،اسی تحریر کی بنیاد پر بقول ظہور بلیدی انکے اور جام کمال خان کے درمیان چاشنی بھرے تعلقات میں کھڑواہٹ آ گئی تھی، جام صاحب نے اسے سازش گردانا تھا، یہ سازش نہیں بلکہ دبے انداز میں انکو چلتا کرنے کے اشارے تھے، جام کما ل کمال خان کے خلاف,, کو،، پختہ ہونے کے بعد وزارت اعلیٰ کیلئے میر قدوس بزنجو کے علاوہ ظہور بلیدی بھی زیر غور تھے، ظہور بلیدی خود کو میر قدوس بزنجو سے بہتر لکھنے، بولنے والے امیدوار کے طور پر کلکولیٹ کر کے بیٹھے ہوئے تھے، تعجب کی بات تو یہ تھی کہ آخری دنوں تک جام صاحب سمجھنے کو تیار ہی نہ تھے کہ انکا اقتدار اپنی آخری سانسیں گن رہاہے،آکسیجن بھی اس وقت چڑھانے کی کوشش کی گئی جب حکومتی ڈھانچے سے سانس نکل چکی تھی،جام صاحب ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے زیادہ تر سیاسی مبصرین بھی 25اکتوبر تک یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ جام حکومت کا,, رام نام ستے،، ہونے کو ہے،ممکن ہے میر قدوس بزنجو کی جگہ ظہور بلیدی کے سر قرعہ وزارت اعلیٰ بیٹھ جاتا لیکن معترضین ظہور بلیدی کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے،ان کے بارے میں عام تاثر یہ دیا گیا کہ بندے میں پبلک ڈیلنگ کا ہنر نہیں ہے،گزشتہ تین سالوں میں ایم پی ایز اور وزراء کے ساتھ تعلقات کی فیوز اڑی ہوئی بلب کی طرح رہے،باپ اور اپوزیشن دونوں کی رائے ظہور بلیدی کے حوالے سے پازیٹیوں نہیں رہی، دوران بغاوت میں نے کسی موئثر بندے سے پوچھا،آپ کے خیال میں اگلا وزیر اعلیٰ کون ہوگا، انہوں نے دو نام گنوائے، جب میں نے ظہور بلیدی سے متعلق پوچھاتو انہوں نے بھنوئیں چڑھا دیں، میں سمجھ گیا معاملہ ظہور بلیدی سے متعلق بہتر نہیں۔
خیر سے اب میر قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بن گئے
ہیں،یہ تحریر چھپنے تک 14رکنی کابینہ تشکیل پا چکی ہوگی، دو مہینوں سے منجمد سرکاری مشینری دھواں دیتی ہوئی پارنی گاڑی کی مانند چل پڑے گی،امید بھرے مایوس عوام آسرا لگائے بیٹھے ہیں کہ انکی مشکلات میں کمی آئے گی، نئی حکومت کی پرانی کابینے کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ لوگوں کی امیدیں زیادہ بڑھ گئی ہیں، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی بزنجو حکومت لوگوں کی امیدوں پر کیسے پورا اترے گی۔؟ جہاں تک حقیقت پسندی کا تعلق ہے کوئٹہ کی بڑی سڑکوں پر وزیر اعلیٰ میر قدوس بزنجو کے ساتھ انہیں لوگوں نے بڑی بڑی تصویریں آویزاں کر رکھی ہیں جو اس سے پہلے جام کما ل خان، ڈاکٹر مالک بلوچ، نواب ثنا اللہ زہری کی اتنی ہی بڑی سائز کی تصویریں لگا کر خوش آمد کرتے رہے ہیں،یہ خوش آمدی مافیا کل کسی اور کی تصوریں سڑکوں پر لٹکا کر اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کریں گے،بلکہ ہنسنے والی بات یہ بھی ہے کہ25اکتوبر سے پہلے تک جام کمال خان کے حق میں ریلیاں نکال کر ہلکان ہونے والے آج کمال خان کو ظالم و جابر بتا کر میر قدوس بزنجو کے حق میں تعریفوں کے برج خلیفہ تعمیر کر رہے ہیں،یہ ایک ایسا ما فیا ہے ان کے چنگل سے نکلنا بڑے دل و گردے کا کام ہوگا


