114سال بعد قانون سازی

قانون سازی کاجو کام 14اگست1947کو ہو جانا چاہئے تھا،وہ قیامِ پاکستان کے74سال ساڑھے5ماہ بعد کیا گیا۔ابھی بھی یہ صرف کاغذ پر لکھا گیا ہے اسے قانون بننے میں پارلیمنٹ میں ایک مثبت بحث کا سامنا کرنا باقی ہے۔قیامِ پاکستان برصغیر میں رونما ہونے والا ایک اہم اور تاریخ ساز واقعہ تھا۔مگر ادھوری تیاری اور ایک حد تک بے یقینی کی بناء پراپنی منزل کی سمت بڑھنے کی بجائے روزانہ کی بنیادوں پر دور ہوتا چلا گیا۔نیا ملک اگر نئے قوانین کے ساتھ معرض وجود میں نہیں آتاتو اسے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، پرانے قوانین کے ساتھ پرانی حالت میں ہی جوں کا توں رہنے دیا جاتا، پرانے قوانین کے ساتھ چلنے دیاجاتا۔ایک مکتبہئ فکر کی رائے ہے کہ آج ہم ان حالات پر بحث و تنقیدکا حق نہیں رکھتے،جن سے ہم گزرے ہی نہیں،جن حالات کا ہم نے سرے سے سامنا ہی نہیں کیا،ان کے بنانے یا بگاڑنے میں ہمارا کوئی کردار ہی نہیں۔لیکن یہ ایک سنجیدہ بحث ہے اور اس میں شرکت کی پہلی شرط سماجی علم کی ایک کم سے کم سطح کا پیشگی تعین ضروری ہے۔جیسا کہ انجنیئرنگ، میڈیکل، سول، اور اکاؤنٹنگ جیسے شعبوں میں جانے کے لئے ضروری ہے۔بالکل ان پڑھ یا سماجی علوم سے ناواقف شخص کو اس بحث میں خود ہی حصہ نہیں لینا چاہیئے، پہلے مطالعہ کرے، تاریخ و جغرافیہ کے باہمی ربط اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کے قوانین سے واقفیت حاصل کرے، پھر شریکِ بحث ہو۔کم از کم 13،14سال کے بچوں کو گلی کے نکڑ پر کھڑا کرکے محلے بزرگوں سے یہ نہ پوچھا جائے کہ لیاقت علی خان کو مغربی پاکستان سے ٹکٹ کیوں نہیں دیا گیا تھا؟چلیں آج پاکستان میں فعال پارلیمنٹ موجود ہے، اسے یہ قانونی اصلاحات کی نازک ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے، اور سونپی جانی چاہیئے۔یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھی دستورساز اسمبلی موجود تھی، لیکن تقسیم ہند کی مخصوص سیاسی و سماجی فضاء کی بناء پر جذباتیت حاوی تھی، اوردوسری وجہ یہ تھی کہ نمائندگان اسمبلی میں سے میں سے بعض جہاں سے جیت کر اسمبلی پہنچے تھے وہ علاقے بھارت کا حصہ بن گئے، اس طرح نمائندگی کااستحقاق جاتا رہا۔نوابزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ بھی ایسی صورت حال پیش آئی۔آج ماحول ماضی کے مقابلے میں باہمی نکتہئ نظر سننے اور اور سمجھنے کے لئے بہتر ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے وفاق اور پنجاب میں اقتدار ملتے ہی صرف ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں قانونی اصلاحات کا مشکل اور نازک کام سرانجام دینے کی کامیاب کوشش کی۔عدالتی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق قوانین کی اشد ضرورت تھی، اسکے بغیر عالمی برادری میں اسے بلند مقام دلانا ممکن نہیں تھا۔جس ملک میں مافیا سزاؤں کے خلاف اسٹے آرڈر لے کر برسوں تک چھپی رہے وہاں عام آدمی کو فوری انصاف نہیں مل سکتا تھا۔گزشتہ 50برسوں میں مافیاز کو قدم جمانے کے لئے ساز گار مواقع میسر آئے۔ان میں ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں روسی اور امریکی جارحیت نے اہم کردار ادا کیا۔مافیاز کی کی فکر اپنی ذات اور خاندان سے آگے نہیں جاتی۔پاکستان میں اب یہ بات راز نہیں، 2016کے عدالتی فیصلے میں بجاطور پر درست نشاندہی کی گئی اور پھر ایسے شواہد سامنے آنے لگے کہ مافیاز کی لوٹ مار کے انبار لگ گئے۔بڑی لوٹ مار کے مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہی نہیں آسکے، مافیاز کے وکلاء اپنی شہرت، قانونی معلومات میں سرکاری وکلاء پر برتری اور بعض ججز کے مافیاز کے ساتھ ہمدردانہ رویہ کے باعث قانونی کمزوریوں سے بھرپور استفادہ کیا،اسے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہونا کہا گیا،جبکہ اصل حقائق اس کے برعکس تھے،سارا خاندان پاکستان سے بھاگ کر لندن میں پناہ گزین ہے۔ ایسے ماحول میں 700سے زائد قانونی اصلاحات کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا ایک حیران کن اور دور رس نتائج کا حامل اقدام ہے۔جبکہ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کایہ بیان کہ وہ برطانیہ کا تحقیقاتی اور تفتیشی نظام پاکستان لے آئے ہیں۔ بلکہ اسے پاکستان کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق بہتر بھی بنایاہے۔گواہی کے قانون کو بھی بہتر بنایاگیاہے، اب گواہی کے لئے عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، ویڈیولنک پر بھی گواہی دی جاسکے گی۔ فی الحال یہ سب کچھ ایک کہانی کاقصہ معلوم ہوتاہے،لیکن جیسے ہی یہ اعلانات فوجداری قوانین کا حصہ بن کرعدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران عام آدمی کے لئے آسانیاں فراہم کریں گے پھر کسی کے لئے کوئی بات انوکھی نہیں رہے گی۔سپریم کورٹ بار کونسل نے ان قانونی اصلاحات کو اس بنیاد پر مسترد کردیا ہے کہ ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔حکومت خود ہیاس شکایت کا ازالہ کرے گی،اور بتائے گی کہ سپریم کورٹ بار کونسل سے مشاورت نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟ویسے بھی قانون سازی پارلیمنٹ میں کی جاتی ہے اوراس میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں کہ سپریم کورٹ بار کونسل سے مشاورت کی جائے۔اگر ایسی کوئی شرط ہوئی تو حکومت مشاورت سے گریز نہیں کرے گی۔البتہ حکومت نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے پہلے عوام کی آگہی کے لئے تمام ترامیم میڈیا کے ذریعے عوام کے روبرو پہنچائی جائیں گی۔114سال سے مجوزہ ترامیم نہ کئے جانے کا اصل متأثرہ فریق عام آدمی ہے۔اور عام آدمی کی مشکلات دور کرنے کا خیال آج تک پارلیمنٹ کو نہ آنا اپنی جگہ خود ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ عام آدمی کو پارلیمنٹ میں کتنی اہمیت حاصل ہے۔حکومت نے جب سے سینیٹ میں اپنی عددی پوزیشن بہتر بنائی ہے،اس نے تیز رفتاری سے قانون سازی کی ہے۔اپوزیشن اپنے تمام تر دعووں کے باوجود اس عمل کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظور ی اس ضمن میں تازہ مثال ہے۔ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام حکومت اوراپوزیشن کبھی بھی ایک پیج پر نہیں ہوتیں۔بیشتر ملکوں میں وفاقی سطح پر مد مقابل دو پارٹیاں نظر آتی ہیں، پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے وفاق میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی باری باری اقتدار میں آتی رہی ہیں۔2018میں نتائج کا اعلان کرنے والی مشین(آر ٹی ایس) اچانک کوسی وجہ سے کچھ دیر کے لئے بند ہوگئی اور دوبارہ چلی تو اقتدار پی ٹی آئی کو مل چکا تھا۔ابھی یہ معمہ حل نہیں ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے2023کے عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کے ذریعے کرانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو راضی کر لیا ہے، مشینیوں کی خریداری کے سلسلے میں باہمی خط و کتابت جاری ہے۔دیکھیں قانون سازی عدالتی نظام کو کتنا سہل اور کارآمد بنائے گی؟تبدیلی کی ضرورت تو ہے!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں