راوی کنارے نیا شہر‘ ہائی کورٹ لاہور نے منع کر دیا

جیسے ہی یہ خبر میڈیاپرآئی کہ لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے بہت بڑے منصوبے کوقانونی اعتبار سے ناقابل عمل قرار دے دیا ہے،واضح رہے وزیر اعظم نے اس منصوبے پر متعدد پہلوؤں سے محنت کی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے 20ارب ڈالر سے زئد رقم پاکستان کے خزانے میں آ سکتی ہے،1.2ارب ڈالر آچکے ہیں، آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ دریائے راوی سوکھ کر ایک گندا نالہ بن چکا ہے،اور شہرکا رہائشی اور صنعتی کا گند /غلاظت (سیوریج) بارش کے پانی کے ساتھ بہا کر سمندر لے جاتا ہے۔ اسے دوبارہ دریا بنانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ شہر پھیلتے گئے تو گیس، بجلی، اور پانی جیسی سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکیں گی۔زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔ دوکروڑ درخت اگانے کا منصوبہ نئے راوی شہر سے جڑا ہوا ہے،ان درختوں سے لاہورکا ماحول صاف ہوگا۔جبکہ نیا شہر تعمیر کرناخود پھیلتے ہوئے پرانے شہر لاہور کی ضرورت ہے، اسلام آباد کے بعد یہ۔اسے روایتی ہاؤسنگ سوسائیٹیز کہنا یاسمجھنادرست نہیں۔لاہور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے صرف اتنا کہا کہ ہمارے وکلاء شاید عدالت کو درست طریقے سے نہیں سمجھاسکے، سپریم کورٹ میں بھرپورتیاری کے ساتھ جائیں گے، تمام پہلوعدالت کے رو بروسامنے رکھے جائیں گے تو فیصلہ شہر کی تعمیر کے حق میں آئے گا۔ انہوں مزید کہا کہ آئندہ نسلوں کے لئے راوی کے آبی ماحول کوبہتر بنانا ہے تاکہ پانی اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے کاساتھ ماحول کو بھی بہتر بنایا جاسکے۔ماضی میں لاہور شہر کہ شناخت اس کے باغات، تاریخی عمارتیں اور صاف ستھری ثقافت تھی،اب آبادی کی نقل مکانی، آلودگی اور اور زیر زمین پانی کا آلودگی کا شکار ہو چکا ہے۔ نئے شہرکو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ دریا میں پانی فلٹریشن کے بعد ڈالا جائے گا۔چنانچہ اس مجوزہ شہر کی تعمیر سے آج کا پانی سے محروم اورسوکھا ہوانالہ(موجودہ دریا) راوی صاف پانی بہنے والا دریابن جائے گا۔اس موقع پر راوی اربن منصوبے کے بارے میں وزیر اعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ آئندہ ماہ منصوبے کے تحت 7ترقیاتی سائٹس کی نیلامی سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے،24 ارب کی سرمایہ کاری پہلے ہو چکی ہے۔سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بننے سے 1500ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ انہوں نے میڈیا سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ نئے راوی شہر کے بارے میں لوگوں کو آگہی دیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جو کچھ دیکھا تھا، آج پاکستان کوترقی کے بلند مقام پرپہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن عام آدمی ان منصوبوں کی سست روی کے پیش نظر مطمئن دکھائی نہیں دیتا،جیسے لاہورہائی کورٹ کی جانب سے راوی شہر کی تعمیر کے خلاف فیصلہ آتیہی یہ ممنصوبہ نہ جانے کتنے سال کے لئے کھڈے لائن لگ جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان خودکہتے ہیں 800مقدمات میں مافیاز کو سزا سنائی گئی ہے مگر وہ اعلیٰ عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے کر بیٹھے ہیں سزا پر عمل نہیں ہو رہا۔عام آدمی کی پریشانی یہ ہے کہ وہ روزانہ کی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس کی زندگی کو اس قدر جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح مہنگائی کا خاتمہ بن گئی ہے۔عدالتی نظام ان تمام منصوبوں کا راستہ روکے دیوار بن کر کھڑا ہے،جن ثمرات(روزگار کی دستیابی، 40صنعتوں کا فعال ہونا، بیرون ملک سے وورسیز کی طرف سے ڈالروں کی صورت میں رقوم کا آنا، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہاور آئی ایم ایف سے چھٹکارہ اس وقت حاصل ہوگا جب عدالتیں مافیاز کو اسٹے دینے یا ان کے حق میں فیصلے سنانے کا سلسلہ بند کریں گی۔جس مقدمے میں حکومت مدعی ہے،وہ مقدمے برسوں سے زیر التوا ہیں۔مہنگائی کا خاتمہ مافیاز کو سزائیں ملنے سے مشروط ہے۔اور یہ شرط ایسی ہے جہاں وزیر اعظم بھی اپنا لہجہ مؤدبانہ رکھتے ہیں۔اسٹے ہٹنے کی مدت مقرر نہیں، 8،10سال لگنا روز مرہ کا معمول ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس محض ڈیڑھ سال بچے ہیں، ابھی فوجداری مقدمات میں ترامیم کی صرف زبانی کلامی بات چیت ہورہی ہے، اپوزیشن قسم کھائے بیٹھی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کی ہر کوشش کا راستہ روکے گی، بلکہ ہر ایسے موقع پر اپوزیشن کی آنلکھوں میں چمک آجاتی ہے اور وہ پر اعتماد لہجے میں صبح شام یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ بس عمران خان کی حکومت ان چند دنوں کی مہمان رہ گئی ہے۔عدالتی نظام کی سست روی کا اندازہ لگا نے کے لئے مقدماتی رائج الوقت طریقہئ کارکی چھوٹی سی مثال دیکھ لی جائے:2008سے مقدمہ زیر سماعت ہے، تاحال جائیداد کے مالکان کو جائیداد کا قبضہ نہیں ملا۔قابض فریق اس پلاٹ پر چارمنزلہ عمارت تعمیر کرکے لاکھوں روپے ماہانہ چندہ بٹور رہا ہے،مالکان عدالتوں کی سیڑھیاں چڑھنے کی مشق میں مصروف ہیں۔پیشیا بھگت رہے ہیں واضح رہے یہ مقدمہ رواز اول 1974میں ہائی کورٹ میں ہی دائر ہوا تھا۔2008میں Concurrent finding کے لئے ماتحت عدالتوں سے فیصلے لینے کے بعد نئے سرے سے پہنچا ہے۔
Concurrent findingکے مقدمے میں جو فریق دو مجازماتحت عدالتوں سے اپنا مقدمہ ہار کر اعلیٰ عدالت میں ”مدعی“ بن کر آتا ہے، اسے ہائی کورٹ کے معزز ججز کی جانب سے(دومجاز عدالتوں سے جیتے ہوئے فریق)کے خلاف بڑی فراخدلی سے اسٹے(حکم امتناعی) دے دیا جاتا ہے۔محولہ بالا مقدمے کی سماعت کو48 سال بیت چکے ہیں،ابھی فیصلہ نہیں آیا۔ابھی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق قابضین کے پاس موجود ہے۔اگر انہوں نے سپریم کورٹ جانے کے اخراجات برداشت کر لئے تو اپنے ناجائز اور غیر قانونی قبضے کی مدت میں ضافہ کرلیں گے۔وزیر اعظم عمران خان بخوبی جانتے ہیں کی عدالتی نظام میں مطلوبہ قانونی ترامیم لائے بغیر ملک اورعوام کو مافیاز کے چنگل سے نجات نہیں دلا سکتے۔جس ملک کاوزیر اعظم مافیاز کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہو، وہاں عوام کی حالت زار پر کیا تبصرہ کیاجائے؟گلی گلی کوچے کوچے ایسے مقدمات کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔مایوسی آنکھوں میں لئے عوام کا ایک جم غفیر عدالتوں کا رخ کرتا ہے دو ڈھائی بجے نئی تاریخ لئے منہ لٹکائے گھروں کو لوٹتاہے۔پچاس سال زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں، کوئی سوچے تو سہی!!! شاید مجوزہ قانونی ترامیم میں اس عذاب سے نجات دلائی گئی ہو!!!منظور ہوجائیں، تب پتہ چلے گا!

اپنا تبصرہ بھیجیں