یورپی ممالک جیسی فریڈم آف اسپیچ

فریڈم آف اسپیچ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین (آرٹیکل19)میں درج ہے: ہر شہری کو تقریراور اظہارِ خیال کا حق حاصل ہوگا اور پریس کو بھی آزادی حاصل ہوگی بشرطیکہ قانون کے تحت عائدکی گئی معقول پابندیوں بابت عظمت اسلام، یا پاکستان کی سالمیت، سلامتی یا دفاعِ پاکستان سے متعلق امور،دوسری ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات،امن عامہ،رواداری،یا اخلاقیات یاتوہین عدالت کا ارتکاب یاکسی جرم کے لئے اکسانے جیسی پابندیوں کاخیال رکھاجائے۔آئین میں دی گئی تقریر اوراظہارِ خیال کی آزادی غیر مشروط نہیں، بعض قانونی حدود میں رہنا بھی ضروری ہے۔مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے آزادیئ تقریر و تحریر پر اپنی پسند کی پابندیاں عائد کیں جو اقتدار طویل ہونے کے بعد خود ہی اٹھا لی گئیں یا ان پرعملدرآمد ختم ہوگیا۔مثلاً مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں اخبارات و رسائل کو طباعت سے پہلے مجاز فوجی افسر(میجر) سے سنسر کرانالازمی قرار دیا گیا تھا۔ اخبارات نے اس قانون کی پابندی کا نیاطریقہ اختیار کیا،سنسر کے بعد جو جملے یا الفاظ بچ جاتے صرف وہی چھاپے جاتے،اس کے نتیجے میں اخبارات و جرائد کے صفحات کا بیشتر حصہ خالی رہتا۔اگر موجودہ حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس میں اخلاق سکھانے کے نام پرتحریر و تقریر کا گلا اس قدر گھونٹنے کی کوشش کی گئی کہ بات کرنے کو زبان ترسنے لگے تو بولنے کا کوئی طریقہ وقت خود ہی سکھادے گا۔ دوسری جانب جو کچھ فریڈم آف اسپیچ کے نام پر روا رکھا گیا اس کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی۔اسے لگام دینا بھی ضروری ہوگیا تھا۔آزادی اظہار رائے کے نام پر دشنام طرازی کی اجازت کوئی مہذب معاشرہ نہیں دیتا۔آئین کی مذکورہ بالا شق بھی واضح ہے کہ قانون اور اخلاقیات کی پاسداری کا خیال رہے، مادر پدر آزادی نہیں دی گئی۔ابھی حکومت نے آرڈیننس جاری کرکے ایک تجربہ کیاہے،اگر اس کی مدد سے گالم گلوچ رک جاتی ہے تو اسے پارلیمنٹ کی منظوری سے قانون کا درجہ دیا جاسکتاہے، بصورت دیگر120دن بعد یہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ گالم گلوچ کے عادی مٹھی بھر افراد باز نہ آئیں، اپنا طرز عمل درست نہ کریں تو حکومت سے کسی کو شکایت نہیں ہوگی کہ اس پر سختی سی کاربند رہے، گالم گلوچ کی حوصلہ افزائی کی توقع نہ کی جائے۔دنیا کے مہذب ملکوں میں جتنی قانونی آزادی شہریوں کو حاصل ہے پاکستان میں اس آزادی سے بڑھ کرنہیں مل سکتی۔پاکستان نے اسلامو فوبیاپرمغربی دنیا کوتوجہ دلائی تو اس کے مثبت نتائج ملے۔روس اور کینیڈا اور برطانیہ نے تسلیم کیا کہ جس عمل سے مسلم کمیونٹی کی دل آزاری ہو، وہ کام نہ کیا جائے۔معقول رویہ اختیار کرنے کو عالمی برادری بھی تعاون کے لئے تیار ہے۔لیکن قانون سازی کرنے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر مملکت کے سربراہ کی پوشاک دیکھ کو عام شہری کو محسوس ہو کہ یہ سرکاری خزانے میں خیانت کئے بغیر نہیں بن سکتی تو سربراہ کودوران خطاب روک کر شہری پوچھ سکتا ہے جائز آمدنی سے زائد وسائل کہاں سے آئے؟ ایسی صورت میں سربراہ مملکت پر لازم ہوگا کہ تمام حقائق سے عام شہری کو آگاہ کرے۔2014میں پانامہ لیکس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمرانوں کی جائیدادکی تفصیلات منظر عام پر آگئیں۔پاکستان کے جن حکمرانوں، بیوروکریٹس اور دیگر افراد کے نام آئے ان کی اکثریت مزید ہیرا پھیری میں مصروف ہوگئی تاکہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کردہ جائیداد قومی خزانے میں جمع کرانے سے بچ سکیں۔اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا جبر کہ گالم گلوچ کیاداغ بیل بھی اسی ٹولے نے ڈالی اور فروغ دینے کے لئے ہر حربہ استعمال بھی کیا۔ججز جو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اپنی پسند کا فیصلہ لکھوانے کے لئے فون کئے(جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہیں)۔بعض ججز کی فیک ویڈیوز دکھا کر انہیں بلیک میل کیا۔میڈیا پر دن رات جو جھوٹ بولا جاتا رہا،اس پر اسٹولے کو کوئی ندامت بھی نہیں۔جیسے ہی انہیں محسوس ہوا کہ عدالت کا سامنا کئے بغیر کوئی راستہ باقی نہیں رہا تو انہوں نے گالم گلوچ میں اضافہ کردیا۔بادیئ النظر میں یہی اضافہ آرڈیننس کے اجراء کا سبب بنا۔ جب معاشرتی ماحول کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کا اختیارایسے عناصر کے ہاتھوں پہنچ جائے تو پورے معاشرے کو کھائی میں گرنے دینا اجتماعی خود کشی کے مترادف ہوتا ہے۔ہر ذی ہوش شہری کا دل یہ دیکھ کر کڑھتا ہے کہ آج پاکستان میں معاشرتی اور فکری بگاڑ اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ مریضوں کو فراہم کی جانے والی ادویات جعلی بنائی اورفروخت کی جارہی ہیں۔بچوں پینے کے لئے دودھ بھی زہریلا ملتا ہے۔نہتے شہری ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں، کوئی محفوظ نہیں۔کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔موٹر وے پر اپنے بچوں کے ساتھ پولیس کو مدد کے لئے پکارتی ہے کہ اس کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیاہے، ایک ہزار روپے کا پیٹرول مجھ تک پہنچا دیں تاکہ میں گھر تک جا سکوں!پولیس اس خاتون کی مددنہیں کرتی، ڈاکو بھیج دیتی ہے۔وزیراعظم بھی اس لاقانونیت پر متعلقہ پولیس افسران اور اہلکاروں کی سرکوبی کرنے کی بجائے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:”اتنی رات گئے کسی عورت کو گھر سے نہیں نکلنا چاہیئے“۔سوال یہ ہے کہ جن عورتوں کے ساتھ یہ قانون شکن ذہنیت کے حامل ڈاکو ان کے گھروں گھس میں کر،اہل خانہ کو یرغمال بناکے، نہ صرف لوٹ مار کرتے ہیں بلکہ انہیں سب کے سامنے بے آبرو بھی کرتے ہیں، اس بربریت کا وزیر اعظم کیا جواب دیں
گے؟عورتیں گھروں میں بھی محفوظ نہیں!!!مظلوم عورتیں سننے کی شدت سے منتظر ہیں۔معاشرہ بگاڑ کی بدترین پستیوں تک جا چکا ہے۔عدالت میں ثابت ہوچکا کہ یوسی کے فنڈز محکمہ خزانہ کا سیکرٹری اور انچارج وزیر مل کر کھا رہے ہیں،سینیٹرزکے انتخابات ہوں یا ڈسکہ کے ضمنی انتخابات خریدو فروخت کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، کیا ایکشن لیا گیا؟مکمل خاموشی ہے۔اسے خاموشی نہ کہا جائے،یہ عمل مجرموں کی سرپرستی کے مترادف ہے۔مجرموں کے یہی سرپرست معاشی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ 23،24 کروڑ پاکستانیوں کی قسمت سے کھیلنے اجازت مٹھی بھر افراد کو نہیں دی جا سکتی۔اگر ریاست عدالت میں خورد برد کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے مدینے کی خاتون جیسی باز پرس کی جائے،اس کے خلاف تہمت لگانے کی سزاسنائی جائے، اور ریاست خورد برد کے شواہد پیش کردے تو خیانت کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیئے۔تیسرا کوئی راستہ موجود نہیں۔تیسراراستہ نکالنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔پاکستان 24کروڑ عوام کی ملکیت ہے، عوام کی فلاح و بہبودکو ترجیح دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں