لاوارث بلوچستان اوربے حس حکمران

تحریرمیروائس نعیم مشوانی
صوبہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے بڑا ہے لیکن صوبہ کی مشکلات بھی دوسرے صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہیں اور جس طرح صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تو اسی طرح بھوک،افلاس، غربت، بے روزگاری سرفہرست اور تعلیم جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہے ـ
جبکہ اب تو کروانا وائرس جیسے بین الاقوامی وبا کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی معاشی،اقتصادی ،سیاسی اور عسکری قوتیں بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں تو بلوچستان جیسے غریب پسماندہ صوبہ کی مشکلات کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ـ صوبہ کی نصف آبادی پہلے سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے ـ بلکہ اب یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ اب تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر کاروباری مراکز سمیت ٹرانسپورٹ مکمل طور بند ہیں ـ جس سے ہزاروں افراد کی زندگی وابستہ ہے ۔ صوبہ کے حکمران ہمشیہ کی طرح صوبہ کی پسماندگی کے ذمہ دار ماضی کے حکمرانوں اور حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ٹھہراتے ہیں۔
دنیا میں جب سے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا گیا ہےتب سےدنیا کے اکثر ممالک میں احتیاطی تدابیر کے طور پر سوشل ڈسٹینسنگ یعنی سماجی دوری اختیار کرنے کے لیے اکثر لاک ڈاؤن کا سہارا لیا گیا.
لاک ڈاون کا فیصلہ کرتے ہی اکثر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لیے مختلف قسم کے منصوبے شروع کئے گئے تاکہ عوم کو لاک ڈاؤن کے دوران مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن بلوچستان جیسے غریب پسماندہ صوبہ کے حکمران صرف سوشل میڈیا پر عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں میں مصروف عمل ہیں ۔
ترجمان وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے یہاں تک اعلان کیا گیا کہ صوبہ میں اربوں روپوں کا راشن تقسیم کیا گیا ـ لیکن عوام اب اس بات پر حیران ہیں کہ اگر صوبائی حکومت کی جانب سے راشن تقسیم کیا گیا ہے تو کہا ں تقسیم کیا ہے نہ تقسیم کرنے والوں کوئی حال پتہ ہے نہ جن پر تقسیم کیا گیا ہے نہ ان کا کوئی پرسان ہے بلکہ آج سے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ ڈسٹرکٹ مستونگ کی تحصیل دشت میں غریب عوام کو اطلاع موصول ہو۔۔ کہ غریب عوام میں حکومت کی جانب سے راشن تقسیم کیا جائے گا جب علاقے کی خواتین اور بزرگوں کی بڑی تعداد نے رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں دھوپ میں کافی دیر انتظار کرنے کے بعد کہا گیا کہ راشن تقسیم کرنے کوموخر کیا گیاہے جس پر عوام تعیش میں آکر احتجاج پر مجبور ہو گئےجس پر لیویز اہلکاروں کی جانب سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ـ البتہ عوام کو تو راشن نہ مل سکا بلکہ ڈنڈوں کے ساتھ عوام کو مایوس ہو کر خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔
صوبہ حکمرانوں کے ناقص اور نا اہل فیصلوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کی پوری دنیا میں ڈاکٹروں کو مسیحا سمجھ کر گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا تو اسی دوران ہمارے صوبہ میں پولیس کی جانب سے ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جارہا تھا اور ان پر تشدد کیا جارہا تھاـ ان کا قصور اتنا سا تھا کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے حکومت وقت کے حکمرانوں سے اپنے لیے حفاظتی کٹس طلب کر رہےتھےبلکہ اس کے بعد ڈاکٹروں نے خود چندہ کر کے اپنے لیے حفاظتی سامان خریدا.
اکثر ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹروں کو بروقت حفاظتی سامان نہ ملنے کی وجہ سے کروانا وائرس جیسی وباء کے شکار ہوگئے ۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کی مد میں صوبہ کے مستحق عوام کےلیے 12 ہزار کا اعلان کیا گیا تو اس میں بھی اکثر مستحق افراد اس سے محروم رہے کیونکہ صوبہ کے اکثر اضلاع کے دیہی علاقوں میں موبائل نیٹ ورک اور نیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برا بر ہیں جس کی وجہ سے مستحقین کی بڑی تعداد رجسٹریشن سے قاصر رہی جبکہ چند لوگوں کو میسج موصول ہونے کے باوجود بھی پیسے موصول نہ ہو سکے کیونکہ اکثر احساس کیش سینٹروں کی جانب سے انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ ان کے فنگر پرنٹ نادرا کے سسٹم میں موجود نہیں ۔
اگر حکمرانوں کی بے حسی کا یہی عالم رہا تو صوبہ کی آدھی آبادی کرونا جیسے وائرس کا شکار رہی یا نہ رہے بلکہ بھوک و افلاس جیسے وائرس کا شکار ضرور ہو جائیں گے. حکمران اب بھی ہوش کے نا خون لیں ورنہ کہی ایسا نہ ہوکہ عوام بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اس حد تک مجبور ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں جا کر حکمرانوں کی کرسیوں کو نوچنا شروع کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں