اپوزیشن کے لئے لمحہئ فکریہ

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانامحمد شمیم کے لندن میں تصدیق کرائے گئے بیانِ حلفی کی پاکستان کے اخبارمیں اشاعت کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی،یقینا مسلم لیگ نون کی قیادت کی توقعات کے برعکس تھی۔اس کا احساس نون لیگی قیادت کواس وقت ہوا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعلقہ اخبار کے رپورٹر، ایڈیٹر اور مالک کو توہینِ عدالت کے الزام میں طلب کر لیااور آئندہ پیشی سے قبل ’شوکاز‘کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔بیان حلفی دینے والے جسٹس (ریٹائرڈ) خود نہیں آئے، ان کا بیٹا ان کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوا۔ اس طرح جسٹس (ریٹائرڈ)رانا شمیم کے بیٹے بھی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے اور ٹی وی چینلز پر ان کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے بعض سوالات کا جواب دیتے ہوئے تسلیم کیاکہ ان کے مؤکل(رانا شمیم)سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوست، نون لیگ کے عہدیدا ر رہے ہیں۔انہوں نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے یہ انکشاف بھی کر دیاکہ ان کے والد مستقبل میں پاکستان کے صدر بھی بن سکتے ہیں۔ایک وکیل کی حیثیت سے انہیں یادہونا چاہیئے تھا کہ وہ ایک حساس نوعیت کے مقدمے میں مدعا علیہ کی وکالت کررہے ہیں،مقدمے سے ہٹ کر انکشافات ان کے مؤکل کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں،ایکوکیل کے طور پر محتاط گفتگو کرنی چاہیئے تھی۔لیکن غیر محتاط گفتگو کے نتیجے میں کھیل بگڑ گیا۔نون لیگ کی نائب صدر نے رانا شمیم کو اپنا وکیل تبدیل کرنے کی ہدات کردی، چنانچہ اگلی پیش پر ان کے صاحبزادے بطور وکیل پیش نہیں ہوئے۔سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان جسٹس رانا شمیم خود پیش ہوئے اورعدالت کو بتایا کہ ان کے وکیل لطیف آفریدی ہیں،وہی شوکاز کا جواب جمع کرائیں گے۔بیان حلفی کی اشاعت کے بارے میں عدالت کے روبرو کہاکہ انہیں حیرت ہے سربمہر اور لندن کے لاکر میں جمع کرایا گیا بیانِ حلفی اخبار تک کیسے پہنچا؟عدالت نے انہیں یاد دلایا کہ وہ متعلقہ رپورٹر کو بتا چکے ہیں کہ یہ بیانِ حلفی ان کا ہے۔یہ سن کر رانا شمیم نے جواب دیا کہ یہ تصدیق میں خبر چھپنے کے بعد کی تھی۔اسکے ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو بتایا ابھی انہوں اخبار نہیں پڑھا اس لئے اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بیانِ حلفی کون سا ہے؟چنانچہ معزز عدالت نے رانا شمیم کو ہدایت کی: ”پانچ دن میں شوکاز کا جواب اور اصل بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرادیں اور 7دسمبر کوعدالت میں سماعت کے لئے حاضر ہوں“۔اب جو کچھ پیشرفت ہوگی آئندہ پیشی کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ مدعا علیہ سابق چیف جسٹس ہیں، انہوں سابق چیف جسٹس کے خلاف بیان حلفی لندن کے نوٹری پبلک کے روبرو دیا ہے،تاحال ردالت میں جمع نہیں کرایا گیا،اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں مدعا علیہ خود بے خبر ہے،مقدمہ حساس نوعیت کا ہے، زیرسماعت ہے لہٰذا کوئی رائے زنی مناسب نہیں، شواہد کی روشنی میں فیصلہ مجاز عدالت سنائے گی۔دو چار روز انتظار کیا جانا چاہیے۔مگر بادیئ النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ نون کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔علاوہ ازیں حکومت نے پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اپوزیشن ای وی ایم کے استعمال کو پری پول دھاندلی کہتے ہوئے مسترد کر چکی ہے، عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے بھی آئندہ لائحہئ عمل طے کرنے کے لئے سربراہی اجلاس بلارکھا ہے۔ دومبر کے وسط میں حکومت نے افغانستسان کے عوام کو دریش مشکلات کے تناظر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کااجلاس اسلام آباد میں بلا لیا ہے۔ایسے موقع پر حکومت چاہے گی کہ اسلام آباد یا ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان کی صورت حال خراب نہ ہو۔ ہمسایہ ملک افغانستان کے عوام کو غذائی قلت، موسمیاتی شدت اور دیگر مالیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ انسانی مسئلہ ہے، اسسے آنکھی بند نہیں رکھی جاسکتیں۔امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالر بینکوں میں منجمدکر دیئے ہیں۔عالمی برادری ایک سے زائد بار کہہ چکی ہے:”اپنے بنیادی مطالبا ت یا شرائط منوائے بغیر افغان طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کرے گی“۔افغان طالبا ن اپنی تہذیب و ثقافت کے برعکس یورپی سماجی اقدار کے ہم پلہ آنے کی ہمت نہیں کر رکھتے۔اپنے دیرینہ منشور، اور طے شدہ حکمت عملی میں یکدم تبدیلی لانا مناسب نہیں سمجھتے۔عالمی برادری سے کچھ مہلت مانگ رہے ہیں،عالمی برادری کو چاہیے کہ اس ضمن میں فوری نفاذ کاتقاضہ ترک کر دے۔ہر ملک اپنی حدود میں مقتدر اور بااختیار ہے،جیسا چاہے نظام اپنائے،اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی تہذیب و ثقافت سے دسبردار ہو جائے اور وہی معاشرہ قائم کر لے جو یورپ اور امریکہ کو پسند ہے۔تاہم اٖفغان حکومت کو یہ ضمانت دینی ہوگی کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گی۔خواتین کو تعلیم،ملازمت اور کاروبار کی اجازت دے گی۔ اور حکومت سازی میں تمام علاقائی، اور لسانی اکائیوں کو نمائندگی دی جائے گی۔عالمی برادری یہ حقیقت فراموش نہ کرے کہ افغانستان میں 20برس تک غیر ملکی تسلط کے خلاف جنگ لڑی گئی ہے۔عالمی برادی جس وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینے کا جو مطالبہ کر رہی ہے س پر عمل درآمد آسان نہیں۔20سال تک غیر ملکی حملہ آوروں کی حمایت کرنے والوں کو اتنی عجلت میں اپنی کابینہ میں با اختیار وزیر کی حیثیت میں جگہ دینا حددرجہ مشکل اور ناقابل عمل اقدام ہے۔چند دنوں یاہفتوں میں شکوک و شبہات دور نہیں ہوتے، ذہنی ہم آہنگی اورقربت بڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ 31اگست 2021تک یہ لوگ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے آلہئ کار کی حیثیت میں افغان طالبان پر بمباری کر رہے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ یہ 20سالہ خانہ جنگی کاخاتمہ نہیں تھا کہ متحارب فریق جرگہ کے فیصلے کو مانتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔امریکہ نے د وحہ معاہدے کے16ماہ بعد کابل خالی کیا ہے،اگر یہ کام اتنا ہی آسان اورضروری تھاتو 16ماہ کے دوران کر لیا جاتا۔ امریکہ افغان طالبان سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ اس نے اپنی فوجی نوعیت کی انتہائی اہم بگرام ایئر بیس خالی کرتے وقت اشرف غنی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا، رات کی تاریکی میں روانہ ہوگئے،اگلی صبح ناشتہ پہنچانے والوں کو علم ہوا کہ ناشتہ کرنے والے افغانستان سے جا چکے ہیں۔زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے۔بے جا اور ناقابل عمل ضد نہ کی جائے۔امریکہ اور اس اتحادی شکست خوردہ فریق ہیں، فاتح فریق کو ڈکٹیٹ نہیں کرایا جاتا، جو مل جائے اسی پر قناعت کی جاتی ہے۔دوحہ معاہدہ پڑھا جائے۔اس سے باہر نکل کر نئے مطالبات نہ کئے جائیں۔اور اگر یہ تینوں مطالبا دوحہ معاہدے کا حصہ ہیں، تو افغان حکومت کو اس معاہدیپر بلاتاخیر عمل کرنا چاہیئے، او آئی سی بھی دوحہ معاہدے میں سہولت کار تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں