تولنے والی آنکھ کہاں سے لائی جائے؟

جمہوریت کے حوالے سے روز اول سے ہی دو متضاد اور متصادم آراء نے جنم لیا،جیسا کہ ہر نئی ایجاد پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ریل پر سفر کرنے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جاتی، اس کا رشتہ شیطان سے جوڑا جاتا،پھر یہی سلوک لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ کیا گیا۔بلکہ ایک مسلک والے آج بھی نماز ادا کرتے وقت لاؤڈ اسپیکر بند کر دیتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ غیر مسنون ہے۔ہمارے دور تک پہنچتے پہنچتے جمہوریت نے کئی مدارج طے کئے، متعدد بار قانون سازی ہوئی،جمہوریت نے جن ممالک میں جنم لیا وہاں بھی اسے ارتقائی منازل طے کرنا پڑیں۔ 2020کے صدارتی انتخابات تک اطمینان بخش صورت دیکھنے میں نہیں آئی، ہارنے کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان صدر خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا۔اراکین پارلیمنٹ اور اسپیکر خوف زدہ ہوکر اسدھر ادھر بھاگتے دیکھے گئے۔نو منتخب امریکی صدر سے پوچھا گیا: ”اب کیا ہوگا؟“ انہوں جواب دیا: ”ذمہ دار ادارے خالی کرائیں گے“۔ وہاں بھی گنتی کیسے کرائی جائے والا سوال دو سو سال بعد بھی زیر بحث ہے۔صدر بش اور الگور کے درمیان آخری سیکنڈ تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ گنتی ہاتھ سے کی جائے یا انسانی ہاتھ یہ کام کریں؟عدالتی فیصلے پر ہارنے والے امیدوار (الگو) کہ تبصرہ تھا:”یہاں سوال میری جیت ہار کا نہیں،میں چار سال بعد جیت سکتا ہوں، اصل سوال عدالت کی دو سو سالہ ساکھ کا ہے، یہ خراب ہو گئی تو اس کا ازالہ کبھی نہیں ہوسکے گا“۔ پاکستان میں صاحبان معاملہ ابھی عدالتی ساکھ والے سوال کو اہم سمجھنے والی منزل تک نہیں پہنچے۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی پوچھا جاتا ہے: ”مجھے کیوں نکالا؟“، شاید دو چار انتخابات کے بعد یہ منزل آجائے!!!جمہوریت کا سفر آہستہ اور صبر آزما ہے۔امریکی دانشور بھی گنتی کی ہیرا پھیری میں اتنے محو ہوگئے کہ انہیں افغانستان میں لڑی جانے والی بیس سالہ جنگ کے بارے میں 31اگست سے آج 26دسمبرتک علم نہیں ہو سکا:”امریکہ کو جیت ہوئی یا ہار؟“حالانکہ وہاں رائے شماری کا تنازعہ نہیں تھا، امریکی فوجیوں کی لاشو ں اور زخمیوں کی گنتی کا معاملہ تھا جو روزانہ کی بنیادوں پر کر لیا جاتا تھا۔ ثابت ہوا کہ صدارتی جمہوریت آجانے کے بعد بھی”سلیکٹڈ اور الیکٹڈ“ کا جھگڑا ختم نہیں ہوگا، جاری رہے گا۔ جیتنے والا کہے گا:”دیکھا‘ ہاتھ ہلکا ہوتے ہی نتیجہ بدل گیا!“، اور ہارنے والا اپنی پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کرتا رہے گا۔صدارتی محل خالی کرانے کے لئے اداروں کی مدد درکار ہوگی۔خرابی پارلیمانی نظام میں ہوتی توجنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ہٹتے ہی ملک میں پارلیمانی نظام نافذ نہ کیا جاتا۔کینیڈاکا وزیر اعظم پارلیمانی نظام کے ساتھ امریکہ کے پڑوس میں مطمئن ہے، کبھی اپنی غلطیوں کا الزام پارلیمانی نظام کو نہیں دیا۔کبھی صدارتی نظام کی تعریف نہیں کی۔الٹا امریکہ کینیڈا سے شاکی رہا۔کینیڈا کے وزیر اعظم کسی ڈر اور خوف کے بغیر جب چاہتے ہیں تقاریب میں شرکت کرتے ہیں، مساجد میں چلے جاتے ہیں۔نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم ایک مذہبی جنونی دہشت گرد کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعزیت اور زخمیوں کی عیادت،مد د، دیکھ بھال کے لئے اسپتال پہنچی۔نہتے نمازیوں کی جان بچانے والے پاکستانی باپ بیٹے کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔پارلیمانی نظام نے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ ایسے مناظر دیکھ کر کام کرنے والا سیاسی رہنما کام کرتا ہے، جسے کام نہیں کرنا ہوتا وہ نظام کو برا بھلا کہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی شہری برطانیہ، کینیڈا، اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں پارلیمانی نظام ہونے کے باوجود کیوں جاتے ہیں، نیوزی لینڈکیوں جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اس کے سوا اور نہیں ہو سکتا کہ خرابی نظام میں نہیں ان سربراہان میں ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے ووٹرز کو فراموش کر دیتے ہیں۔ووٹرز کے مسائل حل نہیں کرتے، ووٹرز کی مشکلات دور نہیں کرتے۔ان کے اہداف میں ملکی ترقی، خوشحالی اور استحکام شامل نہیں ہوتے، اپنی اولاد کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ کتنی بار وزیر اعظم بنے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ایک دو روز پہلے ہی جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر69سالہ پارک گئیون ہائے کی باقی ماندہ سزا حکومت نے ان کی عمر اورخرابیئ صحت کی بناء پر معاف کی ہے، 31 دسمبر 2021 کو رہائی ملے گی،کروڑوں ڈالرکرپشن کے الزام میں 2017سے 20سالہ قید کاٹ رہی تھی۔اسمثال سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں؛ اول یہ کہ کرپشن کا تعلق کسی کے مرد یا خاتون ہونے سے نہیں، اور دوم یہ کہ کرپشن جیسی خرابی صرف پارلیمانی نظام میں نہیں پائی جاتی، صدارتی نظام میں بھی صدیوں سے موجود ہے۔البتہ کرپشن کرنے والوں کی اکثریت عمر رسیدہ ہوتی ہے۔اور انہیں دونوں نظام ہائے سیاست و حکومت جیل سے گھر بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔حکومتی فیصلے پررہائی پانے والی جنوبی کوریاکی خاتون صد رکی عمر69سال ہے اور پاکستان کی عدالتوں (اور حکومتی رضامندی)سے ایک وزیر اعظم کودی گئی خصوصی رعایت اور ضمانت پر رہائی کی بنیادی وجہ خرابیئ صحت تھی۔ شنید ہے کہ 31دسمبر کے بعد ان کے ساتھ بھی کوئی خصوصی سلوک متوقع ہے۔ سچ ہے یا جھوٹ؟ اسراز پر سے پردہ اٹھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، مگر امکانات سے یکسر انکار (ماضی کے تجربات کی روشنی میں)ممکن نہیں۔ مبصرین اس نکتے پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔اپنی اپنی رائے کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں،غیر یقینی کیفیت سے دو چار ہیں۔تاہم چند روز انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں، سیانے کہتے ہیں:”غیر معمولی فیصلے عموماً سوچ بچار کے بعد کئے جاتے ہیں“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں