خفیہ معاہدے خفیہ منصوبے

تحریر: انورساجدی
سوشل میڈیا پر متحرک کئی نامور بلاگرز نے تحریک لبیک اور تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان ایک نام نہاد خفیہ معاہدہ کو لیکر کافی فکری بحث اور مستقبل کے سیاسی وانتخابی امکانات کے مسئلہ کو چھڑا ہے۔متنازعہ مگر بے باک صحافی اسد طور نے لکھا ہے کہ مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کی بیخ کنی کے لئے تحریک لبیک کو آر ایس ایس کے پیرآئے پر آگے بڑھایا جارہا ہے۔لیکن کسی نے اس سوال کا جواب نہیں بتایا کہ اگر تحریک لبیک آر ایس ایس بنے گی تو بھارتیہ جند تا پارٹی کا رول کس کو ملے گا۔
آر ایس ایس گروپ ایک پرانی تنظیم جو ہند و انتہا پسند،مذہبی اسکالر سوار کر کے نظریات پر استوار ہوئی تھی لیکن اس تنظیم نے اپنے وجود کا بھرپور احساس دلانے کیلئے مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کا بڑا قدم اٹھایا اگرچہ اس سانحہ کے چند سالوں تک گاندھی کی جماعت کانگریس ہندوستان میں چھائی رہی لیکن 1980ء کی دہائی میں کانگریس کی شکست اور پہلی بار جتنا پارٹی کی حکومت کے قیام نے گویا آر ایس ایس کے نظریات پر عوامی پسندیدگی کی مہر ثبت کر دی بعد ازاں ایک وقفہ کے سوا ہمیشہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات کی بالادستی رہی اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کی پیرانہ سالی اور کمزوری کی وجہ سے نریندرا مودی نے بی جے پی کی قیادت سنبھال لی مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک طرف مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو ہوا دی تو دوسری طرف گجرات کو ہندوستان کی سب سے خوشحال اور جدید ریاست میں تبدیل کر دیا احمد آباد سورت اور راجکوٹ کو اتنی ترقی دی کہ وہ ہندوستان کے اہم اور بڑے صنعتی شہر بن گئے مودی نے پہلی میٹروٹرین احمد آباد میں چلائی ان کامیابوں کے ساتھ انہوں نے ایسے حالات پیدا کئے کہ مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا جن میں گودرہ کا سانحہ بھی شامل ہے اس کے بعد مودی نے نئی دہلی مراجعت کی اور پورے ملک میں انتخابی کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں وہ وزیراعظم بن گئے ان کی کامیابی نے انتہاء پسند ہندو طبقہ کو نئی زندگی بخشی اور انہوں نے ساروار کر کے اس نظریہ کی پوری قوت کے ساتھ ترویج شروع کر دی کہ ہندوتوا بھارت کا مستقبل ہے اور یہاں رہنے والے ان تمام لوگوں کو ہندو بننا پڑے گا جو باہر سے آنے والے حملہ آوروں کی وجہ سے مسلمان یا عیسائی ہو گئے تھے مودی نے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش کو ایک جنونی آدیتیہ ناتھ جوگی کے حوالے کر دیا جہاں بابری مسجد کو ختم کر دیا گیا۔
پاکستان میں اگرچہ بریلوی مکتبہ کافی عرصہ سے موجود تھا تاہم 1947ء میں مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد کے بعد اسے سیاسی پلیٹ فارم میسر ہوا قیام پاکستان کے دو دہائی بعد مولانا محمد شفیع اوکاڑوی جن کا تعلق یوپی سے تھا اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اس متکبہ فکر کو ایک سیاسی پارٹی جمعیت علمائے پاکستان کی شکل دی 1970ء کے عام انتخابات میں اس جماعت نے پہلی مرتبہ حصہ لیا اور دیوبندی مکتبہ فکر سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی 1977ء میں جب امریکہ نے مذہبی جماعتوں کے تعاون سے بھٹو کے خلاف جو عوامی تحریک چلوائی مولانا نورانی کا مخصوص انداز خطابت لوگوں کیلئے کشش رکھتی تھی تاہم اس جماعت سے تعلق رکھنے والے پی این اے کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ کی بھٹو سے نصف شب کو خفیہ ملاقات نے مولانا نورانی کیلئے مشکل صورتحال پیدا کر دی خاص طور پر جماعت اسلامی نے اس واقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا اور رفیق باجوہ کو عہدے سے برطرف کر کے پروفیسر غفور احمد کو الائنس کا سیکرٹری جنرل بنایا۔
اگرچہ جنرل ضیاء الحق نے ہر طرح کے مذہبی حلقے کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا تاہم ان کی نظر کرم میاں طفیل محمد کی وجہ سے جماعت اسلامی پر زیادہ تھی بعد ازاں جب یہ ثابت ہوا کہ جنرل ضیاء الحق نہ تو اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہیں اور نہ ہی وہ عام انتخابات جلدی کرنے کے حق میں تھے تو جے یو آئی نے راستے الگ کر لئے۔
اس وقت تک دیو بندی مکتبہ فکر نے زیادہ طاقت پکڑ لی اور جب افغانستان میں سوویت مداخلت ہوئی تو ضیاء الحق نے ان کو استعمال کیا لیکن گلبدین حکمت یار کی وجہ سے جماعت اسلامی کا پلڑا بھاری تھا جے یو آئی کی اس وقت سنی گئی جب 1996ء میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا یہ سارے طالبان جے یو آئی کے مدارس کے نوجوان تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے افغان صورتحال کی وجہ سے ایم ایم اے بنا کر مذہبی عناصر کو موقع دیا کہ وہ پشتونخواء اور بلوچستان میں حکومت تشکیل دیں جے یو آئی نے نورانی میاں کی جماعت کو اقتدار میں کوئی حصہ نہیں دیا کیونکہ وہ انتخابی کامیابی حاصل نہ کر سکی تھی کیونکہ نورانی میاں کاغذ پر ایم ایم اے کے سربراہ تھے البتہ جماعت اسلامی کو پشتونخواء میں کچھ حصہ دیا گیا اس صورتحال نے بریلوی مکتبہ فکر میں تشویش اور ہیجان پیدا کر دیا۔
نورانی میاں کی موت کے بعد یہ مکتبہ فکر بے سہارا اور یتیم ہو گیا ایسے میں ایک سیکورٹی گارڈ نے گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کو اسلام آباد میں قتل کر دیا حالانکہ سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاچیر ایک راسخ القیدہ مسلمان تھے اور انہوں نے غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد جیل سے وصول کیا تھا اور ان کی تجیز وتکفین کا بندوبست کیا۔
ممتاز قادری کی سزائے موت کے بعد اٹک سے تعلق رکھنے والے آتشیں خطیب علامہ خادم حسین رضوی نے نہ صرف ان کا مقبرہ بنوایا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ وہ اس کا بدلہ لیں گے اس کے بعد انہوں نے بریلوی مکتبہ فکر کو نئی زندگی دی لیکن یہ طبقہ تشدد کی طرف مائل ہوا انہوں نے فیض آباد میں کئی دن تک دھرنا دیا۔
ن لیگ کے عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو مجبور کیا کہ وہ ایک ہتک آمیز معاہدہ کرے اس دھرنے سے ثابت ہوا کہ اس تنظیم کو مستقبل میں استعمال کیا جائیگا اس کا ثبوت حالیہ دھرنا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت نے ایک خفیہ معاہدہ پر دستخط کئے اس معاہدے کو بھی طاقت کے عناصر کی پشت پناہی حاصل تھی اگرچہ تحریک انصاف اور تحریک لبیک کے نظریات میں زیادہ فرق نہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ تحریک انصاف نے آئندہ انتخابات میں ٹی ایل پی سے انتخابی اتحاد کی خواہش کا اظہار کیا ایسا اتحاد تو ممکن ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ ٹی ایل پی کی ایک بڑے میدان میں اتارا جائیگا کئی مخالف جماعتوں پر ان کے ذریعے کفر کے فتوے دائر کرائے جائیں گے تاکہ انتخابات ان کے لئے ناہموار ہو جائے۔
خاص طور پر اے این پی اور پیپلز پارٹی کے گرد گھیرا تنگ کیا جائیگا عین ممکن ہے کہ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود سیاسی ضرورت کے طور پر مسلم لیگ ن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے اگرچہ دو متحارب فریقین کے درمیان مقابلہ تو ہو گا لیکن یہ خواہش اپنی جگہ موجود ہے کہ انتہاء پسندی کو ہوا دے کر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو آؤٹ کر دیا جائے اگر ایسا ہوا تو تحریک لبیک کو بیک وقت آر ایس ایس اور بی جے پی بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن جے یو آئی یہ فیصلہ تسلیم نہیں کرے گی کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کرے گی بلکہ ن لیگ کو بھی ساتھ لے کر چلے گی لیکن سیاسی فضاء مکدر ہو گی ملکی صورتحال زیادہ خرابی کی طرف جائے گی لگتا ہے کہ طاقت کے عناصر کو اس صورتحال کی زیادہ پرواہ نہیں ہوگی ہو سکتا ہے کہ ان کا منصوبہ ناکام ہو جائے کیونکہ انتخابات میں کافی وقت ہے اور درمیان میں اہم تبدیلیاں حالات کا رخ موڑ سکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں