یکم مئی: مزدوروں کا عالمی دن

مشکور انور بلوچ
معاشرے میں مزدوروں کے کردار اور اہمیت کے بارے قدیم یونانی مصنف صوفوکلیز ( 406 سے 496 ق۔م) نے کہا تھا کہ ” مزدوروں کے بغیر معاشرے کی ترقی و خوشحالی ناممکن ھے”۔ جبکہ انکے حقوق کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اسے مزدوری ادا کردو”۔
دنیا کو ترقی و خوشحالی کے آسمان تک پہنچانے والے ان گم نام سپاہیوں کی حالت آج بھی انیسویں صدی کے شکاگو کے مزدوروں جیسے ھیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں انکی اکثریت رات کو فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں اور صبح ھوتے ہی اپنی محنت کی خرید و فروخت کے لئے مزدور چوک پہ کھڑے ہو کر گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں ۔ بقول شاعر
کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
معاشرے کے بااثر طبقے اور استحصالی قوتوں نے اپنے بساط اور حیثیت کے مطابق مزدوروں کے بھوک اور انکے مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا۔ صنعت کاروں کے گھروں اور فیکٹریوں کو خون اور پسینے سے آباد کرنے والے مزدوروں کے گھروں میں ھر وقت نہ ختم ھونے والے غربت اور مایوسیوں کے اندھیرے چھائے ھوئے نظر آتے ھیں۔
پاکستان کے آئین میں آرٹیکل،11، آرٹیکل 17، آرٹیکل 18، آرٹیکل 25 اور آرٹیکل (e) 37 کے تحت مزدوروں کے حقوق کو آہینی تحفظ حاصل ھیں۔ ان آرٹیکلوں کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے کو سخت محنت والے شعبوں میں ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔ عمر اور جنس کی صلاحیت کے برخلاف یا نامناسب کاموں کے ممانعت اور روک تھام کی گارنٹی دی جائے گی۔ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے انجمن سازی کی آذادی اور بلا امتیاز جائز پیشہ اختیار کرنے کا حق یکساں طور پر تمام شہریوں کو فراہم کئے جائیں گے۔لیکن یہ صرف آئین کی حد تک پائے جاتے ھیں جبکہ زمینی حقائق مختلف ھیں۔
صنعتی دور کے آغاز سے مزدوروں کے مسائل میں مذید اضافہ ھوا، دن میں پندرہ گھنٹے سخت حالات اور کم معاوضہ پہ مزدوری کرواتے تھے۔ جاگیرداری نظام سے جنم دینے والی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد شخصی یا طبقاتی خود غرضی و نفع اندوزی رہی ھے۔ محنت کش دشمن سرمایہ دار نظام نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنا دیا۔ مزدوروں کی اس حالت پر کارل مارکس کہتے ہیں۔ ” محنت کشوں کے پاس کھونے کے لئیے سوائے بیڑیوں کے کچھ نہیں لیکن مزدوروں کے پاوں میں تو بیڑی تک نہیں کہ اسے توڑ کر بیچ دے”۔
بقول شاعر
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا ۔
انیسویں صدی کے آخر میں مزدوروں نے صنعت کاروں کی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کی اور ان کی تحریک میں شدت اس وقت آئی جب امریکی میں نئے قانون کے تحت دفاتروں کے ملازمیں اور پبلک ورکرز کو روزانہ 8 گھنٹے کام کرنے کا حق دیا گیا جبکہ صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ امریکن فیڈریشن آف لیبر یونین نے 1884 میں 8 گھنٹے اوقات کار طے کرنے کے لئے قرارداد پیش کی۔ مزدور تحریک کا مرکز شکاگو بنا کیونکہ وہاں صنعت کاروں نے فیکٹریوں میں چودہ گھنٹے اوقات کار مقرر کیا تھا۔ یکم مئی 1886 کو شکاگو کے اے مارکیٹ اسکوئر میں مزدوروں نے احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرے کے تیسرے دن نامعلوم شخص نے پولیس پر دستی بم پھینکا جس سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور سینکڑوں کی تعداد مزدور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد پولیس نے مزدوروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 38 مزدور شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے ۔ مزدوروں کے قمیض خون کے رنگ سے سرخ ھوئے ۔ اس دن سے سرخ رنگ مزدوروں کے عالمی پرچم اور مزدور انقلاب کی نشانی بن گئی ۔ احتجاج میں شامل مزدوروں رھنماوں اوگسٹ اسپاہس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج انجن کو گرفتار کر 11، نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی اور دیگر رھنماوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ مزدوروں کی اس تحریک نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اور مزدوروں کو انکا حق دلانے میں کامیاب ھوئے۔
دنیا کے اکثر ممالک تیزی سے پھیلنے والی وباء کورونا وائرس(کوڈ 19) کا بری طرح شکار ھوچکے ھیں۔ گلوبل دنیا کا حصہ ھونے پر پاکستان بھی کورونا وائرس کی زد میں آگیا ھے۔ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس نے سب سے زیادہ مزدوروں اور ڈیلی ویجز ملازمین کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ لیکن ان ملکوں کے برعکس پاکستان میں حکومتی نااہلی، غلط حکمت عملی، بے بسی، اناہیت اور یکساں و موثر پالیسی نہ ھونے کے باعث عوام اور خاص طور پر مزدوروں مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ ھوا ہے ۔ اگر حالات یہی رہے تو اس بات کے امکانات بہت زیادہ ھیں کہ مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل اور مشکلات خطرناک حد تک بڑھ جائیں گے جس پر قابو پانا حکمرانوں کے بس سے باہر ھوجائے گا۔ مزدوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے مزدوروں کے مسائل و مشکلات جلد از جلد حل کرنے چاہئے اور مزدوروں کی بہتر زندگی اور بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بیروزگاری الاؤنس یا مالی پیکجز سمیت دیگر سہولیات فراہم کیے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں