22سفیروں کا خط

برطانیہ، فرانس اورجرمنی سمیت پاکستان میں موجود22سفیروں نے پاکستان سے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت کی مذمت کی جائے۔خط میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے اختیار میں جو کچھ ہو کرنا چاہیئے،تاکہ یوکریناور تمام عالم سانسانیت میں امن، سلامتی، ترقی، انصاف، بین الاقوامی قانون اورانسانی حقوق جیسی اقدار غالب رہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا اچھی خبریہ ہے کہ اب روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، پاکستان نے اس وقت اپنے آپ کو غیرجانب دار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔علاوہ ازیں دفترخارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے دورہ روس کے دوران یہی مؤقف اپنایا تھا کہ پاکستان اس معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔انہوں نے کہا:پاکستان کو ایک متوازن پوزیشن رکھنی ہے اورمؤقف یہی ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیئے،بات چیت سے اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کوختم کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے پاکستان 1950سے امریکی اتحادی کا کردار ادا کرتا ہے،اس لئے پاکستان کے بیشتر سیاست دانوں اور مبصرین کو غیرجانبدار رہنے جیسے الفاظ اجنبی لگتے ہیں۔ جبکہ بھارت روز اول سے خود کو غیر جانبدار کہتا ہے اورروس اور امریکہ سے اس کے تعلقات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ سلامتی کونسل کے 25فروری کے اجلاس میں بھی بھارت نے قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے جب سے امریکہ کوDo moreکے جواب میں Absolutely notکہا ہے بعض پرانی سوچ کے حامل سیاستدان اور مبصرین مسلسل اس خوف میں مبتلا ہیں کہ امریکہ پاکستان کے لئے قدم قدم پر مشکلات پیدا کرے گا۔آئی ایم ایف اپنی شرائط مزید سخت کر دے گا۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالے گا بلکہ بلیک لسٹ میں ڈالنے کی افواہیں بھی ٹاک شوزاور سوشل میڈیا پر گشت کرتی رہیں۔ جبکہ دوسری رائے کے حامل مبصرین پاکستان کی جانب سےAbsolutely notکہنے کو ایک اچھا شگون سمجھتے ہیں اور امریکہ کی اندھی غلامی کو برا کہتے ہیں۔عام آدمی بھی یہی سمجھتا ہے کہ امریکی دوستی پاکستان کے لئے گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی۔اب ماضی پر آنسو بہانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پاکستان آگے کی طرف دیکھے اور اپنے مفاد میں جو بہتر سمجھے،وہی کرے۔اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی سامنے رکھے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے”عبرت کا نشان“ بنانے کی امریکی دھمکی کا مردانہ وار جواب دیا اور کہا:”ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے“۔ انہیں اپنے عوام کا مفاد اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا،سولی پر جان دے دی، کو ئی سمجھوتہ نہیں کیا۔27فروری2019 بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کا جواب دینے کی صلاحیت نہ ہوتی تو”گھر میں گھس کر مارنے“کااعلان کرنے والے جشن منا رہے ہوتے۔اور پاکستان کی حالت یوکرین جیسی ہوتی۔عراق، شام، لیبیا کی مثالیں تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں۔سائنسدان مدتوں پہلے کہہ چکے ہیں کہ بقاء اسی کو ملتی ہے جو ماحول میں خود کو دیگر کے مقابلے میں fittestثابت کرتا ہے۔امریکی دوستی ایک بحث طلب موضوع ہے اور اس پر سیر حاصل بحث اگر نہیں ہوئی تو اب کی جا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ جب چاہے اس پر بحث کر سکتی ہے۔ اور اسے کرنی بھی چاہیئے۔یاد رہے کہ روس نے 2014سے 23فروری2022تک یوکرین سے ایک ہی ضمانت مانگی کہ وہ غیر جانبدار رہے گا۔یوکرین یہ ضمانت دینے میں مسلسل ٹال مٹول کرتا رہا اور امریکی وعدوں پر یقین کئے بیٹھا رہا۔امریکہ نے یوکرینی صدرزیلنسکی کو فرار ہونے کامشورہ دیا مگر یوکرینی صدر نے جواب دیا:”مجھے سواری نہیں،اسلحہ چاہیئے“۔اب روس نے مذاکرات کی شرائط سخت کردی ہیں۔مگرپاکستان اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہے،اس کے خیال میں جنگ مسئلوں کا حل نہیں دیتی بلکہ اپنی جگہ خود ایک مسئلہ ہے۔ دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ جو کچھ لینا ہے،مذاکرات کے ذریعے لینے کی کوشش کی جائے۔ اپنے بازوؤں کی قوت پر بھروسہ کیا جائے، پرائے آسرے پر جنگ کو پہلی ترجیح نہ بنایاجائے۔22سفیروں کے خط کا جواب وزارت خارجہ دے چکی ہے، خطے کے حالات کے پیشِ نظریہ جواب مناسب ہے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان تمام تنازعات کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہی دے سکتے ہیں۔دوسرے تمام فارمولے لاشوں اور زخمیوں کے ساتھ جلتی ہوئی عمارتیں،اور تباہ شدہ پل دیں گے۔دونوں متحارب فریق ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں۔سوچنے اور جنگ سے بچنے کا راستہ یوکرینی عوام کے مفاد میں ہے۔جو نقصان اب تک ہوا وہ اندازوں کی غلطی کا نتیجہ ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی عادت ترک نہیں کریں گے۔امریکہ کا مطمع نظر صرف اپنا اسلحہ بیچنا ہے۔اپنے نیٹو اتحادیوں کو حصہ دار بناکر دنیا میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے۔ویت نام اور افغانستان ڈٹ گئے،20،20سال امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے جنگ کی، اور امریکہ کو اپنی سرزمین سے بیدخل کیا۔دیگر نے ذہنی غلامی قبول کی۔افغانستان ابھی 20سالہ جنگ کے دوران ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اوراداروں کی تعمیرِ نو میں مصروف ہے۔امریکی پابندیوں نے اسے تا حال گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا،آثار بتارہے ہیں کہ امریکہ زیادہ دیر پابندی برقرار نہیں رکھ سکے گا۔تاریخ شاہد ہے،اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکتی۔مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ایسے دو مسائل ہیں جنہیں اقوام متحدہ1948سے آج تک حل نہیں کراسکی۔قرارداوں کے انبار لگانے سے حل نہیں نکلا۔اب ایک تجربہ یوکرین کے نام پر بھی کر لے، بے نتیجہ رہے گا۔فیصلہ وہی ہوگا جو روس اور یوکرین کی حکومتوں کے درمیان کیا جائے گا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 17روزہ
جنگ تاشقند معاہدے پر اختتام پذیر ہوئی تھی۔ابھی روس اور یوکرین کی جنگ کو آٹھ دن ہوئے ہیں،اقوام متحدہ نو دن انتظار کرلے یا قراردادیں منظور کرنے کی مشق جاری رکھے،فیصلہ مذاکرات کی میز پر ہوگا۔اور مذاکرات متحارب فریقین خود کرتے ہیں۔ااور نتیجہ فریقین کے مسل پاور سے مطابقت رکھتا ہے۔معاہدے کی شرائط وہی فریق ڈکٹیٹ کرتا ہے جس کے مسلز مضبوط ہوتے ہیں۔فریق ثانی صرف دی جانے والی ڈکٹیشن کی نوک پلک سنوارتا ہے۔تاکہ عوام کو سمجھا سکے؛یہ جملہ تبدیل کرا کے اس نے فلاں گنجائش پیدا کر لی اور مستقبل میں فلاں فائدہ ملے گا۔پاکستان کے پاس بھی شملہ معاہدہ موجودہے، اس بارے بھارت ایک اور پاکستان دوسرا مفہوم بیان کرتا ہے۔ اصل معاہدہ جب بھی ہو، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیا ن ہوگا اور وہی دیرپا ثابت ہوگا۔ اس تناظر میں 22سفراء یوکرین اور روس کے درمیان معاہدے کا انتظار کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں