کمزور معیشت،آئی ایم ایف اور منی بجٹ

بڑی سادہ سی بات ہے جس ملک نے قرض لے رکھا ہواسے قرض واپس کرنا ہوتا ہے۔قرض اور خیرات میں بنیادی فرق ہے، خیرات اَللہ کے نام پر ملتی ہے۔خیرات دینے والا واپس نہیں مانگتا۔خیرات دینے والے کو دنیااور آخرت دونوں جگہ کام آتی ہے۔دنیا میں خیرات کے بدلے انکم بچا لیا جاتا ہے۔خیراتی ادارے اپنی رسید پر پرنٹ کراتے ہیں کہ ان کو خیرات دینے والا شخص یا ادارہ حکومت سے واپس لینے کا حقدار ہے۔ٹیکس بچانے کی لسالچ میں خیرات دی جاتی ہے۔جس شخص یا ادارے کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ بھی قائم کرلیتا ہے تاکہ خیرات بھی ٹیکس چھوٹ کی شکل میں اس کی جیب میں رہے۔انہیں یہ چالاکی کرتے وقت یاد نہیں رہتا کہ اَللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔خیرات صرف مساکین، یتامیٰ اور بیواؤں کے لئے ہوتی ہے، ٹیکس بچانے کے لئے نہیں ہوتی۔یبکہ قرض دینے والے مع سود واپس مانگتے ہیں۔قرض دیتے وقت قیمتیجائیداد رہن رکھواتے ہیں۔نادہندگی کی صورت میں جائیداد ضبط کر لیتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں جو قرض لیا تھا اب اس کی ادائیگی کرنا ہے۔لیکن پریشانی یہ ہے کہ ماضی کے حکمران واپسی سے بے نیاز تھے، ایسے منصوبے نہیں بنائے جوکما کر قرضوں کی واجب الادا قسطیں ادا کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج آئی ایم ایف ہماری کاروباری برادری کو دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتا ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے میڈیا سے گفتگو کے دوران اعتراف کیاہے آئی ایم ایف کی مذکورہ شرط ہمارے حق میں مفید ہے، ورنہ یہ قانون سازی کبھی نہ کی جاتی۔ویسے بھی ہماری وزارت خزانہ کو اپنی نالائقی پر ندامت ہونی چاہیئے کہ پاکستان 22ویں بار آئی ایم سے قرض لے رہا ہے۔ وزارت قدرتی وسائل کا کردار بھی افسوسناک حد تک غیر معیاری اور نقصان دہ رہا ہے۔ اس کا ثبوت رینٹل پاور اور ریکوڈک مقدموں میں عالمی عدالت کی جانب سے بھاری جرمانے ہیں۔ وزارت بجلی و پانی کو بھی عوام صبح و شام جھولی پھیلا کر کوستے ہیں۔جس نے پہلے لوڈشیڈنگ کو اس حد تک بڑھایا کہ ملک میں 22گھنٹے لوڈشیڈنگ ہونے لگی۔ہمارے صنعت کارملک سے بھاگ گئے۔شہراور دیہات بجلی اور پانی دونوں سے محروم ہو گئے۔پینے کے پانی کو ترسنے لگے، بلکہ آج تک ترس رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے ڈیم تعمیر کرنے کی بجائے ڈیموں کی تعمیر کی ڈٹ کر نصف صدی زوردار مخالفت کی۔ واضح رہے۔موجودہ حکومت نے پچاس سال بعد ملک میں ڈیم بنانا شروع کئے۔ڈیم راتوں رات نہیں بنتے،کم از کم آٹھ سال لگ جاتے ہیں۔عوام تک ان کے ثمرات پہنچنے میں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ریکارڈ سے یہ تکلیف دہ اور چشم کشاانکشاف ہوا ہے کہ ہائیڈرو پاور کی جگہ گیس، فرنیس آئل اور کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کی ترغیب ورلڈ بینک نے دی تھی اور ہمارے حکمرانوں نے آنکھیں بند کر کے یہ تجویز قبول کر لی۔ چنانچہ آج عوام رو رہے ہیں اور سابق حکمرانوں کے نام پانامہ لیکس، پیرا ڈائز لیکس، سوئس بینک اکاؤنٹس، سرے محل جیسی جائیدادوں کے مالکان کے طور پر سامنے آتے ہیں، مے فیئر لندن کے مہنگے فلیٹس میں سابق حکمران رہائش پذیر ہیں۔ان کی پارٹی اندرون ملک دعویٰ کر رہی ہے کہ طاقت ور مراکز سے ان کی ڈیل ہو گئی ہے،اور اس بار ان کے صرف مقدمات ہی ختم نہیں ہوں گے بلکہ دی گئی سزائیں بھی واپس لی جائیں گی۔یہ بھی ڈیل ہو گئی ہے کہ (آئندہ چار دہائیوں تک) سابق حکمرانوں کی دو نسلیں پاکستان پر راج کریں گی۔چار دہائیوں تک طاقت ور حلقے کرپشن کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ملک قیامت تک آئی ایم ایف کے پاس رہن رہے گا۔لندن سے واپس آنے والے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی برطرفی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔کئی ہفتوں سے لگاتار ٹی وی ٹاک شوز کا حصہ ہیں۔اگرڈیل کے دعوے سچ ہیں تو عوام کو ڈیل کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، اور جھوٹ ہیں تو جھوٹ بولنے اور عوام کو گمراہ کرنے والوں کو بے نقاب کیاجائے۔مبصرین کنفیوز ہیں کہ ان دعووں کو سچ مانیں یا جھوٹ کہیں،اس لئے کہ ماضی میں کئی دہائیوں تک ایسے معجزے ہوتے رہے ہیں۔پاکستان کی عدالتوں سے سزا یافتہ قیدی کو ملک سے باہرجانے اور علاج کرانے کی اجازت 50روپے کے اسٹام پیپر پر دی گئی، جبکہ واقعاتی شہادتیں موجود ہیں کہ مذکورہ قیدی سرے سے بیمار ہی نہیں تھا۔اس نے لندن پہنچ کر ایک دن بھی علاج نہیں کرایا۔عدالتی مہلت ختم ہونے بعد طویل مدت گزرنے کے بعد بھی ضمانت پر رہائی پانے والا مجرم پاکستان واپس نہیں پہنچا۔ کیا سارے دکھ عوام ہی کی قسمت میں لکھے ہیں؟طاقت ور مجرموں کے سامنے سب بے بس ہیں؟اب نوبت یہاں تج پہنچ گئی ہے کہ میڈیا پارلیمنٹ میں وزیر اعظم سے براہ راست پوچھ رہا ہے:”آپ کب جا رہے ہیں؟“۔میڈیا کو ایسے سوالات براہ راست وزیر اعظم سے پوچھنے کی ہمت کا پس منظر کیا ہے؟یہ بھی یاد رہے ریکوڈک اور رینٹل پاور کے بھاری جرمانے لٹیروں کی جیب سے نکلوانے کی بجائے وفاق ادا کرے یا صوبائی حکومت؟دونوں صورتوں میں عوام کی جیب سے ادا کئے جائیں گے؟وزیر اعظم اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادائیگی نہیں کریں گے۔ایسے اعلانات عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔حقیقت تسلیم کی جائے، عوام گردن تک مہنگائی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔وزیر داخلہ عوام کی موجودگی میں ایک سے زائد بار تسلیم کر چکے ہیں کہ حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پاسکی۔شیخ ہونے کا باوجود وزیر داخلہ ماضی میں کرپشن کرنے والے طاقت ور مجرموں کے سامنے
بے بس ہیں۔اسلام آباد کے ایک معروف بنگلے میں ہونے والی پراسرار ملاقاتوں کی تردید کوئی نہیں کرتا۔سوال یہ عوام سچ کی تلاش میں کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ملک کا سیاسی اور معاشی منظر نامہ مایوس کن ہے۔وزراء سے پوچھا جائے:”عوام کی تکالیف کب دور ہوں گی؟“، جواب ملتا ہے:”انشاء اَللہ، آئندہ تین چار ماہ میں“۔اور یہ بھی سچ ہے کہ شیخ رشید احمدہر سہ ماہی کے بعد یہی تسلی دہراتے ہیں۔ ان کے پاس وزارت داخلہ ہے،پھر بھی مجروں کے حوالے سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔عوام حیران ہیں،کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں؟اگر حالات نہ سنبھلے،مافیاز کے سامنے حکومت اسی طرح بے بس رہی،تو حکومت اور عوام دونوں کی خیر نہیں۔ایک سال ہے، عوام روتے دھوتے گزار لیں گے، مگر پولنگ کے روز اپنے غصے کا بھرپور اظہار کریں گے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی عوامی غصے کے سامنے باڑ کا کام نہیں دے سکے گی۔آج 2022کا پہلا دن ہے، الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے!حکمران یقینا الٹی گنتی کے معنے جانتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں