دلائل اور مغالطے

راحت ملک
حکومت نے کچھ مبہم دلائل جو دراصل علماء اکرام کا دباو تھا کے ذریعے مساجد میں اجتماعی عبادت نماز فرض و تراویح کی ادائیگی کے لیے بیس نکات پر مشتمل معاہدہ طے کیا ہے۔
جس میں چند شرائط کے تحت۔ تراویح و نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔
مثلاً پچاس سال سے زائد اور بیس سال سے کم عمر افرادایسی عبادت میں شریک ہونے کے اہل نہیں ہونگے۔
اس شرط کوحکومت کورونا کے سدباب کے معقول بندوبست کی دلیل بیان کررہے ہیں۔
کیامساجد کے دروازے پرنمازیوں کے شناختی کارڈز دیکھ کر داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ نیز یہ کہ اس طرح کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مسجد انتظامیہ نبھائے گی یا سرکاری انتظامیہ؟؟
حکومت کے اقدام کی معقولیت کو مدلل کہا جا سکتا ہے۔ یہ محض جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے پیش کیا جانے والا مغالطہ ہے؟
وفاقی حکومت مانتی ہے کہ 25 اپریل سے 10 مئی تک کا عرصہ کورونا کے پھیلاؤ کے عروج کا وقت ہوگا۔ اگر اس موقف کو معقول بیانیہ مان لیا جائے تو پھر ان مخصوص ایام میں لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے فیصلے کو مدلل کہا جانا چاہیے یا ذہنی مخمصہ و مغالطہ۔۔۔۔کیونکہ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کے لیے غربت مالی پسماندگی سے وابستہ خطرات سے بچنے کی بھی دلیل کو بھی سہارا بنارہی ہے۔اس اعتراف کے ساتھ کہ کورونا سے بچاؤ صرف اور صرف سماجی فاصلے سے ہی ممکن ہے۔ تو یہ بھی نامعقول مغالطہ تصور ہوگا۔مدلل دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔
چند روز قبل امریکہ سے دریافت شدہ حکومتی ترجمان لاک ڈاؤن سے جڑے مضر اثرات پر مبنی دلائل کی گل افشانی فرمارہے تھے۔
ارشاد فرمایا……! پاکستان لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا یہاں غریب بستیوں میں غربت کی وجہ سے ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ لوگ رہتے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں وہ کیسے گزارا کرینگے!!
منطقی نتیجہ فرمان ٍ گل یہ تھا ان افراد کو گھر سے نکل کر کام کرنے روزگار کما کر زندہ رہنے کا موقع دینا وزیراعظم پاکستان کا فکری وژن ہے اسی لیے وہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانا چاہتے ہیں۔
اس دلیل میں مغالطہ یہ ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اگر مذکورہ افراد کو دن بھر محنت مزدوری کا موقع ملے گا تو وہ بھوک کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہونگے البتہ اس افلاطونی دلیل پر عمل کیا جائے تو ان لوگوں کی رہائش جو ایک کمرے پر مشتمل ہوتی ہے۔ رات کو کشادہ ہوجائے گی وہی آٹھ افراد جو دن بھر کمرے میں گزارہ نہیں کر سکتے رات جب سوئیں گے تو صبح وہ بالکل صحت مند ہونگے اور یہی خود فریبانہ یقین کرا یا گیا تھا کہ گھر سے باہر نکل کر روزگار کماتے وقت وہ کورونا سے بالکل متاثر نہیں ہونگے۔ یہ بحث بھی فکری مغالطوں پر مبنی سرکاری دانش کی عکاس تھی ستم ظریفی یہ پروگرام کے اینکر سمیت حزب اختلاف کے رہنماوں نے بھی سرکاری دلیل میں موجود مغالطے کی نشاندہی نہیں کی جس سے سماجی شعور کی درماندگی کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے۔
فکری ذھنی خلفشار اور مغالطوں پہ استوار حکومتی رویے کے دیگر پہلو بھی قابل ٍ توجہ ہیں۔
مثال کے طور پربلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے سے گریز کیا جارہا ہے۔اجلاس کے لیے اپوزیشن ارکان نے آئین و اسمبلی قواعد کے مطابق درخواست جمع کرائی ہوئی ہے۔
ایسی ہی درخواست کوپندرہ دن قبل یہ اعتراض لگا کر مسترد کر دیا تھا کہ مذکورہ درخواست اسمبلی سیکرٹریٹ کے سیکرٹری کے نام نہیں لکھی گئی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر وجوہات بھی بیان کیے گئے تھے ظاہر ہے کہ وہ سب اس قانونی تقاضے کی انجام دہی سے انکار کے لیے معقول دلائل نہیں تھے۔ اپوزیشن نے اجلاس کے لئے دو بار درخواست جمع کرائی قانونی اعتراض بھی دور کر دیا مگر شنوائی تا حال ممکن نہیں۔
میرا خیال تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ سیکرٹری اسمبلی کا پہلا خط پابند کر گیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے نئی درخواست دی تو اجلاس بلانا لازم ہو جائے گا وہ تما عذر بے معنی ہوجائیں گے جن کا جناب سیکرٹری نے اپنے خط میں حوالا دیا تھا۔ شومئی قسمت یہ خیال بھی راگانی کی نذز ہو گیا۔
حکومت نئی ریکوزیشن پر بھی اجلاس طلب کرنے سے فرار کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت صوبے میں کورونا کے داخلے سے لے کر اب تک جو اقدامات کیے ہیں یا جو دعوے کررہی ہے ان پر جمہوری پلیٹ فارم پر مباحثے سے بچنا چاہتی ہے۔
وہ طبی عملے کو حفاظتی سازوسامان کی فراہمی بارے حقائق منظر ٍ عام پر لانے سے گریزاں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ کہ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری کی جارہی ہے۔
یہ عذر بے معنی اور عملی صورت حال کے منافی ہے۔
کہ کورونا کے دوران بطور حکمت عملی سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے اسمبلی اجلاس بلانا مناسب نہیں ہوگا۔
آج کے اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جناب وزیراعلیٰ کی صدارت میں محکمہ صحت کے افسران کے اجلاس تھی جس میں سماجی فاصلے کے تقاضوں کے برعکس شرکاء مجلس کی نشستوں کے درمیان فاصلہ نظر نہیں آرہا نہ ہی شرکاء نے ماسک پہنے ہیں نہ دستانے۔
اس اجلاس میں کم و بیش بیس افراد موجود ہیں۔ اگر اس طرح کے انتظامی اجلاس منعقد ہو سکتے ہیں تو صوبہ کے سب سے ممتاز پالیسی ساز مجاز ادارے اسمبلی کا اجلاس کیوں منعقد نہیں ہو سکتا جبکہ صوبائی اسمبلی میں نصب شدہ نشستوں کی تعداد و انداز اراکین شرکاء کو سماجی فاصلے کی سہولت بھی مہیا کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔
اسمبلی اراکین ایم پی اے ہاسٹل میں قیام فرمائیں تو ایک کمرے میں مناسب طور طبی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اراکین ہاسٹل کی اندرونی راہداری سے گزرتے ہوئے اسمبلی ہال میں جمع ہو سکتے ہیں۔ مگرحکومت ناقابل فہم استدلال کے ذریعے آئین کے منافی عمل کررہی ہے۔
اس طرز عمل سے شبہ پیدا ہو رہا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے لیے بھی اجلاس سے گریز کیا جائے گا بجٹ مئی میں پیش ہونا چاہیے تاکہ جون میں نئے مالی سال سے قبل صوبے کا نیا بجٹ منظور ہوچکا ہو۔
مذکورہ گریز پائی فرار و اجتناب کے لیے جو دلائل دئیے جارہے ہیں وہ عقل و دانش کے برعکس مغالطوں پر مبنی ہیں کیا یہ نتیجہ ِفکر درست نہیں؟
ثانوی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس آفت کے دوران ملک بھر میں پارلیمانی اداروں کو غیر فعال کرکے ان کی بے توقیری کے رواں سلسلے جو برقرار رکھا جا رہا ہے جو زیادہ تشویشناک ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں